عتیق انظر کی نظم،دوسرے جسم کی خواہش: ایک تجزیاتی مطالعہ!

محمد شاہد خان

عتیق انظر دوحہ کے ممتاز سینئر شاعر، ادیب  اور نقاد ہیں ، پچھلے دنوں ، اللہ نے انھیں ایک نادر مرض میں مبتلا کر دیا،  پورا جسم سر سے پاؤں تک چھالوں کی زد میں آگیا، چھالوں کی ایک کھیپ ختم نہیں ہوتی کہ دوسری اور تیسری وجود میں آ جاتی ہے جسم میں کوئی جگہ ایسی باقی نہیں رہ جاتی  جہاں زخموں کے پھول نہ کھلے ہوں ۔میں نے جب ان کی عیادت کی تو انھیں دیکھ کرمجسم حیرت بن گیا،  اور اسوقت ان کے صبرو استقلال اور جذبہ ایمانی کا بے پناہ مظاہرہ دیکھا  ،  اللہ نے انھیں حوصلہ دیا اور "بہت بھاری پتھر” انھوں نے اٹھا لیا، ہر چند کہ اسے اٹھانے میں کلیجہ منھ کو آ گیا، میر ؔ نے اسے انکسارا یوں کہا تھا:

عشق اک میر بھاری پتھر  ہے

کب یہ تجھ نا تواں سے اٹھتا ہے
میر کی شاعری  اہل  درد کو سہارا دیتی ہے، زندگی کی اس کٹھن گھڑی  میں انظرنے اپنے زخموں پر،میر کی شاعری کا مرہم رکھا، ان کےمصرعے”میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا”پر اپنی کیفیت کے اظہار کے لیے غزل کہی اور اس عظیم شاعر کو خراج عقیدت بھی پیش کیا،  غزل شوشل میڈیا میں آئی تو اس پر کئی احباب کی  مختصر رائے بھی آئی:

"تخیل سے آزاد ایک تکلیف دہ حقیقت کا ایسا شاعرانہ اظہار انظر بھائی آپ کا ہی حصہ ہے۔۔۔کمال کے اشعار ہیں ” حسیب رحمان ندوی/قطر

"اپنے جذبات اور احساسات کا ایسا خوبصورت اظہار خال خال ہی نظر آتا ہے عتیق بھائی بہت دعائیں ” ابو الحسن/سعودیہ

لی جیے آپ بھی  عتیق انظر کی غزل   پڑھیے اور دیکھیے کہ ایک سچا اور اچھا شاعر کس طر ح غم ذات کو غم کائنات اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیتا ہے،

مطلع ہے

اپنے لہو کی آگ میں ایسا ابل گیا
چهالوں سے میرے جسم کا نقشہ بدل گیا

اپنے لہو کی آگ میں ابلنے سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مرض شاید خارجی عوامل کے سبب نہیں بلکہ  جسم میں داخلی اور مدافعتی نظام کی پیچیدگی کی وجہ سےلاحق ہوا  اور چھالوں کے نقوش تو جسم پر کہیں کہیں  ایسے تھے جیسے کسی ماہر فنکار نے ٹیٹو بنا دیے ہوں ، اس کی بڑی  خوبصورت عکاسی انظر نے اپنی نظم میں کی ہے ، لیکن اس پر گفتگو ہم اس غزل کے بعد کریں گے۔

شعر دیکھیں :
یہ درد بهی عطا ہے تری اور صبر بهی
دونوں پہ تیرا شکر کیا جی سنبهل گیا

راحت اور مصیبت دونوں ہی مراحل بڑےآزمائشی  اور اہم ہوتے ہیں ، جہاں راحت بسا اوقت انسان کو کفران نعمت تک پہونچا دیتی ہے وہیں مصیبت اسے کفر تک گھسیٹ لے جاتی ہے ،وہ انسان عظیم ہوتا ہے جو عیش وراحت پر اللہ کا شکر کرے اور مصیبت پرصبر کرے، آخری مغل تاج  دار بہادر شاہ ظفر نے کیا خوب کہا ہے:

