علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ (قسط سوم)

ادریس آزاد

 اقبال کا عقیدۂ توحید

ایک محقق ڈاکٹر راشد حمید کے الفاظ میں،

’’علامہ کے ہاں مسئلہ توحید اس قدر واضح اور اہم تھا کہ انھوں نے صرف اس نظریے کی الہامی کیفیت کو منزہ اور صاف رکھنے کے لیے وحدت الوجود کی مخالفت کی‘‘

سب سے اہم بات جس کا میں کنایۃً اُوپر بھی ذکر کرآیا ہوں یہ ہے کہ کیا ’’تصورِ خدا‘‘ عقیدۂ توحید کا لازمی جزو ہے؟

بظاہر یہ سوال بڑا عجیب سا ہے لیکن جب ہم عقیدۂ توحید کو بطور عقیدہ کے پیش کرتے ہیں تو مذہبی زندگی کا دوسرا درجہ یعنی ’’فکر‘‘ سے فارغ التحصیل ہونا لازم نہیں آتا بایں ہمہ تصورخدا اور اس کا کسی کنارے لگ جانا بھی لازم نہیں آتا۔

اقبال کے ہاں ہم عقیدۂ توحید کو بطور ایک عقیدہ کے تصور خدا کے فکری عمل سے ماورأ پاتے ہیں۔

اقبال کے نزدیک،

“The essence of”Tauhid” as a working idea is equality, solid- -arity, and freedom.The state, from the Islamic stand point, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces”
(The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p154)

یعنی عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات‘حریت اور استحکام میں ہے اور ریاست، اسلامی نکتہ نظر سے، ان زرّیں اصولوں کو زمان و مکاں میں مشہود کرنے کا نام ہے ۔

اس تعریف میں تو خدا کا ذکر ہی نہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال کی توحید ’’خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں‘‘ کی اسلامی تعریف کو تسلیم نہیں کرتی۔

نہیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال عقیدہ کے عملی پہلو کو مرکزی اہمیت دیتاہے اور اس کے عقلی پہلو یعنی تصور خدا کو مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ یعنی ’’ فکر‘‘ یا اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ دیتاہے۔ اس لیے فقط توحید کا اقبالی فہم مقصود ہو تو یہ ’’اُمتِ واحد‘‘ کی خواہش کا نام ہے۔

جیسا اقبال نے تشکیل کے دیباچہ میں کہا اور میں نے پہلے بھی کوٹ کیا کہ،وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔سے اقبال کی مراد ایک ’’نامی وحدت‘‘ ہے۔

ایک ایسا آرگینک طرز کا رشتہ جو دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان پیدا ہوجائے اور وہ خود کو ایک جسم محسوس کرنے لگیں۔یہ ہے اقبال کی توحید ۔

اس توحید کے پہلے سرے پر انسان بطور فرد وارثِ کائنات ہے اور اس کے آخری سرے پر انسان بطور اُمت وارث کائنات ہے۔ اس میں خدا اور تصورخدا کا کچھ خاص تذکرہ نہیں ہے۔

خدا کیساہے؟ کتنا بڑاہے؟ اس کے واحد ہونے سے کیا مراد ہے؟

یہ سوالات اقبال اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ چکاہے۔

ناشکیب امتیازات آمدہ
در نہادِ او مساوات آمدہ
ہمچو سرو آزاد فرزندانِ اُو
پختہ از قالو بلیٰ پیمانِ اُو
(مورز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۴)

خدا کا وحدہُ لاشریک ہونا اقبال کے نزدیک فکر و عقل سے متعلق مسئلہ نہیں بنیادی طور پر عمل سے متعلق مسئلہ ہے۔اور ویسے بھی پوری دنیا کے انسان مل کراگر کہنا شروع کردیں کہ ’’خدا ایک ہے‘‘، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر ساری دنیا کے انسان مل کر یہ کہہ دیں کہ خدا ایک نہیں کئی ہیں، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عقیدۂ توحید کے تحت خدا کو انسانوں سے اپنے ایک ہونے کا اقرار سننے کا شوق نہیں۔ یہ کوئی پہلوانی کا مقابلہ ہے نہ یونانی خداؤں کی طرح تکبر اور برتری کے احساس کا اظہار۔ اسلامی توحید عملی سرگرمی ہے۔ اس لیے اسے بطور عقیدہ بھی اساطیری طرز کی وحدانیت سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔

یہاں خدا قصے کہانیوں کا کردار نہیں، معاشرے میں موجود ایک حی و قیوم قوت ہے جو نفس واحدہ میں جلوگر ہے بایں ہمہ نفس واحدہ اپنی مُراد پاتاہے تو ہرقسم کی دوئی سے پاک ہوکر۔

اقبال کی توحید کسی حد تک سپائنوزا کے توحیدِ وجود سے مماثلت رکھتی ہے۔ اقبال ’’جسم اور رُوح‘‘ کو دو الگ الگ اجزأ نہیں سمجھتا۔ اقبال کے الفاظ میں،

