عظیم قوم کی محدود سوچ

مدثراحمد

پچھلے دنوں ہندوستان کے سب سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والے افسروں کے امتحانات کے نتائج ظاہر ہوئے۔ جس میں تقریباً50 مسلمان یو پی ایس سی کے امتحان کے ذریعے سے آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس جیسے عہدوں پر فائز ہونے کیلئے کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر سال اوسطاً40-50 مسلمان ان امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں، جبکہ ہندوستان کی مجموعی آبادی2011 کے سینس کے مطابق15 کروڑ ہے۔

حالانکہ2018 تک مسلمانوں کی آبادی اور تعلیمی شرح میں بھی اضافہ ہو اہے۔ مگرآئی اے ایس، آئی پی ایس جیسے عہدوں پر فائز ہونے میں مسلم نوجوانوں کی عدم دلچسپی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انہیں نہ اپنے مستقبل کےتعلق سے کوئی فکر ہے نہ ہی وہ اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ عام طور پر مسلم نوجوانوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ یو پی ایس سی کا امتحان نہایت سخت ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو انہیں تعصب کی وجہ سے منتخب نہیں کیا جاتا اوروہ متعصبانہ رویہ کی وجہ سے سرکاری ملازمت سے دور ہوجاتے ہیں۔ کچھ نوجوان یہ بھی سوچتے ہیں کہ یو پی ایس سی میں بھی رشوت لیکر امتحان پاس کروایا جاتا ہے۔ سراسر ہمارے نوجوانوں کی یہ سوچ غلط ہے، ہندوستان کے کئی ایسے آئی اے ایس اور آئی پی ایس پاس کرنے والے نوجوانوں کے ماضی کو دیکھا جائے تو کئی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اس امتحان کوپاس کرنے تک کئی طرح کی صعبتیں برداشت کی ہیں۔ ایک رکشا ڈرائیور کا بیٹا، ایک گھریلو ملازمہ کی بیٹی، مٹھائی بیچنے والے کا بیٹا، روزانہ اخبارات بیچ کر اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھانے والا نوجوان آئی اے ایس، آئی پی ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن ہمارے نوجوانوں کی سوچ ہمیشہ شارٹ کٹ یاپھر منفی(NEGATIVE) ہوتی ہے۔

ہمارے نوجوان ہرگز بھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ آخر اس امتحان کو کیسے دیا جائے، کامیابی کیلئے کیا طریقے اپنائے جائیں، کتنی محنت کی جائے اور کس تعلیم کے بعد ان امتحانات میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ سب سوچ ہمارے نوجوانوں میں نہیں ہے۔ دوسری جانب ہمارے تعلیمی ادارے خصوصاً مسلم تعلیمی ادارے نوجوانوں کو ان چیزوں سے واقف کرانے میں ناکام رہتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل سے جب ہم سوال کرتے ہیں کہ آئی اے ایس بننے کیلئے کیا کرنا چاہیے تو وہ آئی اے ایس بننے کے شرائط بیان کرنے کے بجائے الٹا یہ سوال کرتا ہے کہ آئی اے ایس کے معنی کیا ہیں ؟۔ ہمارے تعلیمی ادارے ان تمام چیزوں کو طلباء سے متعارف کرانے میں ناکام ہوئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہماری سماجی، ملّی و فلاحی تنظیمیں بھی ان باتوں سے ناواقف ہیں اور یہ تنظیمیں وادارے خود ہی نہیں چاہتے کہ ہمارے نوجوان ان شعبوں میں آگئے آئیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں تعلیم حاصل کرنے یا امتیازی نمبرات لینے والے طلباء کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، ان کی ہمت افزائی کرنے والے کم ہیں، سیاستدانوں کی خوب چاپلوسی کی جاتی ہے، ان کے برتھ ڈے کو عید کی طرح منانے کیلئے ہماری تنظیمیں تیار رہتی ہیں، ہمارے جلسوں میں غیروں کی آئوبھگت کی جاتی ہے انہیں تہنیت پیش کی جاتی ہے، ان کی گل پوشی وشال پوشی کی جاتی ہے، لیکن جو نوجوان نسل ہمارے لئے سرمایہ بن سکے انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہمارے ملّی اداروں میں سال میں ایک دفعہ ختنہ کیلئے بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے، اوقافی اداروں میں ہونٹ بھی نہ بھیگیں اس طرح کی مالی امداد دی جاتی ہے۔ امیروں کو بھلائی کے کام انجام دینے کیلئے اسٹیج کی ضرورت پڑتی ہے، بغیر اسٹیج کے اچھے کام کرنے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ جب تک ہماری قوم کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بناتے ہوئے یو پی ایس سی یا پھر اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن کے عہدوں پر فائز نہیں کرواتے اس وقت تک ہماری قوم آگے نہیں آئیگی اور اس کا خمیازہ آنے والے سالوں میں پوری قوم کواٹھانا پڑیگا۔ دیکھا جائے تو ہماری قوم کو عظیم قوم کا درجہ حاصل ہے لیکن ہماری سوچ نہایت محدود ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