عبدالستار ایدھی، فرش سے عرش تک

شاہدالاسلام
پاکستانی قوم کاحقیقی مسیحا، دکھی انسانیت کا سچا خدمت گزار،ہزاروں یتیموں کا والی اور لاکھوں ضروت مندوں کامددگار یعنی عبدالستار ایدھی 88سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت تو ہوگیالیکن اُس نے پاکستان کی بدقسمت قوم کو اپنے طرز ہائے عمل سے یہ ضرور بتا دیا کہ فقیری میں شہنشاہی والا مقام و مرتبہ حاصل کرناکسی ایسے شٰخص کیلئے بھی ممکن ہے،جوخاک نشیں ہونے کے باوجود جذبۂ صادق رکھتا ہو اورانسانیت کی فلاح اُس کی زندگی کا حقیقی مقصدہو۔عبدالستار ایدھی کے پاس مال و زرتو کچھ بھی نہیں تھا مگر جنون کی حد تک خدمت خلق کا جذبہ ضرور موجود تھاجس کا انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ استعمال کیاجو درحقیقت اُن کی شخصیت کو’ٖغیر معمولی شخصیت‘ میں بدل ڈالنے کا باعث بن گیا۔ایدھی اس وقت پاکستان کی غالباًواحد ایسی ہستی تھے،جنہیں من حیث القوم پاکستانیوں کا محبوب ترین شخصیت کہلانے کا شرف بھی حاصل تھا۔ خاکساری ان کی زندگی کاحقیقی سرمایہ تھا،جس کا عملی نمونہ اُنہوں نے کچھ اس طرح پیش کیاجو اپنے آپ میں بے نظیر بھی ہے،لائق تقلید بھی اورقابل رشک بھی کہ آج مرحوم عبدالستار ایدھی کا ادارہ ’ایدھی فاؤنڈیشن‘ اپنی مثال آپ ثابت ہورہا ہے۔
عام ہندوستانیوں کے درمیان مرحوم عبدالستار ایدھی کی قابل تقلید شخصیت شاید محتاج تعارف ہی رہتی، اگر ہندوستانی بچی ’گیتا ‘ بھٹک کر پاکستان نہ گئی ہوتی اور وہاں اُسے زندگی کی 13 بہاریں گزارنے کاموقع ہاتھ نہ آیا ہوتااورپھر پاکستان سے 14ویں برس میں گیتاکی گھر واپسی نہ ہوئی ہوتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گیتاکا سرحد پار سے یہاں آنا عبدالستار ایدھی کی عظیم خدمات سے ہندوستانیوں کو مکمل طور پر نہ سہی،کسی حد تک متعارف کرانے کاذریعہ ضرور بنااوریوں عام ہندوستانی یہ جان پائے کہ اُس پاکستان میں جہاں دہشت گردی کی فصلیں اُگ رہی ہیں،دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانے والا کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے،جو دنیا بھر کیلئے ایک مثالی کردار ہے۔
گیتا وہ ہندوستانی بچی ہے جس کا نا م اصلاً گیتا نہیں ہے بلکہ یہ نام اُسے’’ ایدھی فاؤنڈیشن ‘‘کے بانی عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی نے دیا تھا جنہوں نے مذہبی و سرحدی حدودوقیود سے بالا تر ہو کر گیتا کی پرورش میں قائدانہ و سرگرم رول ہی نہیں نبھایا تھا بلکہ اُسے اپنے والدین کے سپرد کرنے کیلئے پاکستان سے ہندوستان کے سفر کا جوکھم بھی اُٹھایا۔گیتا 2003 میں ہندوستانی ٹرین کے ذریعہ لاہور پہنچی تھی اور مقامی پولیس نے اسے’’ ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کے حوالے کر دیا تھا۔ پاکستان میں فلاحی ادارہ کے طورپر’’ ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ ایک ایسا مثبت ،موثر اور تعمیری کردار نبھارہاہے،جوعالمی برادری سے تعلق رکھنے والے عوامی خدمت گزاروں کیلئے قابل توجہ ہی نہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہے۔راستہ بھٹک کرپاکستان پہنچ جانے والی اس بچی کو جب پاکستانی حکام نے ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کے سپرد کیا تو دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ وہ ایک غیر مسلم بچی ہے۔چنانچہ ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘نے نہ صرف یہ کہ اس کے مذہبی تعلق کا خاص رکھا بلکہ اس کا نام ’’گیتا‘‘ بھی رکھ دیا کیونکہ گیتا نے اشاروں اشاروں میںیہ بتایاتھا کہ وہ سات بھائی بہن ہیں۔ گیتا نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ایک مندر گئی تھی، اس کے بعد اس نے ’ویشنو دیوی‘ لکھاتھا۔ انہی معلومات کی بنیاد پرگیتا کے غیرمسلم ہونے کی بات بھی سامنے آئی تھی اور یہ بھی کہ اُس کا خاندان ہندوستان سے تعلق رکھتاہے۔
