علامہ اقبالؔ اور زبانِ اردو

کے۔ پی۔ شمس الدّین  ترور کّاڈ

ڈاکٹر سرمحمد علامہ اقبالؔ اردو کے عظیم فلسفی شاعر ہیں۔ اقبالؔ شاعری نے اردو زبان و ادب میں ایک الگ مقام پیدا کیا ہے اس بات  میں دورائے نہیں ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں علامہ اقبالؔ کا بہت بڑا حصّہ رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اردو کا شعری ادب علامہ اقبالؔ کے بناا دھورا ہے علامہ اقبالؔ پر جتنی تحقیقات ہوئی ہیں،  جتنے سمینار اور کتابیں شائع ہوئی ہیں آج تک اردو کے کسی بھی شاعر یا ادیب پر ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

اردو زبان کے یہ عظیم شاعر پنجاب میں پیدا ہوئے ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ ساری عمر وہ اپنے اہل خاندان  اور خاص احباب سے پنجابی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ جن لوگوں کو پنجابی سمجھ میں نہیں آتی صرف ان لوگوں سے اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ اقبالؔ اپنے فلسفیانہ خیالات اور تخلیقی اظہار کے لیے اردو اور فارسی زبان کا استعمال کرتے تھے پنجابی مادری زبان والے اقبالؔ نے اوائل عمر ہی سے اردو اور فارسی دونوں زبانیں سیکھنا شروع کیں اور ان میں درجہ کمال حاصل کیا کہ مذکورہ دونوں زبانوں کے مایہ ناز شاعر اور دانشور کی حیثیت اختیار کر لی۔

پنجاب کی علاقائی اردو کا اپنا ایک مزاج ہے یہاں کے شہری علاقوں  میں اردو بہت کچھ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ پنجابی علاقائی اردو اور معیاری اردو سے بڑی حد تک مختلف ہے اس کے باوجود پنجاب میں نصابی اور تدریسی زبان معیاری اردو رہی ہے۔ یعنی بچّے گھر میں اور دوستوں بلکہ استادوں سے بھی پنجابی میں بات کرتے اور کتابیں  پڑھتے تو معیاری اردو کی اور لکھتے تو بھی معاری اردولکھنے کی کوشش کرتے علامہ اقبالؔ بھی اسی ماحول میں پھلے بڑھے تھے اور ان کی ابتدائی تعلیم اردو زبان میں ہوئی تھی اقبالؔ کو نہایت ہی کم عمری سے اردو سے ایک خاص قسم کی محبت اور اس سے شغف ہو گیا تھا چھ سات سال کی عمر میں ان کو اردو زبان میں بچّوں کی کہانیاں پڑھنے اور پڑھ کر سنانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب وہ چھٹی جماعت میں پہنچے تو اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا جماعت میں اردو بیت بازی اور اسکول میں تقریری مقابلوں میں شریک ہوتے ہے۔

اردو زبان و ادب  اور شاعری کے غیر معمولی شوق نے علامہ اقبالؔ کو ادبی مجلسوں  میں شرکت کرنے پر مجبور کر دیا۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں پہنچے تو سیالکوٹ کی شعری محفلوں میں شرکت کرنے لگے تھے اس وقت علامہ اقبالؔ کی عمر محض بارہ سال تھی علامہ اقبالؔ کی اس وقت کی اردو شعری تخلیقات دستیاب نہیں ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں علامہ اقبالؔ کی پہلی غزل دہلی کے رسالہ’’ زبان‘‘ میں شائع ہوئی اس غزل کے اشعار کچھ اس طرح سے تھے۔