ظفؔر آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

خوشحالی میں اگر شکر شامل ہوجائےتو وہ نمونہ سلیمانی بن جاتا ہے اور اگرناشکری درآئے تو پھر وہ نمونہ فرعونی بن جاتا ہے ، مصیبتوں میں اگر صبر وتحمل کا دامن تھام لیا جائے  تو وہ اسوۂ ایوبی بن جاتا ہے اور اگر یہ صبر وتحمل رخصت ہوجائے تووہ راہی کفر ہوجاتا ہے ، شاعر نے کیا اچھی بات کہی ہےکہ جس نے درد دیا ہے اس کا کرم ہےکہ اس نے دردپر صبر کا حوصلہ بھی دیا ہے ۔
سویا ہوں آج زخموں کے کانٹوں پہ چین سے
جس حادثے سے جان کو خطرہ تها ٹل گیا

مٹی ہوں کوزہ گر سے شکایت میں کیا کروں
جس روپ میں بهی اس نے مجهے ڈهالا ڈهل گیا

جب بات روشنی کی حفاظت کی آ گئی
پهر خود ہی میں چراغ بنا اور جل گیا

"پتهر وہ بهاری” میں نے اٹهایا ہے میر جی
لیکن خدا گواہ  کلیجہ نکل گیا

غزل مرصع تو ہے ہی لیکن ان کی نظم  اتنی اچھی ہےکہ اردو کی بہترین اور شاہکار نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے، اس طرح کی نظم ہماری شاعری میں خال خال نظر آئے گی،یہ کمال ہنر ہے کہ شاعر غم ذات کو غم کائنات اور  آپ بیتی کو جگ بیتی  بنا دے، یہ دراصل ایک رجائی نظم ہے ، نظم پڑھتے وقت شاعر کی آپ بیتی آپ کو اپنی آپ بیتی محسوس ہوگی ،  حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح شاعر اپنے درد سے بھی ہمارے لیے ادبی چاشنی فراہم کردیتا ہےاور اپنی تکلیف کو آہ وفغاں میں تبدیل کرنے کے بجائے اسے صدائے صبرو شکر میں ڈھال دیتا ہے ، درد والم کو قابل قبول اور زخموں کو پھول بنا دیتا ہے، شکستہ حال انسانیت کو عزم وحوصلہ اور صبر وشکر  کادرس دیتا ہے،  اس نظم میں شاعر ،انسانیت اور شاعری کے اعلی مقام پر نظرآتا ہے، میرا خیال ہے صرف اس نظم کی روشنی میں بھی عتیق انظر کی شخصیت ، کردار، مزاج، نفسیات اور فکروفن کو سمجھا جا سکتا ہے، نظم پیش خدمت ہے:

دوسرے جسم کی خواہش
آج  پت جهڑ سے جیون میں پہلے پہل
میرے بے رنگ بنجر بدن کی زمیں
کلبلانے لگی
زلزلہ جسم میں ایسا برپا ہوا
سب دفینے خزینے بدن سے ابلنے لگے
آبلوں اور چهالوں کے انکر نکلنے لگے
لال پیلے ہرے بیگنی کتهئی
زخم کے پهول کهلنے لگے
میرے بے رنگ بنجر بدن کی زمیں لہلہانے لگی
میری حیرت بڑهانے لگی
میری مٹی بهی اپجاؤ ہے اس قدر
میں نے سوچا نہ تها
اک مہینے میں
زخموں کی چهے سات فصلیں کٹیں
زندگی بهر کی محرومیوں کا گلہ مٹ گیا
جسم کی لہلہاتی زمیں دیکھ کر میرا جی خوش ہوا
زخم پہلا جو تها…. داغ ہے
دوسرا   سوکهنے کے مراحل میں ہے
تیسرا   پهول کی شکل کهلتا ہوا
اور چوتها   کلی کی طرح ہے چٹکتا ہوا
پانچواں   ہو بہو ہے کلی
اور چهٹا   کیچوے کی طرح
گیلی مٹی میں آہستہ سے رینگتا ہے ابهی
ساتواں   کلبلاتا ہے زیر زمیں
آٹهواں   مسکراتا ہے مجھ پر عدم میں کہیں
پاؤں جیسے مرے مور کے ہو گئے
"ہاتھ نرگس کا دستہ ہوا”
"جسم پر داغ آنکهوں سے کهلنے لگے”
اے خدا! اس نوازش پہ تیرا بہت شکر ہے
لیکن اب
اس بدن کی زمیں
آنے والی نئی فصل کے واسطے تنگ پڑنے لگی
میرے مالک تو اب
آبلوں کی نئی فصل کو روک دے
یا مجهے دوسرا جسم دے

