عدلیہ اور ہماری خوش فہمیاں  

ممتاز میر

   چند دنون سے عدالتی حلقوں میں چیف جسٹس دیپک مشرا اور مشہور و معروف وکیل پرشانت بھوشن کے تنازعہ کی گونج سنائی دے رہی ہے اس تنازعے کے تعلق سے ہمیں جتنی معلومات حاصل ہوئیں اس سے ایسا لگتاہے کہ اب تک ہندوستانی عوام کا آخری حصار ہونے والی عدالتیں جس نے اندرا گاندھی جیسی ڈکٹیٹر کے بھی ہوش ٹھکانے لادئے تھے،اب دھیرے دھیرے اس آخری حصار کو بھی ڈھایا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس واقعے کی بنیاد پر پورے ملک کی عوام اٹھ کھڑی ہوتی۔ مگر اللہ رے سناٹا، آواز نہیں آتی۔کیا ہمارے عوام، ہمارے شوشل ایکٹیوسٹ ہمارے دانشور اتنے کم عقل واقع ہوئے ہیں کہ اس واقعے کے مضمرات کی سمجھ نہیں پڑتی۔

   انڈیا ٹوڈے کے مطابق واقعہ کچھ یوں ہے کہ حکومت نے لکھنؤ کے پرساد انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ساتھ ساتھ 45 دوسرے میڈیکل کالجس پر اپنے کورسس مین طلبا کو داخلہ دینے پر 2 سال کی پابندی لگا دی تھی۔یہ کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے۔ قریب ہر سال ہی حکومت ان میڈیکل انسٹی ٹیوشنس پر پابندی عائد کرتی ہے جو اس کے دئے گئے Norms پورا نہین کر پاتے ہیں۔ معاملہ عموماً کچھ لےدے کر پٹ جاتا ہے۔کیونکہ ایک سال کی پابندی یعنی انتظامیہ کا کروڑوں کا نقصان۔یہاں تو پابندی دو سال کی تھی۔تو صاحب پرساد میڈیکل انسٹیٹیوٹ اور کچھ دوسرے کالجز نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو اس سال اگست میں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اس درخواست

کی سپریم کورٹ کی جس بنچ نے سنوائی کی اس میں چیف جسٹس دیپک مشرا بھی شامل تھے۔بنچ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت دی کہ وہ طلبا کے داخلے والے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ 10۔ اگست کو حکومت نے دوبارہ پرساد میڈیکل کالج کے دلائل کو سنا۔حکومت پرساد میڈیکل کالج کے دلائل سے مطمئن نہ ہوئی اوردو سالہ پابندی کے اپنے فیصلے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ میڈیکل کونسل آف انڈیاCMI سے پرساد میڈیکل کالج سے دو کروڑ کی بینک گارنٹی بنانے کے لئے کہا۔ اب پرساد میڈیکل کالج نے اڑیسہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جناب ایم آئی قدوسی سے رابطہ کیا جو دہلی میں اسی بلڈنگ میں رہتے ہیں جہاں پرساد میڈیکل کالج سے وابستہ ایک شخص رہتا ہے۔اب یہاں سے سازشیں شروع ہوئیں جس کی تفتیش کے لئے سی بی آئی کو تکلیف اٹھانی پڑی۔پرساد میڈیکل کالج نے ہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے میڈیکل کالجز نے بھی جسٹس ایم آئی قدوسی اور ان کے چمچوں کو By hook or Crook اس معاملے کو ختم کرانے کی ’’سپاری‘‘ دے دی۔

   سی بی آئی کی ایف آئی آر کے مطابق پرساد میڈیکل انسٹیٹیوٹ نے پھرسے سپریم کورٹ میں حکومت کے حکم کو چیلنج کرنے والی عرضی داخل کی مگر چند دنوں بعد ریٹائرڈ جسٹس قدوسی کی ہدایت پر وہ واپس لے لی۔ پھر ایک عرضی الہ باد ہائی کورٹ مین داخل کی۔ الہ باد ہائی کورٹ نے پرساد میڈیکل کالج کو عارضی ریلیف مہیا کی۔ عرضی گزار نے پھر الہ باد ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیااور اب سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی داخل کردی ہے۔سی بی آئی کے مطابق قدوسی اور بشوناتھ اگروال ججوں کو متاثر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ جسٹس قدوسی  بشوناتھ اگروال اور جسٹس دیپک مشرا ان تینوں کا تعلق ریاست اڑیسہ سے ہی ہے۔