آبِ تیغِ یار تھوڑا سانہ لے کر رکھ دیا

باغ جنت میں خدا نے آبِ کوثر رکھ دیا

آنکھ میں ہے جوشِ اشک اور سینے میں سوزاں ہے دل

یاں سمندر رکھ دیا اورواں سمندر رکھ دیا

سولہ سال کی عمر میں کہی گئی اقبالؔ کی اس غزل میں زبان نہایت صاف ہے۔ اس غزل کے مطالعہ سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ نے اردو شاعری کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو ہندوستان بھر میں بحیثیت زبان ہر طرف پھل پھول رہی تھی جنوبی ہند میں مدراس،  بنگلور جیسے شہروں میں اردو اپنا سکہ جما رہی تھی۔ اردو زبان کی نشو نما کے اس مرحلے میں علامہ اقبالؔ نے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ تاہم غالبؔ کا اثر ان پر بہت نمایاں ہے۔ اقبالؔ کے اردو زبان کے اندازِ بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ابتداہی سے ان کو زبان لکھنؤ کا چسکا تھا۔ اردو زبان کے عظیم الشان شعری سر مائے کے مقابل اپنی بے بضاعتی کا اقبالؔ کو صحیح اندازہ تھا۔ اسی لیے اردو زبان سیکھنے کا اپنا سفر جاری رکھا۔ اقبالؔ اپنا کلام داغؔ جیسے ملک الشعرا کے پاس لاہور سے حیدر آباد بھیجتے رہے اس طرح سے وہ داغؔ کی شاگردی میں داخل ہو گئے۔

لڑکپن ہی سے اقبال کاکلام مختلف رسالوں میں شائع ہونے لگاتھا۔ وہ انیسؔ کی شعری زبان سے بے حد متاثر تھے اقبالؔ کا یہ خیال تھا کہ ’’ میرانیسؔ نے اردو زبان کو حدِ کمال تک پہنچایا‘‘ اردو زبان سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے والے اقبالؔ جب ایم۔ اے کے طالب علم تھے اس وقت تک اردو زبان پر خاصہ عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس دور ان غزلوں کے علاوہ اردو میں کئی نظمیں،  قطعات،  مسدس اور مختصر مثنویاں لکھ چکے تھے۔ ان سب میں ان کی زبان دانی اور ہنر مندی کی کوشش نمایاں تھی اس وقت کے اقبالؔ کے غزلوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ اردو زبان سیکھنے اور شاعری میں آگے بڑھنے کے لیے کس تند ہی سے لگے تھے  اور اس میں وہ آگے بڑھ رہے تھے اور ان کی زبان پر کئی اساتذہ کا اثر ہے اقبال کے اوّلین غزل کا ایک مقطع ملاحظہ فرمائیے

نسیمؔ و تشنہؔ ہی اقبالؔ کچھ نازاں نہیں اس پر

مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغؔ سخن داں کا

۱۹۰۰ ؁ء کے بعد سے اقبالؔ کو فنِ شعر اور اپنی زبان دانی دونوں پر اعتماد حاصل ہو چکا تھا۔ چنانچہ اسی دور سے انھوں نے اپنا کلام ’ بانگ درا‘ میں شامل کیا۔ زبان کے لحاظ سے اقبالؔ کی جو زبان  ۱۹۰۰ ؁ء تک بن چکی تھی اب وہی اردو زبان ایک پختہ شکل اختیار کر رہی تھی۔ پنجابی مادری زبان والے علامہ اقبالؔ کے اردو اشعار پر تنقید و اعتراض کرنے والے لوگ بھی تھے پنجابیوں کی ہنسی اڑانے والے اور اقبالؔ کی زبان پر ٹوکنے والوں کو وہ نہایت انکساری کے ساتھ اس کا مدلل جواب دیتے تھے۔ اکتوبر  ۱۹۰۲ ؁ء میں شائع کیا گیا رسالہ ’’ مخزن ‘‘ میں علامہ اقبالؔ نے ’ اردو زبان پنجاب میں ‘ ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :

’’ آج کل بعض اخباروں  اور رسالوں میں اہل پنجاب کی اردو پر بڑی لے دے ہو رہی ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس بحث کے فریق زیادہ تر ہمارے نئے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ادھر ایک صاحب’ تنقید ہم درد‘جو اخلاقی جرأت کی کمی یا کسی نا معلوم مصلحت کے خیال سے اپنے نام کو اس کی نقاب میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ناظرؔ و اقبالؔ کے اشعار پر اعتراض کرتے ہوئے پنجابیوں کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے دوست ’’ تنقید ہم درد‘‘ اس پر مصر ہیں کہ پنجاب میں غلط اردو کے مروج ہونے سے یہی بہتر ہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج ہی نہ ہو۔ لیکن نہیں بتاتے کہ غلط اور صحیح کا معیار کیاہے۔ جو زبان بہمہ وجوہ کا مل ہو اور ہر قسم کے ادائے مطالب پر قادر ہو۔ اس کے محاورات و الفاظ کی نسبت تو اس قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جات ہے۔ لیکن جو زبان ابھی زبان بن رہی ہے اور جس کے محاورات اور چند جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختراع کیے جا رہے ہوں اس کے محاورات و غیرہ کی صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات میں سے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اردو زبان جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا۔ اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب نہیں ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مضمون کا مقصدان اعتراضات کا جواب دینا ہے جو ’ تنقید ہم درد‘ صاحب نے میرے اور ناظرؔ کے اشعار پر کیے ہیں میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحبِ تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظرؔ کے کلام کو اپنی نکتہ چینی کی آماجگاہ بنایا ہے بلکہ میری غرض صرف یہی ہے کہ ایک منصف مزاج پنجابی کی حیثیت سے ان غلطیاں کا ازالہ کروں جو عدم تحقیق کی وجہ سے اہل پنجاب کی اردو کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اقبالؔ کی اردو ذوق وشوق کو مدّ نظر رکھتے ہوئے رسالہ’’ مخزن‘‘ کے ایڈیٹر نے ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب کا اردو زبان پر لکھا ہوا مختصرسا انگریزی مضمون ترجمہ کرکے بھیجنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا انگریزی مضمون اقبالؔ کو تحفت ًدیاتھا۔ ستمبر  ۱۹۰۴ ؁ء کے رسالہ ’’ مخزن‘‘ میں علامہ اقبالؔ کا ترجمہ کیا گیا یہ مضمون ’ زبان اردو‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

۱۹۰۵ ؁ء  تا  ۱۹۰۸ ؁ء کا دور علامہ اقبالؔ نے یوروپ میں گزارے  ۱۹۰۸ ؁ء میں جب اقبالؔ ہندوستان واپس آئے تو اس وقت ان کا میلان زیادہ اردو نظم گوئی کی طرف تھا اور اردو کے شعری سرمائے کے مطالعہ کا سلسلہ جاری تھا۔ غالباً اس وقت انھیں ایک ایسی نظم کہنے کا خیال آیا جسے کہہ کر وہ سارے ہندوستان کو چونکا سکیں چنانچہ انھوں نے اسی سانچے پر اپنی دونوں نظمیں ’شکوہ‘  اور ’ جواب شکوہ‘ لکھیں جنھوں نے ہندوستان بھر میں اردو پڑھنے والوں میں ہل چل مچا دی۔ اس طرح سے اقبالؔ نے اردو کی شعری زبان کو جس مقام پر پہنچایا ہے اس میں اور اردو کی روایتی شاعری میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

علامہ اقبالؔ کے اس دور  میں اردو ہندوستان کی سب سے مقبول  اور رابطہء عامہ کی زبان تھی،  اب لسانی تعصب کے بوجھ تلے دبائی جا رہی تھی۔ انگریزوں کی طرف سے اردو کے خلاف ہندی کو ہندومذہب کی علامت کے طور پر ترقی دینے کے منصوبے بنائے جا چکے تھے اور اس طرح اردو کے خلاف جو ایک مشترکہ تہذیب کی نشانی تھی ایک سیاسی اور لسانی سازش رچی گئی تھی اور اردو جو ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث تھی اسے دو فرقوں کے درمیان تقسیم کیا  جا رہا تھا او یہ بات تحریک آزادی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ اس پس منظر  میں مہاتما گاندھی نے اردو  اور ہندی کے مسئلہ کو ہندوستانی کے تصوّر کے ذریعہ حل کرنے کوشش کی علامہ اقبالؔ اتحادِ وطن کی خطر ہی نہیں بلکہ تمام تر لسانی ادراک و شعور کے ساتھ اردو ہندی کے جھگڑے کو نا پسند کرتے تھے اردو  اور ہندی کے اس جھگڑ کے بارے میں اقبالؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح اشارہ کیا ہے۔