نظم  شوشل میڈیا میں آئی تو اس کی بڑی پزیرائی ہوئی،  بہت سے  احباب  نےاپنی قیمتی رائے سے نوازا، نظم کی اہمیت کے پیش نظر یہاں بعض آرا نقل کی جاتی ہیں :

"بہت ہی اچھی نظم ہے، بے حد رواں دواں اور خوبصورتی سے بنی گئی، تھاٹ بھی دل کو چھو لینے والا، خاص بات یہ ہے کہ پرسنل کرب، امپرسنل بن کر بڑے کینوس پر پھیل گیا ہے” عالمخورشید /پٹنہ

"اردو شاعری میں زخموں کی کائنات بڑی وسیع ہے. آپ نے اس کی بازیافت خود اپنے وجود میں کی ہے”/خلیق زماں /بنارس

   "بے مثال باکمال نظم ہے”/جاوید دانش/کینڈا

"واہ کیا نظم کہی ہے حسب حال،بیماری کو کیا خوبصورت نظم کا پیکر عطا کیا ہے، بڑی فنکاری کے ساتھ” حسن کاظمی/لکھنؤ

"یہ نظم کوئی عام نظم نہیں ہے بلکہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھنے والی ایک سچی شاعری ہے. جس کے لفظ لفظ میں شعور و وجدان کی بے کرانی ہے، درد و تکلیف کی ایسی ترجمانی جس میں لفظ شکایت تو دور احساسِ شکایت کا ادنی شائبہ بھی نہیں ، نظم کیا ہے صبر و شکیبائی کا حسین مرقع ہے، زخموں کے اقسام اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان موجود باریک فرق کو بڑی عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے زخموں کی ایسی سچی تصویر کشی اردو ادب میں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے”۔ فضل الرحمن/دوحہ

” اپنےدرد و کرب کو زبان دینے کا فن کوئی آپ سے سیکھے کہ کیسے درد و کرب بولنے لگ جاتے ہیں ،نظم میں آپ تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں ، آپ کی نظممیں درد ، کرب ، لفظیات اور آپ کی فنکاری سبھی قدم سے قدم ملا کر چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں غرض یہ کہ آپ کی یہی ادا صرف مجھے ہی نہیں قارئیں کو بھی متاثر کرتی ہے بیشک آپ قابل داد اور قابل مبارکباد ہیں "/سھیل عثمانی/مغل سرائے

"روح تک اترتی ہوئی نظم ۔۔۔۔۔ بار بار پڑھی جانے والی نظم ہے ۔۔۔ بہت ساری داد ۔۔۔۔۔” عزیز نبیل/دوحہ

"آپ نےدرد کو لفظ کیا ہے،کمال کی نظم ہے، ایک شاعر اپنے درد ، اپنی تکلیف کو کئی ایسے نئے زاویوں سے دیکھتا ہے جو عام انسان کی نگاہ سے اوجھل رہتے ہیں ،زخموں کی فصلوں کا کاٹنا ، زخموں سے تھک کر دوسرے جسم کی خواہش جیسی تعبیریں نظم کو دعا ، بیان ، امید اور کرب کے ایسے چوراہے پر لا کھڑا کرتی ہیں جہاں ایک قاری اور سامع اس نظم کے سحر سے بڑی دیر تک نہیں نکل پاتا ۔

بھرپور نظم کی مبارکباد قبول کیجیے۔” ندیم ماہر/دوحہ

   ” بہت ہی عمدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں احساسات کو پیش کیا گیا ہے ایک روانی ایک تسلسل پوری نظم میں برقرار رکھنے کا فنقابل ے داد ہے ۔۔۔۔
میرے بےرنگ بنجر بدن کی زمیں لہلہانے لگی ۔۔

میری حیرت بڑھانے لگی
وہیں نظم کا یہ پہلو دل کو چھو جاتا ہے ۔
میرے مالک تو اب
آبلوں کی نئ فصل کو روک دے
یا مجھے دوسرا جسم دے ۔۔۔۔
لاجواب ،قابل  داد، سلامت رہیں ” /طلعت پروین/پٹنہ