“According to the Quran they do belong to the same system. “To Him belong’ Khalq (creation) and ‘amr'(direction).”Thus my real personality is not a thing, it is an act. My whole reality lies in my directive attitude. You cannot perceive me like a thing in space”
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam p.103)

اقبال کے نزدیک اسلامی نظریہ توحید کی رُو سے تمام کائنات میں وحدت کا اُصول کارفرما ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ نظریہ محض اساطیری طرز کا عقیدہ نہیں ہے۔

  اقبال کا عقیدۂ رسالت

اقبال نے تشکیل ِ جدید میں لکھاہے،

’’ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں وارداتِ اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کرجاتی اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی، یا ازسرنوتشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں‘‘۔

نبوت کو ولایت کی ایک مزید ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہوئے اقبال ’’وحی‘‘ کے معنی کو متعین کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ عام معنوں میں تو وحی اُس کلام کو کہتے ہیں جو خدا اپنے نبی یا رسول کے ساتھ کرتاہے۔

لیکن اقبال قران کی ہی آیات کی مدد سے یہ مؤقف اختیار کرتاہے کہ،

’’قران مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ وحی خاصۂ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا گزر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہیے کہ جیسے جیسے وہ ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے۔

یہ کسی پودے کا زمین کی پہنائیوں سے آزادانہ سرنکالنا، یہ کسی حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کسی نئے عضو کا نشوونما، یہ انسان کا خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرنا، یہ سب وحی کی مختلف شکلیں ہیں‘‘۔

پہلے پیرے میں نبوت کی تعریف اور دوسرے پیرے میں وحی کے معنی کی تعیین سے ثابت ہورہاہے کہ اقبال وحی کو بہرحال ارتقا پذیر قوت سمجھتا ہے۔

خاص طور پر یہ الفاظ کہ،

’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔

یہاں اقبال کے خیال پر ایک بے رحم سوال اُٹھتاہے کہ
’’اگر وحی ارتقا پذیر قوت کا نام ہے تو پھر اس قوت کا ارتقا ایک خاص مقام پر رُک کیوں گیا؟

بایں ہمہ اگر اقبال کی نبوت کی تعریف اور وحی کی تعریف کو قبول کرلیا جائے تو لازم آتاہے کہ اقبال کے عقیدہ ٔ ختم نبوت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت پر نظرثانی کریں۔

اقبال کا یہ جملہ قابل ِ غور ہے،

’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔

اقبال نے وحی کی برتر شکلوں کو ماہییت اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف قرار دیاہے۔ گویا اس طرح اقبال اُس سخت تنقید سے بچ سکتا ہے جو وحی کو شعور ولایت کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دینے سے اقبال پر وارد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ یوں کہ اگر ہم وحی کی ایک ایسی نوعیت کو بھی تسلیم کرلیں جو فی الواقعہ اپنی نوع کے اعتبار سے یکسر مختلف تجربہ ہے تو اقبال بچ سکتاہے۔

اقبال بلاشبہ اسے ایک یکسر مختلف تجربہ قرار دیتا ہے اور یوں گویا وہ شعور ِ ولایت اور شعور نبوت میں درحقیقت درجے کا نہیں بلکہ نوعیت کا فرق قائم کرکے ان کے ردمیان ایک دیوار کھڑی کردیتا ہے۔

اقبال نے ابن صیاد کا واقعہ درج کرکے یا ایک مغربی مفکر کے اس خیال کا جواب دیتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ سُوئے اعصاب کا شکار تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا باقاعدہ اس بات کو عملاً تسلیم بھی کیا ہے کہ شعور ولایت اور شعورنبوت کا فرق درجاتی نہیں بلکہ نوعی ہے۔یہ فرق بالکل ویسا ہی ہے جیسا دو مختلف انواع میں ہوسکتاہے۔

دراصل اقبال کو کائنات میں وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے چنانچہ وہ یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول کی وحی کو تو خارج سے وارد ہونے والی واردات کہا جائے جیسا کہ وحی کو عام عقیدے کی رُو سے سمجھا جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ ایک معمولی ولی کے کشف والہام کو اس کے اندرونِ ذات کی کوئی گہری واردات قراردیا جائے۔

اقبال وحی کو شعورِ ولایت سے اس طرح بلند تر دیکھتاہے کہ اس کے نزدیک شعور ِ ولایت کی واردات ذاتی اور انفرادی بلکہ خودغرضانہ ہوتی ہے جبکہ نبی کی واردات حیاتِ اجتماعیہ کی تشکیل نو بلکہ تعمیر نو کا موجب بنتی ہے جو ثبوت ہے اس بات کہ دونوں میں درجے کا نہیں نوع کا فرق ہے۔

جاری ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