یا با ہم پیار کے جلسے تھے دستور محبت قائم تھا

یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے

اردو ہندی کے مسئلہ پر علامہ اقبالؔ گاندھی جی کے نظریہ کے مساوی اپنا نظریہ قائم کر چکے تھے اردو ہندی اور قومی زبان کے تعلق سے جو افکار اقبالؔ نے پیش کیے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گاندھی جی کے بر عکس جو اس مسئلہ کو سیاسی نوعیت سے دیکھ رہے تھے،  اقبالؔ کی نظر ایک ماہر زبان کی حیثیت سے تھی۔ اقبالؔ اردو کو تعصب کے بنا پر دبائے جانے خلاف تھے سیاست سے اقبالؔ کا رشتہ کمزور سا تھا اور وہ مسلم لیگی تھے اور مسلم لیگ اپنی سیاسی اہمیت کے پس پشت ’’ اردو‘‘ کی بقاء  اور اس کی اہمیت کے پیش نظر آواز اٹھا رہی تھی چنانچہ کہ محب وطن شاعر علامہ اقبال’’ سارے جہاں سے اچّھا ہندوستاں ہمارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ کے خالق بھی اس سے پرے نہ تھے۔ لیکن اقبالؔ اردو کے معاملے میں جذباتی نہیں تھے بجائے جوش کے ہوش سے کام لینے کے خواہش مند تھے،  اسی لیے انھوں نے نظریہ زبان پر اپنا ایک الگ فلسفہ پیش کیا۔ اقبالؔ نے زبانوں کی اہمیت اور لفظ و معنی کے رشتے کو جس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے وہ سیاسی نظریہ سے بالکل مختلف تھا۔

اقبالؔ زبان کو اظہار اور بلاغ کا ذریعہ سمجھتے تھے نہ کہ کوئی بت جس کی پرستش کی جائے سردار عبد الرب نشتر کے نام ایک خط میں مورخہ ۱۹؍ اگست  ۱۹۲۳ ؁ء زبان کے بارے میں اپنا نظریہ اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطلب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کواب ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ ‘‘

انجمن ترقی اردو (ہند) سے وابستہ رہنے والے علامہ اقبالؔ ہندوستان کے مختلف صوبوں کے سفر کیے انھوں نے جنوبی ہند کا دورہ بھی کیا۔ اقبالؔ کا جنوبی ہند کا سفر ان کی زندگی کا ایک غیر معمولی سفر تھا۔ اس سفر کی علمی افادیت غیر معمولی تھی۔ مدراس کے اس سفر کے دوران ان انھیں مختلف انجمنوں نے مدعو کیا۔ انجمن ترقی اردو مدراس  اور ہندی پر چار سبھا مدراس نے اقبالؔ کے اعزاز میں ایک جلسہ کا اہتمام بھی کیا۔ جلسے میں انجمن ترقی اردو مدراس کے صدر حاجی جلال عبد الکریم صاحب نے اقبالؔ کو خوش آمدید کیا۔ بعد میں انجمن کے اعزازی سیکریٹری جناب عبدالحمید حسن سیٹھ،  علامہ اقبالؔ کی خدمت سپاس نامہ پڑھا۔ دیو ناگری رسم الخط میں ہندی پر چار سبھانے علامہ اقبالؔ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ انجمن ترقی اردو مدراس کے سپاس نامہ سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :

’’ جناب عالی! ہم اراکین انجمن ترقی اردو مدراس اپنی طرف سے اور نیز مسلمانوں کی طرف سے کمالِ جوش مسرت  اور انتہائی جذبات و انبساط اور محبت کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے خلوص دل اور انشراحِ صدر سے اس نامر کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آپ کے ورودِ مسعود سے جو ہمارے تاریخی شہر مدراس میں ہوا ہے اس ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی وخرمی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدراس کے اردو علم و ادب کی تاریخ میں آج کا دن وہ مبارک دن ہے کہ ہم ایک ایسی اولولعزم ہستی کو مخاطب کر رہے ہیں جو بلحاظ علوم جدیدہ اور علوم قدیمہ ایک بے مثل اور قابلِ رشک ہستی ہے کیوں نہ ہو جب کہ اردو ادب آپ کے نام نامی اور اسم گرامی پر ناز کر رہا ہے اور جب کہ آپ کی فلسفیانہ اور فطری شاعری علم و ادب کے مردہ قالب میں نئی جان ڈال رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے اردو ادب کی آبرو بڑھائی ہے اور اردو شاعری کو ترقی کے زینہ پر چڑھادیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درحقیقت زبان اردو ایک ایسی زبان ہے جس کی بدولت مختلف مقاموں کے لوگوں  میں میل ملاپ قائم ہو سکتا ہے اور آپس میں محبت،  اتحاد،  یک جہتی  اور باہمی ہمدردی کے اعلی جوہر پیدا ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

سپاس ناموں کے جواب میں علامہ اقبالؔ کی یاد گار تقریر فلسفہ زبان اور اردو کے بارے میں تھی علامہ اقبال کا یہ تاریخی خطبہ ۶؍ جنوری  ۱۹۲۹؁ء کو مدراس گو گھلے ہال میں پیش کیا گیا تھا سپاس ناموں کے جواب میں علامہ اقبالؔ کی یاد گار تقریر سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں :

’’ جس تلطّف آمیز انداز میں آپ نے اپنے ایڈریس میں میری خدمات کا ذکر فرمایا ہے اس کے لیے آپ حضرات کا دل سے ممنون ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرات ! مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ آپ اردو زبان کی اشاعت و ترقی کے لیے سرگرم سعی ہیں اور آؔپ کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ زبانِ اردو کو فروغ دیے بغیر جنوبی ہند کی سوشیل،  تعلیمی وتمدّنی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زبان کا مسئلہ ایک ٹیڑھا مسئلہ ہے،  زبان احساس زندگی کی معنوی حقیقت کی مظہر ہے۔ جس طرح زندگی میں پیہم کشمکش ہے،  اسی طرح انسانی خیالات و افکار میں ہر گھڑی کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ زبان ہماری زندگی کی معنویت کی عکسی تصویر ہے الفاظ کو دیکھیے تراکیب پر غور فرمائیے۔ کئی الفاظ متروک ہو جاتے ہیں ان کی جگہ نئے الفاظ مروّج ہو جاتے ہیں،  ہر زندہ زبان میں الفاظ تراکیب کی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ زندگی کی پوری تصویر الفاظ کی کشمکش میں موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی خاص قسم کی زبان ہے  اور ان زبانوں میں سے ہے جس کو Syntheticزبانیں کہتے ہیں۔ اسی طرح سنسکرت بھی  Syntheticزبان ہے ان زبانوں میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر نئے الفاظ وضع کر لیتی ہے  اور نئی تراکیب پیدا کر لیتی ہے اردو زبان نئے خیالات و افکار کی خاطر تراکیب و اصطلاحات عربی سے مستعارلیتی ہے اس لیے خود اردو  Syntheticزبان نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی زبان کو قومی زبان اختیار کرنے سے پہلے یہ سوچنا پڑیگا کہ زبان کا انحصار کن باتوں پرہے۔ جنوبی ہند کے لیے اس امر پر سوچنا اور بھی ضروری ہے کیوں کہ آپ کے یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اردو زبان ہندوستان میں اب ترقی کی اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ اس میں موجودہ زمانے کے علوم کا بہت ساذ خیرہ جمع ہو گیا ہے۔