بہرحال ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘نے گیتا کے جذبات و احساسات کا نہ صرف یہ کہ خاص خیال رکھاتھا بلکہ قوتِ گویائی اور قوتِ سماعت سے محروم اس بچی کی ’’گھرواپسی‘‘سے قبل تک اس ادارہ نے ایک ایسے محسن کا کردار بھی نبھایا تھاجو قابل رشک بھی ہے،لائق ستائش بھی بلکہ یوں کہئے کہ دنیابھر کے عوامی خدمت گزاروں کیلئے نمونۂ عمل بھی۔ گیتا کی گھرواپسی پرہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص انداز میں ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے گیتا کی نگہداشت کے عوض عبدالستارایدھی کے ادارہ کو ایک کروڑ روپے کی امداددینے کا اعلان کیاتھا لیکن قبل اس کے کہ ابھی وزیر اعظم کی اس’’مثالی فراخدلی‘‘ پر میڈیاتھرک اُٹھتا’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امدادی رقم لینے سے معذرت ظاہر کردی تھی۔عبدالستار ایدھی کے فرزندفیصل ایدھی نے موقع ضائع کئے بغیرکہا تھاکہ’’ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے امداد کے اعلان سے انھیں دلی مسرت ہوئی ہے تاہم وہ ایدھی فاؤنڈیشن کی پالیسی کی وجہ سے کسی بھی حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد قبول نہیں کرسکتے‘‘۔فیصل ایدھی نے یہ فیصلہ عبدالستار ایدھی سے مشورہ کے بعد کیاتھا۔نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ ’گیتا کا خیال رکھنے پر ایدھی خاندان کا الفاظ میں شکریہ ادا نہیں کیا جاسکتا اور وہ (عبدالستارایدھی)رحم دلی اور ہمدردی کے فرشتے ہیں۔‘ساتھ ہی وزیر اعظم نے ایک کروڑکی مالی امداد کے ذریعہ شاید ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کا قرض چکانے کی کوشش کی تھی مگرجواباًفیصل ایدھی نے یہ کہہ دیا تھاکہ’’ وہ نریندر مودی کے شکرگزار ہیں کہ لیکن انہیں مدد نہیں چاہئے‘‘۔فیصل ایدھی نے میڈیاکوبتایا تھاکہ’’ انہوں نے وزیراعظم ہندسے درخواست کی ہے کہ وہ یہ رقم ہندوستان میں گونگے، بہرے بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو عطیہ کردیں‘‘۔پتہ نہیں اُس ایک کروڑ کا کیا ہوا؟
خیراس وقت موضوع گفتگو مرحوم عبدالستار ایدھی ہیں جوسفر آخرت کو روانہ ہوچکے ہیں،اب صرف مرحوم کی یادیں ہمارے ساتھ ہوں گی۔ اُن کے حسن عمل کا نمونہ ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘اِس وقت پاکستان جیسے ناکام مملکت میں دکھی انسانیت کو نئی زندگی بخشنے میں کچھ یوں لگا ہوا ہے،جس کا تصور باہر کی دنیا کے بہت سے لوگ نہیں کرسکتے۔یہ اپنے آپ میں ایدھی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسے خوشحال ادارہ کوچھوڑاہے،جس کاسالانہ صرفہ100 کروڑ سے بھی زائدہے لیکن یہ بھی دیکھئے کہ اِس ادارہ کا بانی جب اِس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اُس کا ذاتی سرمایہ کیا سامنے آتاہے۔ دوجوڑی معمولی کپڑے، دو جوتیاں اور ذاتی مصارف کی چند اشیاء۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کوپاکستان میں مولانا ایدھی بھی کہاجاتاتھا۔موصوف خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان کی ایسی معروف شخصیت تھے، جنہیں دنیا بھر میں اپنے کرداروعمل کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔ایدھی اصلاًہندوستانی تھے۔ 1928ء میں ہندوستانی ریاست گجرات کے شہر جونا گڑھ کے قریب قصبہ بنتوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عبدالستارایک ایسے پیدائشی خدمت گزارتھے جوزمانۂ طالب علمی سے دوستوں کی چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب ان کی ماں ان کوا سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا کرتے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالی جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے خود سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔یہ1947ء کی بات ہے،جب تقسیم ہندکی صورت میں ہندوستان کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی تو ایدھی کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان چلاگیا اور کراچی میں آباد ہوا۔ 1951ء میں اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں انہوں نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھول لی، جنہوں نے ان کو طبی امورکے نشیب و فراز سکھائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ایدھی نے سادہ طرز زندگی کواپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر شب گزاری کرناعام معمول ہوا کرتاتاکہ بوقت ضرورت فوری طور پروہ رات کے اوقات میں لوگوں کی مدد کو پہنچ سکیں۔
