اسلامک فلاسفی آف ایجوکیشن

مجتبیٰ فاروق

جدید نظام تعلیم انتہائی ناقص اور محدود ہے۔ اس میں خالق کائنات کے بارے میں کوئی صاف اور واضح تصور نہیں ہے۔ اس نظام تعلیم میں نہ ہی خدا کی اور نہ ہی وحی الٰہی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس کا دوسرا بنیادی نقض مادہ پرستی ہے جس میں ہر چیز اور ہر معاملہ پیٹ ہی نگاہ سے دیکھا اور تولا جاتا ہے۔ انسانی اور سماجی ضرورت کے برعکس اس میں ذاتی مفادات کا پہلو غالب ہے۔ اس نظام تعلیم کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس نے ہر چیز کو دو خانوں میں بانٹا، مذہب کو سیاست سے الگ کر کے مذہب اور ریاست کا آپس میں کوئی تعلق باقی نہیں رکھا۔ اس نے مذہب کو انسان کا ایک ذاتی مسئلہ قرار دیا۔ اس کے علاوہ اس میں انسان کے آفاقی مشن، نصب العین اور انسان کے بحیثیت خلیفہ ہونے کی بھی کوئی رہنمائی نہیں ملتی ہے۔ نیز انسان کی حقیقی مقصد زندگی سے بھی اس کا کوئی سروکار نہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے جو علم کا تصور دیا ہے وہ جامع ہے۔ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی پہچان کراتا ہے اس کی مرضی و منشا کا تعارف کراتا ہے رشد و ہدایت کی طرف راہ دکھاتا ہے۔ مقصد زندگی سے آشنا کراتاہے اور اس دنیا کے بعد کی زندگی سے متعلق یقین و بصیرت عطاکرتا ہے۔

    زیر نظر کتاب "Islamic Philosphy oF Education” جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، اسلام کے فلسفہ نظام تعلیم کے موضوع پر ہے۔ اس کتاب کے مصنف معروف استاذ اور ماہر تعلیم پروفیسر کے۔محمد۔ ایرورہیں۔ انھوں نے یہ کتاب طلبا، اساتذہ، ریسرچ اسکالرس کے لیے لکھی ہے۔ کتاب دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے اورپہلا حصہ ۱۱  ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں جدید تعلیم کے فلسفیانہ بنیادوں کو گفتگو کا موضوع بنایا گیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان  "Educational philosophy”ہے جس میں مصنف نے مختلف مفکرین کی آراء کی روشنی میں تعلیم کامفہوم اور اس کے مقاصد بیان کیے۔ دوسرا باب "Sociology of Education ” کے عنوان سے ہے جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سے تعلیم انسان کو صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے تیار کرتا ہے۔ ایک اور باب کا عنوان "Philosophical Foundation of Education”ہے۔ اس باب میں مصنف نے تعلیم کے فلسفیانہ بنیادوں پر بحث کی ہے۔ اس کے بعد ” Education Philosphies "کے عنوان سے ایک اور باب ہے جس میں موصوف نے جدید تعلیم کی چار بنیادی فلسفوں پر گفتگو کی ہے جن میں آئیڈلزم، رئیلزم، نیچرلزم اور وجودیت قابل ذکر ہیں۔

   کتاب کا دوسرا حصہ اسلام کے فلسفہ تعلیم پر مشتمل ہے جو کتاب کا مرکزی موضوع بھی ہے۔ یہ حصہ ۱۵  ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے دو ابواب میں اسلام اور اس کی خصوصیات پر گفتگو کی گئی ہے۔ پہلا بابin Islam "ـ” Importance of Education  جس میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں علم کے متعلق ۷۷۹، کتاب کے متعلق ۲۷۷،سمع کے متعلق ۱۸۴، بصر کے متعلق ۱۴۸،عقل سے متعلق ۴۹، اور تفکر و تدبر کے کے متعلق ۶۱ آیتیں وارد ہیں۔ (ص: ۸۷)۔ چوتھواں باب "Aims of the Islamic Educational Philosophy "کے عنوان پر ہے جو کتاب کا سب اہم باب بھی ہے۔ اس میں مصنف مدلل انداز سے اسلام کے فلسفہ تعلیم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور کہا کہ اسلام نے تعلیم کی اہمیت و افادیت کو مقدم رکھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ علم و تعلیم کو رب کے نام سے جوڑنے کا حکم دیا تاکہ علم کا صحیح مقصد اور فائدہ ظاہر ہو۔ اس کے بعد مصنف نے اسلام کے فلسفہ تعلیم کے متعد پہلووں پر بحث کی ہے جس میں علمیات، مابعد الطبعیات، نصاب، استاد، طالب علم، اور منہج تعلیم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ایک بات بار بار کھٹکتی ہے کہ اس میں جہاں بھی مفکرین کی آراء سے استفادہ کیا گیا ہے وہاں حوالے نہیں دئیے گئے۔ امید ہے کہ آئندہ اڈیشن میں حوالوں کا اہتما م کیا جائے گا۔

 کتاب نہایت مفید ہے اور اس کو ہر طالب علم، استاد اور تعلیم پر کام کرنے والے افراد کو  ضرورمطالعہ کرنا چائیے۔

نام کتاب:   Islamic Philosophy of Education،  مصنف: پروفیسرکے۔محمد۔ ایرور، صفحات: ۲۰۴؍، قیمت: ۲۵۰؍روپے، اشاعت: ۲۰۱۷ء،  ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی

تبصرے بند ہیں۔