عظمتِ رفتہ کی بحالی کیوں کر؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

[جناب جاوید شاہین (ایڈیٹر ماہ نامہ پیام کشمیر) کے سوالات اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے جوابات]

سوال1:امت ِمسلمہ ’خیر امت‘ اور’ امت ِوسط‘ کے نام نامی سے موصوف ہے۔ قرآن کے اس دعوے کے باوجود کہ اہلِ ایمان دنیا میں باعزت رہیں گے، آج کل کے مسلمان ہر جگہ مجبور و مقہور کیوں ہیں؟

جواب: قرآن مجید کا وعدہ مشروط ہے:

وَاَنتُم الأعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنِینَ (آل عمران: ۱۳۹)

’’تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘۔

قرآن نے غلبے کو ایمان سے مشروط قرار دیا ہے۔ مسلمان بہ حیثیت مجموعی جب تک ایمان کو تھامے رہے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے رہے وہ باعزت زندگی گزارتے رہے، لیکن جب ان کا ایمان کم زور ہوا، انھوں نے قرآن و سنت پر عمل کرنا ترک کر دیا اور دنیا کے پیچھے دوڑنے لگے ، وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ علامہ اقبال نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا ہے ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر 
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر

سوال2: دور جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم اقوام مادی اعتبارسے عروج پر ہیں۔ اس کے برعکس امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ ایک دور تھا جب ہم نے سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم زوال کا شکار ہو گئے اور غیر مسلم مغربی اور ایشیائی اقوام ترقی کر گئیں اور اب وہ سپر پاور کی حیثیت سے ہم پر حکومت کر رہی ہیں؟

جواب: دنیا پر حکم رانی کے لیے مخصوص صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ یہاں ’بقائے اصلح‘(Survival of the fittest) کا قانون نافذ ہے۔ جو بھی دنیا کا نظام چلانے کی بہتر صلاحیتیں رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ زمامِ اقتدار اسی کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ حکم رانی کے لیے معنوی اور مادی دونوں طرح کی طاقتیں مطلوب ہیں۔ مسلمان اپنے عہد ِعروج میں ان دونوں سے لیس تھے، اس لیے دیگر قومیں ان کے مقابلے میں ٹِک نہ سکیں اور وہ ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے۔ لیکن جب ان کے ایمان و اخلاق میں کم زوری آگئی اور وہ علوم و فنون میں پیچھے رہ گئے تو وہ زوال کا شکار ہو گئے اور وہ قومیں ان پر غالب ہوگئیں جنھوں نے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی حاصل کر لی۔

سوال3:خامیاں اور کم زوریاں ہر ملت میں پائی جاتی ہیں، لیکن خامیوں اور کم زوریوں پر اقوام و ملل قابو پا لیتے ہیں۔ ملت اسلامیہ میں ایسا مدت ِ مدید سے کیوں نظر نہیں آرہا ہے؟

جواب:خامیوں اور کم زوریوں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کا علم ہو ، پھر ان کو دور کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ کم زوریوں کا علم ہی نہ ہو، یا ان کی درست نشان دہی نہ کی جا سکی ہو، یا علم تو ہو گیا ہو، لیکن ان کے ازالے کی تدابیر نہ اختیار کی گئی ہوں، بہ ہر صورت ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ امت مسلمہ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ امت کے زوال کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کوشش کی گئی تو حقیقی اسباب کی نشان دہی نہیں ہو سکی۔ جن اسباب کی تعیین کی گئی ان کے ازالے کی صحیح طریقے سے منصوبہ بندی نہ ہو سکی اور ان پر عمل نہ کیا جا سکا۔ ظاہر ہے، پھر یہ خامیاں اور کم زوریاں کیوں کر دور ہو سکتی تھیں؟!

سوال4:ہرعروج کے ساتھ زوال ہے۔ امت کا زوال کب شروع ہوا؟ زوال کے اسباب کیا تھے؟ نیز ہمہ جہت زوال کیوں کررو نما ہوا؟

جواب: قرآن مجید کا بیان ہے: وَتِلکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَینَ النَّاسِ (آل عمران: ۱۴۰)’’ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت امت مسلمہ کے معاملے میں بھی رہی۔ وہ بھی صدیوں تک عروج کے منازل طے کرتی رہی، پھر زوال اس کا مقدّر ٹھہرا۔ امت نے جب تک علم کے خزانوں کو اپنی میراث سمجھا، دوسری قوموں میں جہاں بھی علم کی روشنی دکھائی دی، اس سے فیض اٹھایا، اسے اپنی تہذیب کے سانچوں میں ڈھالا، اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ ساتھ ہی ان کے درمیان اتحادو اتفاق قائم رہا، دشمنوں کے مقابلے میں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے ،اس وقت تک ان کا ستارہ ٔ اقبال بلند رہا، کوئی ان کی طاقت کو توڑنے اور اس میں شگاف ڈالنے میں کام یاب نہ ہو سکا، لیکن جب ان کی وحدت پارہ پارہ ہوئی اور وہ علوم کے میدان میں پیچھے ہو گئے تو وہ تیزی سے زوال کی کھائی میں گرتے چلے گئے۔ تاریخی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر سقوط ِ اندلس (پندرہویں صدی عیسوی) سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، جو برابر جاری ہے۔