میں اراکین ہندی پر چار سبھا کا بھی ممنوں ہوں کہ انھوں نے مجھے ایڈریس دیا ہے۔ ان کا ایڈریس سن کر میں  اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حقیقت  میں انھیں مجھ کو علیحدہ ایڈریس دینے کی ضرورت نہ تھی خود ان کا ایڈریس اس بات کا ثبوت ہے کہ ارد اور ہندی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ایڈریسوں کی زبان دیکھنے میں تو ان زبانوں میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھتا اور تاریخی اعتبار سے بھی دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں اردو زبان میں مرورِ زمانہ سے کچھ الفاظ داخل ہو گئے ہیں مسلمانوں نے قدرتاً عربی اور فارسی زبان کو اردو میں داخل کیا اسی طرح ہندوعالموں نے سنسکرت کے الفاظ کو۔ اردو زبان میں نہ عربی کے غیر مانوس الفاظ کو شامل کرنا چاہیے اور نہ سنسکرت کے غیر مانوس الفاظ کو ہندی میں شامل کرنا چاہیے سیدھی سادی زبان لکھنی چاہیے۔ اردو اورہندی کا جھگڑا محض تعصب اور تنگ دلی کا نتیجہ ہے ہاں رسم الخط کی بات اور ہے۔ ہندی پرمحض رسم الخط کی وجہ سے زور دینا ٹھیک نہیں اور نہ رسم الخط کا معاملہ اتنا تکلیف دہ ہے رسم الخط لکھنے کے طریق کا نام ہے ایسی بحثیں غیر ضروری اور اس لیے بھی کہ نہ مسلمان عربی رسم الخط کو کوئی ایک دوسرے پر رسم الخط کو جبراً عاید نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر نیت میں اخلاص ہے تو کیا عربی رسم الخط،  کیا ہندی رسم الخط کیا شمالی ہند اور کیا جنوبی ہند  میں اپنے دوستوں سے کیوں کہا کہ وہ ہندوستان کی اصلی مشکلات پر غور کریں۔ اگر ہندوستان زندہ قوموں  میں شمار ہونا چاہتا ہے تو اسے ایک زندہ وسعت پذیر زبان پیدا کرنا ہوگی مجھے مسرت ہے کہ یہاں اردو والوں اور ہندی والوں میں باہم اتفاق ہے اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی اختلاف کی وجہ بھی نہیں۔ ‘‘

اقبالؔ نے اپنی تقریر میں زبان اور قومی زبان کے مسئلے پر وضاحت کے ساتھ اظہار کیا۔ اقبالؔ اردو کو ہندوستان کی سب سے بڑی رابطہ کی زبان کہا ہے اردواور ہندوستانی اقبالؔ کے یہاں مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور وہ جنوبی ہندوستان کی سماجی،  تعلیمی اور تمدنی مشکلات کا واحد اردو ہی کو سمجھتے تھے۔

مدراس کے دورے کے بعد علامہ اقبالؔ شہر بنگلور کی طرف روانہ ہوئے۔ اردو کی ترقی و ترویج میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا حصّہ بہت ہی اہم رہا ہے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ جنوب میں اردو کی ترقی و ترویج میں شہر بنگلور کا بہت ہی اہم رول رہا ہے ۹؍ مئی  ۱۹۱۲؁ء کو قائم شدہ مسلم لائبریری نے اردو کے لیے بے حد خدمت انجام دیں ہیں ۴؍ جنوری  ۱۹۲۸ ؁ء کو اس لائبریری کا الحاق انجمن ترقی اردو اور نگ آباد سے ہوا۔ یعنی زیر اہتمام مسلم لائبریری انجمن ترقی اردو کی ایک شاخ بنگلور  میں قائم ہوئی علامہ اقبالؔ کی بنگلور تشریف آوری اسی مسلم لائبریری میں ہوئی۔

