عدلیہ اور جمہوریت پر فسطائی سائے (دوسری قسط)

عبدالعزیز

 راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری جماعت ہے۔ اس کی تصدیق پریواری نمائندوں کے متضاد بیانات سے ہوتی ہے۔ یہ جماعت مصلحتاً جمہوریت کا چولا بدل سکتی ہے اور مکھوٹوں کے سہارے عوام کو دھوکے دے سکتی ہے لیکن درحقیقت یہ نہ جمہوری ہے اور نہ سیکولر۔ اسے ’’ہندو فاشزم‘‘ کی تنظیم کہہ سکتے ہیں۔ ’’فاشزم اور آر ایس ایس میں لیڈری کا اصول، عسکریت پر زور، نسلی و ثقافتی برتری کا احساس، ماضی بعید کی عظمت کی علامتوں کا استعمال، قومیت کی نئی تعریف اور قومیت کے دائرہ سے دیگر مذہبی اقلیتوں اور ثقافتی گروہوں کا اخراج قدر مشترک ہیں‘‘۔

  عالمی تاریخ شاہد ہے کہ فسطائی طاقتیں ہمیشہ جمہوریت کا نقاب لگاکر اہم اداروں کو ختم کر دیتی ہیں اور اس عمل سے ڈکٹیٹر شپ کیلئے راہ ہموار جاتی ہے۔ سنگھ پریوار کے سیاسی فلسفے میں پارلیمانی جمہوریت، وفاقیت، سماجی و معاشی انصاف، اقلیتوں کے تحفظ اور غیر ہندو عقائد کی تبلیغ اور اشاعت کیلئے گنجائش نہیں ہے۔ سنگھ اکثریتی طبقے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ملک سے غداری کا الزام لگاتی رہی ہے اور عام ہندوؤں کو دھرم سنسکرتی کے نام پر مشتعل کرکے فسادات کراتی رہی ہے۔ آر ایس ایس کا ہندوتو نظریہ سناتنی ہندو مذہبی فلسفہ سے بالکل الگ ہے۔ اسے ہم فسطائیت کا مذہبی روپ کہہ سکتے ہیں۔ گرو گولوالکر اپنے ’’خوشۂ افکار‘‘ (Bunch of Thought) میں لکھتے ہیں:

’’ہندستان میں صرف انہی لوگوں کو رہنے کا حق ہے جو ’ہندو راشٹر‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔ غیر ہندو لوگوں کو ہندو کلچر اور زبان اختیار کرنا پڑے گی۔ یہ لوگ جب تک اپنی تہذیبی شناخت قائم رکھیں گے انھیں غیر ملکی ہی تصور کیا جائے گا اور ان کیلئے صرف دو ہی راستے کھلے ہیں، یا تو وہ ہندو راشٹر کے دھارے میں جذب ہوکر اس کے کلچر کو اپنائیں یا پھر ہندو قوم کے ماتحت تابع دار بن کر رہیں۔ انھیں کسی قسم کے حقوق حتیٰ کہ شہری حقوق تک کیلئے توقع نہیں رکھنی چاہئے‘‘۔

 گروجی کے خاص چیلے اور موجودہ سنگھی سربراہ ایس سدرشن نے ہندو راشٹر کے قیام کیلئے دستورِ ہند کو بدلنے پر خاص زور دیا ہے:

 ’’یہی نہیں مسلمانوں کیلئے ہٹلری کا فرمان ہے کہ وہ ہندستانیت کے رنگ میں رنگ جائیں اور اپنے سوچنے کا طریقہ بدلیں۔ مسلمان مکہ، مدینہ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں اور ان کے مقابلے میں ہندستان کو ترجیح دیں اور غیر ملکی اسلام سے قطع تعلق کرلیں‘‘ (سید علی: قومی آواز، 7اپریل 2000ء)۔

  یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر بی جے پی کو بغیر کسی اتحادی کے مرکز میں اکثریت حاصل ہوگئی تو اقلیتوں کی ’’شدھی‘‘ کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی پروگرام پورے جوش و انہماک سے نافذ ہوگا۔

  آر ایس ایس نے جرمن اور اطالوی فسطائی جماعتوں کے معروف خطوط پر اپنے اقلیت دشمن پروگرام مرتب کئے ہیں۔ مشہور صحافی T.K.Oemen نے اپنے مضمون ’’غیروں کے ساتھ نباہ‘‘ (ہندستان ٹائمز، 23فروری 2000ء) میں اقلیتوں سے متعلق اس کے تین اہم مقاصد کی نشاندہی کی ہے:

 اول: اقلیتوں کا خاتمہ (Annihilation of Minorities)۔

 دوم:  اقلیتوں کا ہندو دھرم میں رضاکارانہ یا بزور انجذاب(assimilation)۔

  سوم: اقلیتوں کو قومی معاملات میں حاشیہ پر لانا (Marginalisation)۔

  سنگھ پریوار منظم طور پر اخباری و الیکٹرونک ذرائع ابلاغ کے ذریعے اقلیت کشی کے پیغامات ملک کے طول و عرض میں پہنچا چکی ہے۔ ’’جاگرن منچ‘‘ کے ذریعے سادھو سماج اور سرگرم پرچارک و سنچالک اپنے جلسوں، سمیناروں اور کانفرنسوں میں اشتعال انگیز تقریروں کے علاوہ زہر آلود پروپیگنڈا لٹریچر کی تبلیغ و اشاعت میں منہمک نظر آتے ہیں۔ ہندستانی میکاؤلی (عرف چانکیہ) یعنی کوٹلیہ مہاراج کے ’’ارتھ شاستر‘‘ کی تقلید کرتے ہوئے جھوٹ، مکاری، منافقت، ڈھونگ اور مکھوٹوں کی سیاست میں بھی سنگھ پریوار نے نئی منزلیں طے کی ہیں۔بابری مسجد کے انہدام سے پہلے رام مندر، گئو رکشا، ہندو سنسکرتی، یونی فارم سیول کوڈ اور کشمیر سے متعلق دفعہ 370  اس جماعت کے خاص ہدف تھے۔ اسی کی بدولت بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اہم حیثیت حاصل ہوگئی۔ 1996ء میں جب اسے مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو تضادات کی شکار اٹل بہاری باجپئی کی سرکار تیرہ دن کے اندر ہی گرگئی۔ اس شکست کے بعد سنگھی دانشوروں نے عارضی طور پر ہندوتو کی پٹری بدل کر گاندھی اور امبیڈکر کے نام پر سیکولر مکھوٹا لگایا۔ کانگریس کے زوال اور بائیں بازو پارٹیوں کے مخصوص رول کی بدولت ملک کی نام نہاد سیکولر اور سوشلسٹ علاقائی پارٹیوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر ’’قومی جمہوری اتحاد‘‘(NDA)کی سرکار بنا ڈالی۔ سنگھ پریوار کے ظاہری کایا پلٹ میں وزیر اعظم باجپئی کا رول سب سے اہم ہے۔ جب کبھی بجرنگ دل یا وشو ہندو پریشد کا کوئی سورما اقلیتوں کو چیلنج یا ہراساں کرتا ہے تو اٹل جی اپنی اعتدال پسندی سے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی لچکدار شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی صحافی نے لکھا تھا:

’’باجپئی جی قدامت پسند بھی ہیں اور لبرل بھی۔ سودیشی کے گن بھی گاتے ہیں اور رعالم کاری کے قصیدہ خواں بھی ہیں۔ ’’ہندوتو‘‘ کے اصولوں کو اپنی روح میں جذب کئے ہوئے ہیں اور ہندستانی برانڈ سیکولرزم کے حامی بھی ہیں‘‘۔

  ایسی ہمہ گیر شخصیت کے زیر قیادت ہندستانی سیاست میں کچھ معجزے رونما ہوں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

 حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے سیاسی چہرے پر جمہوری نقاب ڈال رکھا ہے اور پس پردہ سنگھ پریوار کے اصل ایجنڈا کو نافذ کرنے کیلئے تمام ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے۔ ہندو راشٹر کے خواب کی تکمیل کیلئے وہ مسلسل ایسے کام کر رہی ہے جس سے ملک کی سیاست، معیشت اور ثقافت بھگوا رنگ میں رنگ جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کے تین اہم ترین اقدامات قابل توجہ ہیں:

  (1  حکومت میں سنگھی ذہنیت کے افسروں اور عملے کا تقرر:

جن سنگھ کو سب سے پہلے جنتا حکومت (1978ء) میں رہ کر وزارت داخلہ، اطلاعات و نشریات اور تعلیمی شعبوں میں اپنے وفادار ہمنواؤں کو لانے کا موقع ملا۔ ان شعبوں کی پالیسیوں میں سنگھی رنگ چڑھانے اور ہندو راشٹر کے تصور کو عوام تک پہنچانے میں در اندازی مہم سے کافی مدد ملی۔ آج کلیدی عہدوں پر آر ایس ایس سویم سیوکوں کا تقرر خاص پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے۔ وزارت داخلہ کے تحت امن و قانون، اقلیتوں کے تحفظ اور قومی سیکورٹی کے معاملات کو حل کرنے میں پولس اور افسران کا رول کانگریسی زمانے سے واضح رہا ہے لیکن موجودہ حکومت کے زیر نگرانی دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ سرکاری ذرائع ابلاغ نہ صرف حکومت کی قصیدہ خوانی کیلئے وقف ہیں بلکہ سنگھ کے بنیادی اصولوں کے متعلق بہم پہنچاکر عوامی رائے ہموار کر رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ہندی، گجراتی اور مرہٹی اخبارات پوری کرتے ہیں جن پر فرقہ پرست سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے۔ یہی نہیں شملہ میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈی، نہرومیوزیم، انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ اور انڈین کونسل آف سوشل سائنسز کے افسران اور عملے میں تبدیلی خاص مقاصد کے تحت کی گئی ہے۔

 (2  تعلیمی معاملات:

کسی ملک میں شہریوں کی ذہنی تربیت کیلئے تعلیم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے سنگھ پریوار نے اپنے سرسوتی مندر اسکولوں اور وِدیا بھارتی اداروں کے ذریعے معصوم بچوں کے ذہن میں ہندو کلچر کے ایسے تصورات بھر رہا ہے جس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہی نہیں وہ اپنے مخصوص منصوبے کے تحت اردو دشمنی پر بھی درپے ہے۔ سہ لسانی فارمولے کو ناکام کرنے میں فرقہ پرست کانگریسیوں کو سنگھ پریوار سے روحانی اور قانونی تقویت ملتی رہی ہے۔ سابق وزیر تعلیم مرلی منوہر جوشی بقول بیریل: ’’سیکولر ملک کے وزیر کے بجائے آر ایس ایس کے پرچارکک کے طور پر کام کر رہے ہیں‘‘ (قومی آواز: 17نومبر 1999ء)۔موصوف نے وزیر اعظم کی موجودگی میں اپنی وزارت کے تحت منعقدہ قومی تعلیمی کانفرنس کی ابتدا ’’سرسوتی گان‘‘ سے کی تھی جس پر کئی ریاستوں کے وزرائے تعلیم نے بطور احتجاج واک آؤٹ کیا تھا۔ اس ذلت کے باوجود بی جے پی کی زیر حکمرانی ریاستوں میں سرسوتی گان لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہی نہیں اسکولی نصاب کو تبدیل کرکے اسے ہندوتو کے نظریات کے مطابق بنایا جارہا ہے۔

مشہور صحافی اکشے مُکل نے ’’زعفرانی نسل‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں اس حقیقت کا آشکار کیا ہے کہ کس طرح N.C.E.R.T. کے ذریعے معصوم بچوں کی ’’ذہنی دھلائی‘‘ کی جارہی ہے۔ (ہندستان ٹائمز:19دسمبر 1999ء)۔ 14جولائی 1999ء کو وزیر تعلیم مرلی منوہر جوشی نے جے ایس راجپوت کو این سی ای آر ٹی کا ڈائرکٹر مقرر کیا۔ اس وقت سے اس کیمپس میں تعلیم سے زیادہ ’ہندوتو آئیڈیالوجی‘ کی اشاعت ہونے لگی ہے۔ وزیر تعلیم مستقل اس بات کی تاکید کر رہے ہیں کہ اسکولوں کے نصاب ایسے مرتب کئے جائیں جن سے ہندستانی بچوں کو فخر محسوس ہوسکے۔ یہ در اصل ’’گَرو (فخر)سے کہو ہم ہندو ہیں‘‘۔جیسے نعرہ کا تعلیمی شعبے میں آواز بازگشت ہے۔ قدیم ہندو تہذیب کے اہم نکات کو اجاگر کرنے کیلئے ’’غیر ملکی وراثت‘‘ (Alien Legacy) کے خاتمے اور ’’سمپورن بھارتیَتا‘‘ پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