سوال5: دور ِ عروج کے بعد آخر پھر صلاح الدین ایوبی، ابن سینا اور البیرونی جیسی شخصیات ملت ِاسلامیہ نے کیوں نہیں پیدا کیں؟

جواب: صلاح الدین ایوبی کا نام مسلمانوں کے سیاسی عروج کی علامت ہے اور ابن سینا اور البیرونی ان کے علمی عروج پر دلالت کرتے ہیں۔ جب مسلمان سیاسی اور علمی زوال کا شکار ہو گئے تو ایسی شخصیات ان کے درمیان کیوں کر پیدا ہو سکتی تھیں؟ عظیم شخصیات عظیم ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔

سوال6: وہ اسباب کیا ہیں جن سے مغرب نے زبردست ترقی کی؟ کیا مسلمانوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کے ساتھ ان اسباب میں ان لوگوں کی تقلید کرکے ان لوگوں کی طرح ہو جائیں یا ممکن نہیں ہے؟

جواب: مغرب کی ترقی علوم و فنون کے میدان میں اس کی ترقی کی دین ہے۔ جب مسلمان بام عروج پر تھے تو اہل مغرب نے صدیوں تک ان سے فیض حاصل کیا۔ مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں کئی سو برس تک ان کی دانش گاہوں کے نصاب کا جز بنی رہیں۔ ان کے تشنگان ِ علم جوق در جوق اندلس آتے اور مسلم ماہرین کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرکے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ ان علوم میں انھوں نے تجربات و مشاہدات کے ذریعہ گراں قدر اضافے کیے، جب کہ مسلمان سیاسی زوال کے نتیجے میں علوم و فنون سے بھی دور ہوتے گئے۔ بہ قول اقبال ؎

گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

مسلمان آج بھی ترقی کر سکتے ہیں، بس شرط ہے کہ وہ علم سے اپنا رشتہ از سر نو استوار کریں، جدید علوم و فنون میں مہارت پیدا کریں اور اس ارشاد نبویؐ کو اپنا ہدف بنا لیں: ’’حکمت کی بات (علم) مومن کی گم شدہ پونجی ہے، وہ اسے جہاں بھی پائے اس کا زیادہ مستحق ہے‘‘۔(ترمذی:۲۶۸۷)

سوال7: خلافت راشدہ دنیا میں صرف تیس سال اپنی آن بان اور شان کے ساتھ باقی رہی، جس کی وجہ سے دور جدید کے چند مفکرین اس کو ناکام سیاسی نظام بھی مانتے ہیں۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: خلافت راشدہ اپنی آن بان اور شان کے ساتھ صرف تیس (۳۰) برس قائم رہی، یہ اسلام کے سیاسی نظام کی ناکامی کی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس سے اس کی کام یابی کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی نظام اپنی آئیڈیل اور مکمل صورت میں ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہیں ہو سکا ہے۔ کمیونزم کو لے لیجیے۔ اس کے جو مثالی تصورات ہیں وہ اپنی کامل ترین صورت میں ایک لمحے کے لیے بھی دنیا میں رو نما نہیں ہو سکے ہیں۔ کیپٹل ازم اپنے تمام اصولوں اور جزئیات کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی قائم نہیں ہو سکا ہے۔ اگر اسلام تیس (۳۰) سال تک دنیا کے کسی خطے میں اپنی کامل صورت میں قائم رہا تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ دنیا کے سامنے ایک نمونہ موجود ہے۔ اہل اسلام اس نمونہ کو از سر نو قائم کرنے کی جدوجہد کر سکتے ہیں۔

سوال8: سقوط خلافت کے بعد شرق و غرب میں بہت سی تحریکات نے جنم لیا اور قیام خلافت کے لیے سرگرم عمل ہیں، لیکن کہیں بھی ان کو کام یابی نہیں مل رہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: سقوط خلافت کے بعد مشرق و مغرب میں بہت سی ایسی اسلامی تحریکات قائم ہوئی ہیں۔ انھوں نے احیائے اسلام کے لیے اپنی سی جدو جہد کی ہے۔ ان کی جدو جہد کو ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدیوں کے زوال و انحطاط کو یک دم ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی کیا کم ہے کہ ان تحریکات نے زوال و فساد کو روکنے کی سعی مشکور کی ہے، مسلم عوام کے ایمان و یقین کو تازہ کیا ہے اور ان کے دلوں میں اسلام کے غلبے و نفاذ کے لیے جدو جہد کرنے کا ولولہ پیدا کیا ہے۔ اگر سمت ِسفر درست ہے اور منزل پر نگاہیں ہیں تو رفتار کتنی بھی سست ہو، کوئی پروا نہیں کہ اٹھنے والاہر قدم منزل کی طرف لے جانے والا ہے۔

