علامہ اقبالؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمن

تحریر: ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی … ترتیب: عبدالعزیز

            1974ء میں مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ناظم دارالمصنّفین کی وفات کے بعد سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنّفین کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک بڑے محقق و مصنف تھے۔ ان کے قلم سے متعدد گراں مایہ کتابیں نکلیں۔ ’’بزم تیموریہ‘، ’بزم مملوکیہ‘‘ اور ’’ہندستان کے عہد وسطیٰ کا فوجی نظام‘‘ ان کی بڑی مشہور کتابیں ہیں۔ انھیں مولانا سید سلیمان ندوی سے خاص انس و تعلق تھا۔ سید صاحب نے تاریخ ہند کی ترتیب و تدوین کیلئے ان کی تعلیم و تربیت کی تھی۔

            علامہ محمد اقبال سے عقیدت انھیں ورثے میں ملی تھی؛ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ صباح الدین صاحب کو علامہ اقبال سے بچپن سے لگاؤ تھا۔ وہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم تھے، اس زمانہ میں علامہ سے ملاقات کیلئے لاہور گئے۔ اس کی تفصیل انھوں نے اس طرح لکھی ہے:

            ’’ڈاکٹر اقبال ہم دارالمصنّفین والوں کے دل و دماغ پر برابر چھائے رہے، پہلے میں اپنا ایک ذاتی واقعہ سناؤں، جب میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا طالب علم تھا تو ایک ایجوکیشنل ٹرپ وہاں سے دہلی اور امرت سر ہوتا ہوا لاہور پہنچا، جہاں لوگ اقبال کو دیکھنے کیلئے بے قرار ہوئے، ہم میں سے کسی نے ان کو دیکھا نہیں تھا، میں ان کی کتاب’’بانگ درا‘، ’اسرارِ خودی‘، ’رموزِ بے خودی‘‘ اور ’’زبورِ عجم‘‘ پڑھ چکا تھا۔ ان کے فلسفہ خودی اور بے خودی سے کچھ آشنا ہوچلا تھا، ان کی نظموں میں ’’شکوہ، جواب شکوہ‘، ’خضر راہ‘، ’طلوع اسلام‘‘ اور ’’فریادِ یتیم‘‘ سے بہت متاثر تھا۔ ان کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتا تھا۔ ساتھیوں نے ان سے وقت مانگا تو مسلم یونیورسٹی کا نام سن کر ملنے کا وقت مقرر کر دیا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ میکلوڈ روڈ میں ان کی کوٹھی کی طرف چلا تو ایسا معلوم ہورہا تھا کہ آرزوؤں کی جنت میں داخل ہونے جارہا ہوں۔ ہم لوگ ان کے ڈرائنگ روم میں بٹھائے گئے جو زیادہ سامان سے آراستہ نہ تھا۔ وہ بغل کے کمرے سے قمیص اور شلوار پہنے ڈرائنگ روم میں آکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، ملازم نے ان کا حقہ لاکر ان کے پاس رکھ دیا۔ بجلی کی سرعت سے میری نگاہ ان کی طرف اٹھی کہ مسلمانوں کو صداقت کا، شجاعت کا، امامت کا سبق دینے والا، نیل سے کاشغر تک مسلمانوں کو ایک کرنے والا، طلوعِ اسلام لکھ کر مسلمانوں کو حیات نو کا مزدہ سنانے والا، اپنے رب سے دل مسلم کیلئے زندہ تمنا مانگنے والا، مسلمانوں کی روح کو تڑپانے اور ان کے قلب کو گرمانے والا، انسان کو خودی کا پیام دے کر اس کو اپنی ہستی کے اسرار اور زندگی کے سوز و ساز کا احساس دلانے والا اور پھر انفرادی زندگی کے جز کو قومی زندگی کے کل میں شامل کرکے یکدلی اور یکجہتی کی بنیاد رکھنے والا اور اپنی غزلوں کے ذریعے سے سرودِ زندگی میں حرارت آتش پیدا کرنے والا سامنے ہے۔ ذہن پر ایک ٹھنڈی چاندنی بکھیر رہا ہے۔ ساتھیوں سے فرداً فرداً خیریت پوچھی، مسلم یونیورسٹی کا حال پوچھا، میں نے بے تابانہ ان کی طرف اپنی آٹو گراف بک بڑھا دی جس میں انھوں نے بڑے صاف اور پاکیزہ حروف میں تحریر فرمایا  ؎

صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش … لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف

            یہ 1933ء کا واقعہ ہے۔ گزشتہ 43سال سے ان کے کلام کو اسی شعر کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ‘‘ (1)۔

            دارالمصنّفین میں علامہ اقبال، ان کی تخلیقات، ان کے افکار و خیالات اور ان کے کارناموں کو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے بارے میں بڑے بلند خیالات تھے۔ صباح الدین صاحب نے لکھا ہے کہ  :

            ’’ہم دارلمصنّفین والے علامہ محمد اقبال کو مفکر اسلام، اسرارِ الٰہی کا محرم راز، شریعت کا آشنا، کاروان ملت کا حدی خواں اور فلسفہ اسلام کا ترجمان سمجھتے تھے، اگر کوئی ان کے نہان خانہ زندگی میں جھانک کر ان کو مجروح کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو ہم میں ویسا ہی اشتعال پیدا ہوتا ہے جیسے ہمارے کسی مذہبی پیشوا پر حملہ آور ہوکر کوئی ان کی توہین کرے، مجلس کے دیگر رفقاء نے اپنی معروضیت پسندی کی وجہ سے ہماری اس رائے کو انتہا پسندی پر محمول کیا مگر ہم اپنی رائے میں تبدیلی کرنے کو تیار نہیں ہوئے‘‘ (2)۔

            یہی ماحول تھا جس میں سید صباح الدین صاحب و دیگر رفقاء کے ذہن و مزاج میں ذکر اقبال، فکر اقبال، فلسفہ اقبال اور ان کے شاعرانہ کمالات کی صد آفریں صدائیں بلند رہیں اور وہ اس کی روشنی سے معمور رہے۔

            اکتوبر 1976ء میں ادارہ ’تحقیقات اسلامی‘ اسلام آباد نے بڑے پیمانہ پر ’’یوم اقبال‘‘ منعقد کیا۔ اس میں شرکت کیلئے سید صباح الدین صاحب کو بھی دعوت دی گئی، چنانچہ انھوں نے طویل سفر کرکے اس میں شرکت کی اور ایک مقالہ ’’موجودہ ہندستان میں اقبال‘‘ کے عنوان سے پیش کیا، جس میں ہندستان میں اقبال شناسی کی پوری تفصیل پیش کر دی ہے۔ ابتدا میں اقبال سے متعلق اپنے تاثرات اور احساسات کا اظہار کیا، اور اقبال کو اپنے عہد کا یگانہ روزگار شخص قرار دیا ہے۔ اپنی ملاقات کے ذکر کے ساتھ دارالمصنّفین کے اہل قلم بالخصوص مولانا سید سلیمان ندوی اور شاہ معین احمد ندوی کی اقبال شناسی کا ذکر کیا ہے، پھر ہندستان کے چند ممتاز اقبال شناسوں کی کاوشوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک اہم اور معلومات افزا مقالہ ہے۔ اس مقالہ خوانی کا نقشہ مولانا کوثر نیازی سابق وزیر مذہبی امور پاکستان نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح کھینچا ہے:

            ’’مولانا [صباح الدین صاحب] علامہ اقبال کے زبردست مداح اور معتقد تھے اور یہ حسن عقیدت بھی شاید انھیں اپنے استاد مرحوم سے ورثے میں ملا تھا۔ …… شاید اسی نسبت سے مولانا صباح الدین علامہ اقبال کے محض معترف ہی نہیں بلکہ ان کے چاہنے والے تھے۔ …… بطور صدر مجلس مجھے بھی اس میں اظہارِ خیال کا موقع ملا، دوسرے مقررین کے علاوہ مولانا نے بھی اپنا پرمغز مقالہ پیش کیا۔ …… اسلام آباد کمیونٹی سنٹر سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، دارالسلطنت کے اہل علم نے بڑے انہماک اور دلچسپی سے یہ مقالہ سنا‘‘ (3)۔