۹؍ جنوری  ۱۹۲۹ ؁ء  کو بنگلور کا دورہ کرنے والے شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبالؔ کی خدمت میں اراکین مسلم لائبریری و انجمن ترقی اردو بنگلور کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا گیا جس کے چند اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں۔

’’جناب عالی ! ہم راکین مسلم لائبریری اور انجمن ترقی اردو بنگلور نہایت اخلاص سے آپ کی اس تشریف آوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہاں اس خوشی میں کل مسلمانان بنگلور شامل ہیں۔ آنجناب جس شہر میں تشریف فرماہیں اس کا دوسرا نام ’دارالسرور‘ ہے جو ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ شہر ہے جو علماء ادباء شعراء کا مخزن رہا ہے غدر دہلی کے بعد ہندوستان میں جو دو تین اردو اخبار نکلے ان میں بنگلور کا ایک اخبار بھی شامل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب عالی ! بنگلور بلکہ کل ریاست میسور کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے جو ہندوستان بھر کے قومی زبان کہلائے جانے کی مستحق ہے اس وقت اردو میں وسعت و ترقی کی گنجائش کا کسی کو انکار نہ ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمالی ہند کے اکثر حصّوں میں ہند اور مسلم کی یہ مرعوب زبان رہی ہے،  اردو کے چاہنے والے اقبالؔ ونیرنگؔ کے ساتھ طالبؔ وسرورؔ کو نہیں بھول سکتے لیکن افسوس ہے کہ چنددن سے ایک کڑی کو جو تمام اقوام ہند کو متحیرر رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے کہیں ’ ہندی‘ کو ’ اردو ‘ کا مترادف بتایا جا رہا ہے۔

بنگلور کے گلوب تھیڑ اوپیراہاؤز میں منعقدہ جلسے میں امین الملک مرزا اسماعیل صاحب بالقاب دیوان ریاست میسور کے زیر صدارت اراکین مسلم لائبریری و انجمن ترقی اردو نے سپاس نامہ پیش کیا تھا۔ اس جلسہ میں علامہ اقبالؔ نے اپنی جوابی تقریر میں اردو زبان کی اہمیت اور ترقی کو مدنظر رکھتے ہو کہا کہ:

’’جنوبی ہندکے سفر میں مجھے اس امر کا اندازہ ہو چکا ہے کہ یہاں اردو زبان کی وسعت اور اس کے استحکام کے لیے ایک احساس پیدا ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ بات بخوبی معلوم کر لینی چاہیے کہ قومی ترقی کا دارومدارقوم کی وسعت زبان پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے لیے اردو زبان نہایت ضروری ہے مسلمانوں کے نقطہء خیال سے اردو زبا ن ہی ایک عالم گیر زبان ہے جس میں مغربی کتابوں کا کثرت کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس میں وسعت کی کوشش نہیں کی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مذہبی اور دینی باتوں سے پوری طرح محروم ہو جائیں گے۔ زبان کیا ہے وہ خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے زبان ہی کے ذریعے بولنے والے کی روحانی حالت کا اندازہ ہوتا ہے اگر زبان درست نہ ہوگی تو اس کے خیالات بھی اچھے نہ ہوں گے اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ اردو زبان کی بخوبی ترقی ہو جائے اور مسلمانوں کو اس پر اچھی طرح عبور حاصل ہو جائے مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں مسلمان اس خیال سے غافل نہیں ہیں۔ ‘‘

علامہ اقبالؔ کی اپنی زبان اردو نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اردو کی گہرائی میں جاکر اس زبان کی چاشنی حاصل کرلی۔ اقبالؔ نے تمام ہندوستانیوں پر اردو سیکھنے کے لیے زور ڈالا  ۱۹۲۹ ؁ء میں انھوں نے اردو کی تدریس کے لیے ’ اردو کورس‘ کے نام سے پانچویں تا آٹھویں جماعت تک کے لیے درسی کتابیں بھی مرتب کیں جسے پنجاب ٹکسٹ بک کمیٹی کی ’ اردو ادب کمیٹی‘ کے لیے شائع کیا تھا۔ گویا کہ ہر لحاظ سے علامہ اقبالؔ اردو کی آبیاری کی جو کہ ہندوستان کی اپنی میراث ہے۔