اسی دوران Campaign for Judicial Accountibility & Reforms  کی مشہور ایڈوکیٹ محترمہ کامنی جیسوال نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن داخل کرکے مطالبہ کیا ہے کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک آزاد ایس آئی ٹی قائم کرکے اس پورے معاملے کی جانچ کی جائے کیونکہ اس سے عدالتوں کی معتبریت داؤں پر لگ گئی ہے۔ایسی ہی ایک پیٹیشن جناب پرشانت بھوشن نے بھی داخل کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں پیٹیشنوں کو ملا کر شنوائی کی جائے۔یہ پیٹیشن جسٹس چلامیشور کے سامنے پیش ہوئی۔ جسٹس چلا میشور نے حکم دیا کہ ۵ججوں کی دستوری بنچ بنائی جائے جس میں سب سے سینئر (senior most)جج شامل کئے جائیں . اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھا جائے۔ان پیٹیشنوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس تعلق سے بنائی گئی کسی بھی بنچ میں چیف جسٹس دیپک مشرا کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ وہ پرساد میڈیکل کالج کے پہلے کیسوں کی سنوائیوں میں شامل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی بی آئی نے اپنی تحقیققات مین ان کی طرف بھی اشارے کئے ہیں۔

   پیٹیشن کی سنوائی کے دن کیا ہوا اس تعلق سے پرشانت بھوشن کہتے ہیں کہ جب وہ کورٹ پہونچے تو انھیں رجسٹرار کی طرف سے پیغام ملا کہ کیس کی سنوائی جسٹس چلامیشور کی کورٹ نمبر ۶ کی بجائے چیف جسٹس کی کورٹ میں ۷ججوں کی بنچ کریگی۔ وہ جب چیف جسٹس دیپک مشرا کی کورٹ میں پہونچے تو انھیں 7 ججوں کے لئے کرسیاں لگی ہوئی نظر آئیں۔ مگر کچھ دیر بعد دو کرسیاں ہٹا لی گئیں۔ سنوائی شروع ہوئی مگر پرشانت بھوشن نے اعتراض کیا کہ چیف جسٹس ایسے کسی معاملے کی سماعت نہیں کر سکتے جس میں وہ بھی کسی اسٹیج پر ملوث رہے ہوں۔ دو

سال ہم نے بھی قانون کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ بات پیشہ ورانہProfessional Ethics کے بھی خلاف ہے کہ جج خود کیا پنے کسی رشتے دار کے ملوث ہونے کی صورت میں بھی سنوائی نہیں کر سکتا۔اس کے علاوہ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن بار بار کہتے رہے کہ انھیں بولنے  کاموقع دیا جائے اور جسٹس دیپک مشرا بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے آپ کو سننے کی ضرورت نہیں۔ جھنجھلا کر جناب پرشانت بھوشن کورٹ سے یہ کہتے ہوئے نکل گئے۔ تو پھر آپ میری غیر موجودگی جو چاہے فیصلہ سنا دیں۔

  قارئیں کرام !اس پورے واقعے کو پھر سے پڑھ لیجئے جو کہ انتہائی اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ مگر پھر بھی اس سے یہ تو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کا کیا حال ہو گیا ہے۔انصاف کے مندر میں براجمان یہ دیوی دیوتاکس حد تک گر چکے ہیں۔ اور قارئین کرام۔اس سارے پس منظر میں ہمارے ’’بزرگان دین ‘‘کے ان نعروں کو بھی یاد کیجئے کہ ہمیں اپنی عدالتوں پہ پورا بھروسہ ہے۔بابری مسجدکے محافظ سپریم کورٹ سے ہی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ اور سپریم کورٹ کے ججوں کا حال یہ ہے کہ وہ میڈیکل کالج کی دو کوڑی کی انتظامیہ سےManage ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے رام جنم بھومی والوں کے سامنے تو یہ خود سجدے میں گر پڑیں گے۔

   بابری مسجدکیس کی 68 سالہ تاریخ یہ ہے کہ دسمبر 1949 سے لے کر آج تک مسلمانوں کو نہ بیوروکریسی نے انصاف دیا ہے نہ سیاستدانوں نے نہ غریب ہندوستانیوں کی آخری امید ’’عدلیہ ‘‘نے۔بابری مسجد کے معاملے میں حکومت کے ہر عضو نے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہی کیا ہے، نا انصافی ہی کی ہے۔ 30 ستمبر 2010 کا الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ تو اس سلسلے میں ’’شاہ کار‘‘ تھا۔ بقول فیض مرحوم۔وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔اس بات کو بنیاد بنا کر فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔ اور جناب۔خیر سے اس میں ایک جج مسلمان بھی تھا آخر ایک مسلمان جج نے ایسا فیصلہ کیوں دیا تھا؟کیا وہ واقعی اسے ہی انصاف سمجھتا تھایا یہ اس کے حالات کا جبر تھا؟ہم اپنے ’’بزرگان دین ‘‘ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ اس کا حال ہے جس کا دین اسے لکشمی پوجا سے روکتا ہے۔وہ جن کا دین لکشمی پوجا کرواتا ہو ان سے تو شکایت ہی نہیں کی جا سکتی۔عدلیہ پر اعتماد بڑی اچھی چیز ہے مگر متبادل پر بھی سوچیں۔

   ہمیں نہیں معلوم کہ اس معاملے میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں جایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی بھی تیاری ابھی سے ہونی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