            علامہ اقبال سے عقیدت ہی کی بنا پر وہ اعظم گڑھ سے لاہور جاکر بین الاقوامی اقبال کانگریس میں شریک ہوئے۔ انھوں نے دونوں اقبال کانفرنسوں میں شرکت کی اور دونوں میں ایک ایک اجلاس کی صدارت کی۔ دوسری کانگریس میں انھیں اقبال پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تو انھوں نے عقیدت اقبال میں ایسی جذباتی تقریر کی کہ ایک سماں باندھ دیا۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ میں نے یہ تقریر اشک بار آنکھوں کے ساتھ سنی۔ (4) صباح الدین صاحب نے اس کانگریس کی ’ماہنامہ معارف‘ میں مفصل روداد بھی قلمبند کی ہے۔

            سید صباح الدین عبدالرحمن نے پاکستان کے کئی سفر کئے۔ ایک سفر میں وہ مزارِ اقبال پر حاضر ہوئے تو بقول ان کے ’’دل کی زبان کہہ رہی تھی اے شاعر مشرق تری تربت پر رحمت ایزدی، برکت خداوندی اور انوارِ الٰہی کی بارش برابر ہوتی رہے‘‘(5)۔

            صباح الدین صاحب نے ایک بڑا اہم مقالہ ’’کیا علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے متاثر تھے‘‘ لکھا (6)، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالیات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے اگر چہ پوری طرح واقف تھے تاہم ان کا سرچشمہ یورپ کا فلسفہ یا فلاسفر نہیں بلکہ اسلام ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

            ’’جب ہم کوئی ایسی تحریر پڑھتے ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے تمام افکار کی اساس یورپ کے فلسفہ پر رکھی ہے یا انھوں نے نٹشے سے استفادہ کیا ہے یا ان کے اور برگساں کے فلسفے میں بڑی مشابہت ہے یا ان کے فکری دلائل روآئس، راشدل، کانٹ اور شوپنہار کی طرح ہیں تو ہمارا دل کہہ اٹھتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اقبال کی اہانت نہیں کی جاسکتی اور یہ توہین مشرق اور ہندستان کے ساتھ اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح کہ انگریزوں کے زمانہ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مغلوں کے زمانہ کی نادرہ روزگار عمارت ’تاج محل‘ کو استاد عیسیٰ، استاد موسیٰ اور استاد حامد نے نہیں تعمیر کیا بلکہ اس کے بنانے والے اطالوی معمار تھے۔ علامہ اقبال کو فرنگی فلسفہ کا خوشہ چیں بتانے والے قلمی صناع یا تو اپنی تحریری صنعت گری یا کاریگری دکھانے کی خاطر کچھ لکھ جاتے ہیں یا وہ علامہ اقبال کو صحیح معنوں میں سمجھنے سے قاصر ہیں، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح تاج محل مسلمانوں کے فن تعمیرات میں نادرہ روزگار اور ان کی ذہنی اختراع کا شاہکار ہے اسی طرح علامہ اقبال کی شاعری اسلامی افکار کا تاج محل ہے، جس طرح تاج محل کی پچے کاری، مرصع کاری اور مینا کاری میں مسلمانوں کے ذہن کی کارفرمائی نظر آتی ہے اسی طرح علامہ محمد اقبال کی شاعری کے گنبد مینائی پر اور اسلام کے افکار کی کوکبی اور مہتابی کی رعنائی چھائی ہوئی نظر آئے گی اور جس طرح تاج محل کے باوقار حسن میں اس کے قرآنی آیتوں کے کتبے سے اضافہ ہوگیا ہے اسی طرح علامہ محمد اقبال کی شاعری میں قرآن پاک کی تعلیمات کی اصلی او ر حقیقی روح کار فرما ہے۔ انھوں نے یورپ کے قیام میں فرنگی فلسفیوں کا مطالعہ ضرور کیا لیکن ان کے افکار سے متاثر ہونے کے بجائے ان سے بیزار ہوتے چلے گئے‘‘ (7)۔