اقبالؔ نے اپنے ہم وطنوں سے پنجابی اور اردو میں گفتگو کرنا پسند کرتے تھے۔ اگر کوئی ہم وطن مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتے تو اقبالؔ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دو کشمیری نوجوان ان سے ملنے کے لیے آئے۔ دونوں انگریزی میں گفتگو کرنے لگے کچھ دیر علامہ نے انھیں برداشت کیا اور پھر اردو میں بات کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم اردو نہیں جانتے ہیں اس پر اقبالؔ نے پوچھا کہ آپ کو کشمیری زبان آتی ہے؟ اس کا جواب بھی انھوں نے نفی میں دیا۔ اس پر علامہ کو سخت غصّہ آیا اور علی بخش سے کہا کہ ’’ ان دونوں کو باہر چھوڑ آؤ‘‘ اقبالؔ کے لیے یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ کوئی شخص اپنی زبان سے نا واقفیت کا اظہار کرے۔

علامہ اقبالؔ کو ہمیشہ اردو زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ رہا ہے زندگی کے آخری ایام میں وہ ایک خادم کی حیثیت سے اردو کی خدمت کرنا اپنا مقدس فرض سمجھتے تھے۔ علامہ اقبالؔ اس بات کے آرز ومند تھے کہ اردو ساری دنیا میں پھیلے انجمن ترقی اردو کے روح رواں مولوی عبد الحق اردو کے مستقبل کے لیے جو جدو جہد کر رہے تھے اقبالؔ اس پر نازاں تھے  اور دل کی گہرائیوں سے اس معاملے میں ان کی قدر کرتے تھے مولوی عبد الحق نے اقبالؔ کے کہنے پر ہی انجمن ترقی اردو دفتر حیدر آباد سے دہلی منتقل کیا تھا مولوی عبد الحق نے انھیں دنوں علی گڈھ میں اردو کانفرنس کا اجلاس بلایا تھا۔ علامہ اقبالؔ بھی مدعو کیے گئے تھے اس زمانے میں وہ علیل تھے  اور شرکت کرنے کا وعدہ کیا تھا چنانچہ  ۲۷؍ ستمبر  ۱۹۳۶ ؁ء کو مولوی عبد الحق کو ارسال کردہ خط میں علامہ اقبالؔ اس طرح سے رقم طراز ہیں :

’’اگر اردو کانفرنسوں کی تاریخوں تک میں سفر کے لائق ہو گیا تو انشا اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔ لیکن اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں،  اگر چہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہمیت نہیں رکھتا تاہم میری عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔‘‘

اسی طرح مولوی عبد الحق صاحب کی قدر کرتے ہوئے  ۲۱؍ اکتوبر  ۱۹۳۶ ؁ء میں مولوی صاحب کو ارسال کردہ خط میں علامہ اقبالؔ لکھتے ہیں :

’’ آپ کی تحریر سے ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے ہے تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سر سیّد نے کی تھی۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق کی طرح ہی علامہ اقبالؔ کا بھی اردو کی ترقی و ترویج میں بہت بڑا حصّہ رہا ہے اقبالؔ نے اردو زبان کو جس بلند پر پہچایا وہ اقبالؔ سے قبل کسی شاعر کے بس کی بات نہیں تھی۔ اردو زبان و ادب کیے سرمایہ میں اقبالؔ کے حصّہ کی برابری کو ئی نہیں کر سکتا۔ بے شک اردو زبان میں علامہ اقبالؔ نے نئی روح پھونکی ہے اور یہ زبان ہمیشہ اقبالؔ کی مرہون منت رہے گی۔ اقبالؔ کی بدولت اردو زبان تاقیامت زندہ رہے گی۔

تبصرے بند ہیں۔