"ہم آپ کی نظموں کے قدردان تو ہیں ہی لیکن مبنی بر حقیقت اس تازہ نظم نے اک لخت چونکا دیا، مفصل کیفیت سے آگاہی حاصل ہوئی، نظم کا کلائمکس حضرت شعیب علیہ السلام کو مکمل تندرستی کی منزل پر پہنچانے والا موڑ ثابت ہو، میں اس کلائمکس کے ایک ایک لفظ میں حضرت شعیب کی مناسبت سے خوبصورت تلمیح دیکھ رہا ہوں :

لیکن اب
اس بدن کی زمیں
آنے والی نئی فصل کے واسطے تنگ پڑنے لگی
میرے مالک تو اب
آبلوں کی نئی فصل کو روک دے”/مظفر نایاب/دوحہ

"ایک زندہ حکایت بیان کی ہے اس نظم میں انظر بھائی  نے ،اس میں کرب و بے چینی اور ابتلا و آزمائش پر صبر کا جو منظر پیش کیا ہے پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور آنکھیں نمناک ہو گئیں ،  ہم ایک بہترین ادبی شاہکار سے مستفید ہوے”/راشد عالم راشد/دوحہ

"نظم اچھی سے کہیں زیادہ آگے کی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس میں آپ کی جسمانی اذیت بول رہی ہے”/ابو الحسن/سعودیہ

"حیران ہوں کن الفاظ میں نظم پر بات کروں ۔سچ یہ ہے کہ یہ میری بساط سے باہر ہے،میں اس نظم میں آپ کی فنکاری کو بام عروج پر دیکھتا ہوں "/بسمل/جموں کشمیر

"نظم بہت ہی  عمدہ ہے اور استعاراتی آہنگ کی خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے۔ ذات وکائنات سے مربوط زندگی اور اس کے پہلو میں چھپے درد کا اس سے اچھا اظہار اور کیا ہوگا”/سید شکیل احمد/کلکتہ

مذکورہ بالا تبصروں  کو آگے بڑھاتے ہوے ، میں تھوڑی  سی گفتگو اس نظم پر کرنا چاہوں گا، نظم کی روانی اور بہاؤ  کا کئی احباب نے ذکر کیا، یہ اس نظم  کیایک اہم خوبی ہے،  عتیق انظر غزل اور نظم دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ،  ان کے اولیں مجموعہ کلام "پہچان” میں شامل نظموں پر گفتکو کرتے ہوے مشہور شاعر بلراج کومل نےآج سے 24 سال پہلے  کہا تھا:

"بیش تر نظمیں جو ہمارے پرچوں میں اور نظموں کے مجموعوں میں شائع ہوتی ہیں ، وہ منتشر تفصیلات کے مجموعے ہیں ،  یعنی آپ کو مصرعے، الفاظ ساری باتیں اچھی لگتی ہیں  لیکن وہ نظم جو ہے کسی نامیاتی اکائی  Organic Whole  کے روپ   میں مکمل ہو کر ہمارے سامنے نہیں آتی،  عتیق انظر کی نظمیں منتشر تفصیلات کا مجموعہ نہیں ہیں ،دوسرا یہ کہ ساری کی ساری نظمیں ان کی جو اس مجموعے (پہچان) میں شامل ہیں وہ اپنے نقطہ تکمیل پر ایک نامیاتی وحدت کی منزل کو پا لیتی ہیں ، یہ بات اب بہت کم شاعروں میں ہمارے یہاں نظر آتی ہے”۔

عتیق انظر کی اس تازہ نظم  کے بارے میں بھی میں آنجہانی بلراج کو مل کی بات دہرانا چاہوں گا، انظر کو نظموں پر کمال کی دسترس حاصل ہے، نظم کی لفظیات، اس کا تسلسل، ابتدا، کلائمکس، اختتام،  ہیئت اور بنت،  رواں مصرعوں کی ساخت،  غرض وہ نظم کے ہر جز پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ، نظم کو کہاں اور کتنا پھیلانا ہے  کہاں سمیٹنا ہے، نظم کی داخلی معاون تفصیلات سے گریز اور اصل موضوع کی طرف رجوع  ، ان سب کا انھیں بخوبی ادراک ہے، نظم کی ابتدا ہی عجیب شاعرانہ اور ساحرانہ  انداز میں ہوتی ہے:

 ” آج  پت جهڑ سے جیون میں پہلے پہل

میرے بے رنگ بنجر بدن کی زمیں
کلبلانے لگی”