            اس کے بعد صباح الدین صاحب نے طویل جائزہ میں مغرب کے ممتاز فلاسفر کے افکار و خیالات کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اقبال مغربی فکر و فلسفہ سے بخوبی واقف تھے، اس کے نشیب و فراز اور حسن و قبح کی باریکیوں اور نزاکتوں پر بھی ان کی نگاہ تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کے مقابلہ میں ان کے کسی خیال کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اس کا رد کرتے نظر آتے ہیں (8)۔

            صباح الدین صاحب کو اقبال اور اقبالیات سے واقعی عشق تھا، انھوں نے اقبال سے متعلق متعدد کتابوں پر دیباچے، مقدمے، تعارف و تبصرے لکھے، جن میں چند کے نام یہ ہیں :

            (1 اقبال کا نظام فن … پروفیسر عبدالمغنی۔ (2 زندہ رود … جسٹس جاوید اقبال۔ (3 اقبال اور سید سلیمان ندوی … طاہر تونسوی۔

            (4نقوش لاہور: اقبال نمبر۔ (5 ماہِ نو کراچی : اقبال نمبر۔ (6 سہ ماہی ثقافت لاہور: قبال نمبر۔ (7 پاکستان مصور: اقبال نمبر۔

            (8 پاکستان پکٹوریل: اقبال نمبر۔ (9  ہفت روزہ اسلامی جمہوریہ: اقبال نمبر۔ (10 ماہنامہ محفل لاہور: اقبال نمبر۔

            صباح الدین صاحب کی یہ تمام تحریریں اس لائق ہیں کہ ’’اقبالیات صباح الدین‘‘ کے تحت جمع کی جاسکتی ہیں۔

            صباح الدین صاحب کے یہ تبصرے مختصر بھی ہیں اور طویل بھی۔ ان میں سب سے طویل تبصرہ جسٹس جاوید اقبال کی کتاب ’’زندہ رود‘‘ پر ہے۔ اس کی حیثیت تبصرے سے بڑھ کر مقالے کی ہوگئی ہے۔ اقبال اکادمی پاکستان کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر معزالدین نے لکھا ہے کہ :

            ’’وہ علامہ اقبال کے شیدائی تھی اور اسی مناسبت سے جسٹس جاوید اقبال سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ جب جاوید اقبال نے علامہ کی سوانح عمری ’’زندہ رود‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں لکھی تو سب سے جامع اور تحسین و تعریف کے ساتھ بھر پور تبصرہ اس کتاب پر مولانا صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کا چھپا اور ٹوٹ کر اس کی داد دی۔ در اصل اپنے مزاج میں وہ خود علامہ اقبال کے مرد مومن اور مرد قلندر کی شان رکھتے تھے (9)۔

            سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب نے ’’زندہ رود‘‘ پر اپنے طویل تبصرے میں کہیں نقد و جرح نہیں کی بلکہ تحسین و تعریف ہی سے کام لیا ہے۔ انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا، چنانچہ تبصرے کے خاتمہ میں لکھا ہے کہ :

            ’’اس تقریظ کو پڑھتے وقت بعض قارئین کو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اس میں صرف مدح و ستائش کے ہار گوندھے گئے ہیں، تنقیص کی کہیں چنگاری نہیں مگر یہ راقم اس کا کیا کرے کہ اس کو علامہ اقبال سے عشق ہے۔ جب ان کی کہانی ان کے لائق فرزند کی زبانی بیان ہوئی تو اس میں اس راقم کو وہی لذت ملی جو کسی رند بلا نوش کو شیشہ و ساغر کی محفل میں مئے دو آتشہ اور سہ آتشہ کے دو رمیں ملتی ہے:

جو عشق جانگداز ہو تو عشق باز کیا کریں (10)۔

تبصرے بند ہیں۔