1957ء میں کراچی میں فلو کی بڑی وبا پھیلی جس پر ایدھی حرکت میں آگئے۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیموں کی تنصیب کا عمل انجام دیا اور مفت مدافعتی ادویات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا۔ مخیر حضرات نے ان کی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم نے بھی ان کی لائق ستائش کوششوں میں دلچسپی لینا شروع کی۔نتیجتاًجو امدادی رقم حاصل ہوئی،اس سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی۔یہیں ایدھی نے ایک زچگی سنٹر اور نرسوں کی تربیت کیلئے اسکول کھول لیا اور یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغازہوا جو آج ایک شجر سایہ دار بن چکاہے۔
اس وقت ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کے پاس 800 سے زیادہ ایمبولینس ہے، جو ملک کے طول و عرض میں خدمات انجام دیا کرتی ہے۔ ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ نے اسپتالیں کھولنے اور ایمبولینس خدمات مہیاکرانے کے علاوہ کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کیلئے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اورا سکول بھی کھولے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فاؤنڈیشن نرسنگ اور ’گھر داری ‘کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں بچوں کوپناہ بھی دیتی ہے اور ان بچوں کیلئے مفت تعلیم کابھی بندوبست کرتی ہے۔اس کے علاوہ بلڈ بینک کا مربوط نظام بھی ضرورتمندوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
پاکستان کے علاوہ دنیائے اسلام میں بھی مرحوم ایدھی کو ایک ’ خود غرضی سے پاک‘ اور محترم شخص کے طور شہرت حاصل تھی۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو زندگی کے آخری ایام تک ترک نہیں کیا، وہ سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں۔کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سادگی پسندایدھی کے پاس سادہ ضروریات زندگی گزارنے کے علاوہ ان کی ملکیت کھلے جوتوں کا محض ایک جوڑا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ آج کروڑ وں میں ہے جس میں سے مرحوم نے اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرناگوارا نہ کیا۔
گرچہ عبدالستارکو احتراماً مولانا کا لقب دیا گیا تھا لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی اسکول یامدرسہ میں باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے ، جب لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کرتے ۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔شایداسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے وزیر اعظم ہندکی بھی امداد قبول کرنے سے انکار کردیاتھا۔ایدھی نے سڑکوں کے کنارے عام لوگوں سے بھیک مانگ کر خدمت خلق کا جو نمونہ پیش کیا ،وہ اپنی مثال آپ ہے۔ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے جانے والے عبدالستار ایدھی کی عظیم ترین خدمات سے کسی ہندوستانی نے کیا،شاید دنیاکے کسی بھی شخص نے سبق لینے کی زحمت نہیں کی۔بچپن میں بڑے خواب دیکھنے والے جس شخص کو’شیخ چلی‘‘ کہاگیا، وہ پاکستان میں دکھی انسانیت کے درمیان ایک مسیحا کے طور پر یوں ہی نہیں جانا گیا،بلکہ عمل پیہم کے ذریعہ محبت و انسانیت کی جولافانی مثال قائم کی،یہ اُسی کا ثمرہ ہے۔ 100کروڑ کے ادارہ کے اس ’فقیرمالک‘ کاگزرجانایقیناایک صدمہ انگیز خبرہے۔ایدھی نے جو مثالی کارنامہ انجام دیا ہے وہ یقیناآندھیوں میں چراغ جلانے کی مبارک کوشش کہلاسکتی ہے،اور یہ امیدبھی کی جاسکتی ہے اُن کے مقربین اس مثالی ادارہ کو اُسی انداز میںآگے بڑھائیں گے جس انداز میں مرحوم ایدھی نے خدمت خلق کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ دکھی انسانیت کونئی زندگی دینے والے اِس فقیر صفت ’خدمت گزارکو لاکھوں سلام!

تبصرے بند ہیں۔