آپ   دیکھیں کس  طرح کے نرم، ملائم اور سبک الفاظ ہیں ، ” پت جهڑ سے جیون، بے رنگ بنجر بدن کی زمیں ، کلبلانے لگی” لفظوں کے انتخاب اور انھیں برتنے کے معاملے میں اسی طرح کا رویہ آپ کو پوری نظم میں نظر آئے گا، جس سے شاعر کے مزاج اورپس منظر کا بھی پتا چلتا ہے، شاعر کے مشاہدے کی گہرائی کے لیے نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیں :

"اور چهٹا   کیچوے کی طرح
گیلی مٹی میں آہستہ سے رینگتا ہے ابهی”

ان مصرعوں کو پڑھ کر میرا ذہن فورا مچھلی کے شکار  کی طرف منتقل ہو گیا، بچپن میں ہم مچھلی کے شکار کے لیے کانٹوں میں کیچوےکا استعمال کرتے تھے،  جنھیں ہم عام طور پربرسات کے موسم میں باغ کی مٹی سے حاصل کرتے تھے،  کیچوؤں  کی موجودگی کا پتا، ہم سطح زمین پرابھری ہوئی ان کی مٹی رنگ غلاظت  یا زیر زمیں ان کی چال سے ابھری ہوئی مٹی کو دیکھ کر کرتے تھے۔

نظم کے اخیر میں میر کے دو  مصرعوں سے استفادہ کرتے ہوے انھیں بھی خراج عقیدت  کیا ہے:

"ہاتھ نرگس کا دستہ ہوا”
"جسم پر داغ آنکهوں سے کهلنے لگے”

شاعر کے ہاتھوں پر زخم نرگس کے پھول کی طرح لگ رہے تھے اور جو زخم سوکھ کر داغ  بن رہے تھے وہ  گویا آنکھوں کی طرح کھل رہے تھے۔

دراصل شاعری وہی اچھی ہوتی ہے جس میں الفاظ سچے جذبات اور احساسات  کا آئینہ بن جائیں ، اس  نظم کی بڑی خوبی یہ کہ شاعر نےکمال ہنرمندی سے غم ذات کو غم کائنات میں تبدیل کر دیاہے اور انتہائی اذیت ناک اور کریہہ منظر کو بھی مسرت انگیز اور خوبصورت بنا دیا ہے،جس طرح کسی زرخیز مٹی میں فصل لہلہاتی ہے اسی طرح شاعر کا جسم بھی جسے وہ بنجر زمین کی طرح بے کار سمجھ رہا تھا ،ان آبلوں کیلئے بڑا زرخیز ثابت ہوا ہے،جس پر زخموں کی رنگا رنگ فصل لہلہا اٹھی ہے ، نظم کی جادو بیانی، قاری کو  پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اوراس کے احساسات کو ان مراحل سے گزار دیتی ہے ،جن مراحل سے شاعرخودگزرا ہوتاہے، اختتام میں بھی بڑی فنکاری اور چابک دستی سے کا م لیا گیا ہے،نظم کے آخری حصے میں شاعر اللہ رب العزت کے حضور ملتجی ہوتا ہے :

میرے مالک تو اب
آبلوں کی نئی فصل کو روک دے
یا مجهے دوسرا جسم دے

دوسرے جسم کی طلب میں بھی شاعر نے گنجایش  رکھی ہے۔ بہت خوبصورت  اور معنویت سے بھر پور اختتام ہے،دوسرے جسم  کی طلب سے مقصود جہاں اس مصیبت سے نجات کی خواہش ہے، وہیں یہ بھی مفہوم ہے کہ شاعرآبلوں کی نئی فصل کے لیے، اپنےجسم پر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے فکر مند ہے،یہ زخموں کی توہین ہےکہ ان کے انکر نکلیں اور انھیں بارآور ہونے کی جگہ نہ ملے، شاعر چاہتا ہے کہ جب اس کے بدن کی زمیں پر زخموں کی فصل اگے تو اسے لہلہانے کےلیے مناسب جگہ ملے، موجودہ بدن کی زمیں ناکافی ہے، اس لیے اسے دوسرا جسم عطا ہو تاکہ زخموں کو زمین کی تنگی کا گلہ نہ ہو، سادہ   او رآسان زبان  میں کہی گئی یہ نظم  معیاری اور معتبر شاعری کی مثال ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی جلد از جلد انظر بھائی کو اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دے اور ان کومکمل صحتیاب فرمائے ۔

تبصرے بند ہیں۔