عدالت کا فیصلہ پرسنل لاء پر حملہ

حفیظ نعمانی

توقع کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پرسنل لاء پر حملہ قرار دیا اور اُسے ناقابل برداشت کہا اور بتایا کہ بورڈ ایک کمیٹی بنائے گا جو تین طلاق سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے گا۔

ایک نشست میں تین طلاق کے بارے میں بورڈ کے اندر اور باہر سب نے اس پر تنقید کی ہے اور اسے بدترین حرکت قرار دیا ہے لیکن وہ اُسے غیرشرعی کیسے مان سکتا ہے جبکہ متفقہ حدیث موجود ہے کہ حضور اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں یہ خبر آئی کہ ایک مسلمان نے ایک ہی نشست میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں جس پر حضور اکرمؐ کا چہرئہ انور سرخ ہوگیا اور اس پر اپنی ناگواری کا اظہار فرمایا۔ ایک صحابیؓ جو قریب موجود تھے انہوں نے اجازت مانگی کہ آپؐ حکم دیں تو میں اس کا سرقلم کردوں ؟ انہیں اجازت نہیں ملی لیکن یہ بھی نہیں فرمایا کہ یہ تین طلاق برابر ایک طلاق ہے۔ یعنی طلاق کا ہوجانا مان لیا گیا۔

اب مسلمانوں میں ایک وہ طبقہ جس کے نزدیک حکومت اور عدالت شریعت سے اوپر ہے وہ اسے مانیں گے لیکن جو طبقہ شریعت کو حرفِ آخر مانتا ہے وہ اظہار چاہے نہ کرے عمل شریعت پر ہی کرے گا اور کرنا بھی چاہئے اس لئے کہ جو عورتیں مختلف عمر کی اس مطالبہ کو لے کر اُٹھی تھیں ان کی حیثیت رادھے ماں سے زیادہ نہیں ہے اور وہ کسی نظریہ کے طور پر نہیں بلکہ فیشن کے طور پر برقع کے اندر اور برقع کے باہر میدان میں آئی تھیں ۔ وہ دستور میں مرد اور عورت برابر کی بنیاد پر مطالبہ کررہی تھیں ۔ ان کے نزدیک شریعت نے جو دونوں کو ہر اعتبار سے برابر کا درجہ یا ہے وہ ناکافی ہے۔ اور یہ ان کی جہالت ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ڈنڈے کے زور پر مسلمان مردوں اور عورتوں کو شریعت کا پابند نہیں کرسکتا اور نہ وہ اس لئے بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے ان کو زندگی گذارنے کیلئے رہنمائی کرنے والی ہر زبان میں کتابیں موجود ہیں اور جو تعلیم یافتہ نہیں ہیں وہ تعلیم یافتہ بہنوں سے معلوم کرسکتی ہیں ۔ زندگی کو تلخ کرنے والی سیکڑوں باتوں میں طلاق تو وہ چیز ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے اور اتنی بڑی نعمت ہے کہ ملک کے ہندو دانشوروں نے اسے ہندو سماج کیلئے اسلام سے ہی لیا ہے ورنہ سناتن دھرم یا ہندو سماج میں طلاق کا نہ ذکر تھا نہ نام؟

1500 برس کے بعد اب اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں بھی کہیں کہیں یہ ہونے لگا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ٹیلیفون سے ہی ایک دوسرے کے خیالات معلوم کرلیں حالانکہ مسلم معاشرے میں یہ بھی لاکھوں میں ایک ہے ورنہ حضور اکرمؐ نے ایک اشارہ دیا تھا کہ شادی کے لئے ’’کفو‘‘ کو ترجیح دی جائے جسے بعض مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ سید سید کے ساتھ، پٹھان پٹھان کے ساتھ، شیخ شیخ کے ساتھ جبکہ حضور اکرمؐ کا اشارہ تھا کہ اپنے ہم رتبہ، حیثیت اور ماحول کے ساتھ۔ تاکہ نئے گھر میں آنے والی لڑکی گھر والوں کے لئے اجنبی نہ ہو اور کھانے پینے میں اسے نیاپن نہ محسوس ہو۔