سوال9: اسلامی نظام نظامِ رحمت ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ایک جگہ بھی قائم نہیں ہے؟

جواب: اسلامی نظام نظامِ رحمت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، چاہے آج وہ دنیا میں عملاً کہیں بھی قائم نہ ہو۔ خوشبو خوشبو ہے، چاہے غلاظت کو پسند کرنے والوں اور اس کی بدبو پر سر دھننے والوں کی تعداد کتنی ہی بڑھ جائے۔ روشنی روشنی ہے، چاہے اس سے آنکھیں بند کر لینے والے اور اندھیروں کو پھیلانے والے کتنے ہی زیادہ ہو جائیں۔ تاریخ نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اسلامی نظام جب اپنی حقیقی صورت میں قائم تھا تو انسانوں کے مختلف طبقات کے لیے وہ رحمت تھا۔ آج بھی انسان جن مسائل کا شکار ہیں،ان سے وہ اسلامی تعلیمات کو اپنا کر ہی نجات پاسکتے ہیں۔

سوال10: مسلم دنیا میں اس وقت امید کی کرن آپ کو کہاں سے نظر آرہی ہے؟

جواب: مسلم دنیا اس وقت انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ اس میں کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ عالمی طاقتیں مسلمانوں کو باہم لڑا کر کم زور کرنا چاہتی ہیں اور وہ ان کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ ان حالات میں امید کی کرن ترکی کی طرف سے نظر آرہی ہے۔ جسے کبھی ’مرد بیمار‘ کہا جاتا تھا اب اس نے طاقت حاصل کر لی ہے۔ عالمی سیاست پر اس کی گہری نظر ہے، دشمن کی چالوں کو وہ خوب سمجھ رہا ہے۔ کبھی اسلام سے اس کا رشتہ کاٹ دیا گیا تھا،لیکن اب دوبارہ اس میں اسلامی حمیت پیدا ہو گئی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اسے کم زور کرنے کے لیے اب بھی شاطرانہ چالیں چل رہی ہیں، لیکن امید ہے کہ وہ ان کے بچھائے ہوئے جال سے کام یابی کے ساتھ نکل آئے گا اور اس کے ذریعہ اسلام کی عظمت رفتہ بحال ہوگی۔ان شاء اللہ۔

سوال 11: غلبۂ دین کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے رول کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: غلبۂ اسلام کے لیے تحریک اسلامی کی جدّو جہد لائق ِ ستائش ہے۔ ایک ایسے دور میں جب اسلام پر اعتماد متزلزل ہو رہا تھااور اسے زندگی کا پرائیویٹ معاملہ سمجھ لیا گیا تھا، تحریک اسلامی نے اسلام پر اعتماد بحال کیا، اس کے اجتماعی پہلو کو نمایاں کیا، یہ شعور پیدا کیا کہ اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں نافذ کرنا ضروری ہے،فرد کا ارتقائ، معاشرے کی اصلاح اور ریاست کی تشکیل غلبۂ اسلام کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ تحریک اسلامی کا بہت بڑا کنٹریبیوشن ہے۔

سوال12: عروج کے سینے پر سوار ہونے کے لیے امت کے لیے کیا لائحۂ عمل ہے؟

جواب: عروج اور زوال ہر ایک کے اپنے اسباب ہیں۔ عروج پانے کے لیے اس کے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے۔ امام مالک بن انسؒ نے فرمایا تھا: لَا یَصلُحُ آخِرُ ھٰذِہ الاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا یَصلُحُ بِہ أوَّلُھا ( اس امت کے آخر کی اصلاح اسی طریقے سے ہو سکتی ہے جس طریقے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔) عروج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے ایمان میں پختگی لائیں، ایمان کے تقاضوں پر عمل کریں، اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں، دینی علوم کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت پیدا کریں، اپنے وجود کو انسانیت کے لیے نافع بنائیں اور اسلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

سوال13 : نوجوان نسل خاص کر تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے آپ کا پیغام ؟

جواب: نوجوانوں اور بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ موجودہ حالات سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ اگر چہ موجودہ حالات عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر حوصلہ شکن ہیں، لیکن ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوجوان اپنے عزم و حوصلے سے حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعوری مسلمان بنیں، دین کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کے لیے کمر کس لیں۔ دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور اس کے لیے پُر امن ذرائع اختیار کریں۔ حالات کے دباؤ کے نتیجہ میں موجودہ دور میں بعض حضرات اجتماعی جدّو جہد کا انکار کر رہے ہیں اور اسے غیر دینی اور غیر شرعی قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوان علمی و فکری طور پر مضبوط ہوں۔ وہ موجودہ دور کے مسائل و مشکلات کو سمجھیں، منحرف افکار کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور دلائل کے ذریعہ ان کا رد کریں۔ ہر دور میں نوجوانوں نے ہی انقلاب کی قیادت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی بھی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ موجودہ دور میں بھی ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