ہمارے ملک میں ہر دو سو کلومیٹر کے بعد کھانے اور پہننے میں فرق ہوجاتا ہے۔ ہم سنبھل میں پیدا ہوئے ہمارے بچپن بلکہ جوانی تک چاول اس دن پکتے تھے جب کوئی مہمان آتا تھا اور وہ بغیر گوشت کے نہیں پکتے تھے۔ یا پکتے تھے تو بگھار کے پکتے تھے اور روٹی سے پہلے کھائے جاتے تھے۔ ایک مشاعرہ میں شارب رُدولوی بھی بلائے گئے تھے میں نے مشاعرہ کے بعد انہیں دو دن کے لئے روک لیا۔ وہاں جس گھر میں بھی دعوت ہوئی وہاں پلائو پہلے آیا اور روٹی بعد میں ۔ شارب نے لکھنؤ آکر کہا کہ حفیظ اس متمدن علاقہ کا رہنے والا ہے جہاں چاول پہلے کھایا جاتا ہے! سنبھل اور لکھنؤ میں تین سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور دنیا اتنی بدلی ہوئی ہے کہ جس پر تبصرے ہوتے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹوں اور نواسوں کی ہر شادی لکھنؤ یا جوار میں کی صرف اس وجہ سے کہ عادات کا فرق مسئلہ نہ بنے۔

یہ آقائے کائنات کی بصیرت تھی جو آپ نے نصیحت کی کہ اہل کفو میں شادیاں کرو۔ آپؐ کو یقین تھا کہ اسلام پوری دنیا میں پھیلے گا اور غیرملکوں کی لڑکیوں سے بھی نکاح ہوں گے ان میں اونچ نیچ کا ٹکرائو نہ ہو اس کا علاج یہ ہے کہ جس حیثیت کا لڑکا ہو اس حیثیت کی لڑکی ہو۔ مسلمانوں میں ہی نہیں ہر مذہب میں زیادہ طلاق کے واقعات وہاں ہوتے ہیں جہاں اس دیوار کو توڑا جاتا ہے اور پھر جب عشق کا بھوت اتر جاتا ہے تو گرمی گرمی اور سردی سردی لگنے لگتی ہے۔

ہمارے خاندان میں جو لڑکیاں آئیں ان سب کے گھروں میں اُبلے ہوئے چاول دال کے ساتھ کھانے کا رواج تھا اور ہم سب بگھرے ہوئے چاول کھاتے آئے تھے اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جن میں فرق تھا لیکن دونوں نے آپس میں مصالحت کرلی کچھ آنے والی بیٹیاں پیچھے ہٹیں اور کچھ ہم ہٹے جس کا خوشگوار نتیجہ یہ ہے کہ کسی نے ہمارے گھر میں اونچی آواز نہیں سنی اور خود میرا حال یہ ہے کہ کبرسنی اور معذوریوں کے باوجود پرسکون زندگی گذار رہا ہوں ۔ جن عورتوں نے تین طلاق کو میونسپل بورڈ کا الیکشن بنایا تھا وہ اس لئے کسی شمار قطار میں نہیں ہیں کہ دوسرے ہاتھوں کا کھلونا ہیں اب بابا رام رہیم کی حقیقت اور آسارام بابا کی اصلیت نے پورے ہندو سماج کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اور آخرکار اکھاڑہ پریشد نے اعلان کیا کہ ڈھونگی اور فرضی بابائوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اور حکومت کارروائی کرے۔ اس کے جواب میں شری کشن منی نے اکھاڑہ پریشد کو بدعنوان قرار دیا ہے اور بدکرداری کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا ہے۔ اب عدالت کے سامنے حکومت کو یہ مسئلہ بھی لانا چاہئے اس لئے کہ یہ سو کروڑ کا معاملہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