علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ (آخری قسط)

ادریس آزاد

اقبال، ختم نبوت کا عقیدہ اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے شعور نبوت اور شعور ولایت کا یہی فرق بیان کرتاہے اور اسی کی بنا پر ایک نتیجہ اخذ کرتاہے کہ:

’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں  ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

یہاں  نوع ِ انسانی کے عالم صغرسنی سےاقبال کی کیا مُراد ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہا ہے کہ جب انسانی تاریخ میں  نبی آیا کرتے تھے تو دراصل اس وقت انسان بحیثیت مجموعی بچہ تھا۔ اس لیے اس وقت تک نبی آتے رہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اس جملہ میں  اقبال نے وحی کو ’’نفسی توانائی‘‘ کہہ کر پکاراہے جو باقاعدہ نشوونما پاتی ہے۔

جملہ دوبارہ ملاحظہ کیجے!

’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں  ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ اگر نفسی توانائی کا نشوونما ایسا ہی ارتقائی عمل تھا تو پھر ایک خاص وقت میں  اس کا ارتقا اچانک رُک جانا کیوں  کر معقول ہے؟ اگر یہ کمال بنی نوع انسان کے عالم ِ صغرسنی میں  وقوع پذیر ہوتارہا ہے تو انسان کے بڑا ہوجانے کے بعد یہ ارتقائی عمل خود بخود کس قائدے کی بنا پر رُک گیا؟

اس کے بعد اقبال فرض کرلیتا ہے کہ،

’’اور جس کے معنی یہ ہیں  کہ اس شعور کی موجودگی میں  نہ تو افراد کو خود کسی چیز پر حکم لگانا پڑے گا، نہ ان کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہو اور ناپسندیدگی کیا۔ انہیں  یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں  ہوگی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں ۔ یہ سب باتیں  گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہونگی۔ یہ نہیں  کہ انہیں  اس بارے میں  خود اپنے فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑے‘‘۔

یوں  گویا اقبال نے ختم نبوت کو ایک مظہر فطرت قرار دیاہے۔جو لوگوں  پر پہلے سے طے شدہ پابندیاں  لے کر نازل اور ظاہر ہوتاہے۔اوّل تو اس مظہرفطرت کو بیان کرنے کے لیے اقبال نے ایسا کوئی اصول ِ فطرت بیان نہیں  کیا جسے ہم فلسفیانہ استدلال قرار دے سکیں ۔ محض یہ کہہ کر کہ ایک زمانہ تھا جب انسان بچہ تھا تو اس وقت کسی کی نفسی توانائی کا نشوونما اس قدر بڑھ جاتا کہ وہ شعور ِ نبوت کی صورت اختیار کرلیتا اور شعور ِ نبوت یہ ہوتا کہ اس کے بعد ماننے والوں  کو اپنے فکر اور انتخاب سے کام نہ لینا پڑتا۔
وہ اس نبی کی ہر بات مانتے چلے جاتے۔ انہیں  یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں  ہوتی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں ۔ یہ سب باتیں  گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہوتیں ۔ اور پھر اچانک یوں  ہوا کہ فطرت کا یہ مظہر پیش آنا بند ہوگیا۔ اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

بظاہر معلوم ہوتاہے کہ اقبال ختم نبوت کا عقیدہ سمجھانے میں  کامیاب نہیں  ہوسکا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال وحی کو ایک ارتقا پذیر قوت سے تعبیر کرتا اور اسے نفسی توانائی قرار دیتا ہے۔اور یوں  اقبال کی یہ کوشش کہ وحی اور کشف کے درمیان نوعی حد ِ فاصل کھینچ سکے خود بخود کالعدم ہوجاتی ہے۔

وحی کو اقبال نے اس لیے بھی مظاہر فطرت میں  سے قرار دیا ہے کہ اقبال کے سامنے، شہد کی مکھی کو وحی کرنے والی آیت، اُم ِ موسیٰ کو وحی کرنے کی آیت یا شیطان کی طرف سے اپنے دوستوں  کو بھیجی گئی وحی والی آیت بھی موجود رہی۔
جیسا کہ اقبال نے خود ان آیات کا ذکر کیا۔ اقبال نے تویہاں  تک کہا کہ ایک درخت کا زمین سے آزادانہ پھوٹ پڑنا بھی وحی کے زیر ِ اثر ہے۔ بلاشبہ ان آیات سے یہی مترشح ہوتاہے کہ وحی ایک ایسی عالم گیر رہمنائی کو کہتے ہیں  جو فطرت میں  ہرشئے کے لیے کارفرمارہتی ہے۔ اسی استدلال کی بنا پر اقبال نے اپنا مقدمہ کھڑا کیا اور کہہ دیا کہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں  ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرگیا جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
اس طرح کہہ دینے سے گویا اقبال نے یہ تسلیم کرلیا کہ وحی ارتقا پذیر ہے چنانچہ اگراقبال کی تصریحات کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ وحی کا ارتقا اب بھی جاری ہے۔ اور اب بھی ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کی ’’نفسی توانائی‘‘ اچانک ارتقا کرجائے اور وہ شعور نبوت حاصل کرلے۔

مختصر یہ کہ اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت سے ختم نبوت کا ماننا لازم نہیں  آتا۔

اس سوال کے جواب میں  کہ اگر نفسی توانائی ارتقاپذیر ہے تو پھر اس کا ارتقا رُک کیوں  گیا اقبال کا کہناہے کہ:

’’شعور نبوت کو گویا کفایت فکر اور انتخاب سے تعبیر کرنا چاہیے۔ لیکن جہاں  عقل نے آنکھ کھولی اور قوت تنقید بیدار ہوئی تو پھر زندگی کا مفاد اسی میں  ہے کہ ارتقائے انسانی کے اولین مراحل میں  ہماری نفسی توانائی کا اظہار جن ماورائے عقل طریقوں  سے ہوا تھا ان کا ظہور اور نشوونما رک جائے‘‘۔

اس اقتباس میں  اقبال نے کہا ہے کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب نے دراصل ’’عقل کی آنکھ کھول دی اور قوت ِ تنقید کو بیدار کردیا‘‘۔ مزید وضاحت یہ ہے کہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب نے گویا استقرائی عقل کو جنم دیا۔ اقبال نے انہی سطور میں  باقاعدہ استقرائی عقل کے آغاز کی بات بھی کی ہے۔ یہاں  یہ بتادینا ضروری ہے کہ استقرائی عقل سے مراد ہے سائنسی طریقہ کار۔ یعنی تنقید کا طریقہ کار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کرنے کا طریقہ کار اور حسی تجربے پر اعتماد کرنے کا طریقہ کار۔ کیونکہ اسلام سے قبل یونانی فکر کی تقلید میں  انسانیت حسی تجربات سے حاصل ہونے والے علوم سے نفرت کرتی تھی۔ اسلام نے آکر یہ اعلان کردیا کہ اب آنکھیں  کھولنے کا وقت ہے۔

یہ دنیا خیالی نہیں  ہے۔ یہ کائنات حقیقی ہے۔ اس کی سیر کرو! اسے تسخیر کرو! چاند ستاروں  کی گردش پر غور کرو! درختوں ، پھولوں ، پتھروں  اور پہاڑوں  پر غور کرو! اور گویا اسلام نے سائنس کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ یوں  اقبال اپنے عقیدۂ ختم نبوت کو ایک اور طریقہ سے کمک پہنچاتا اور کامیابی سے ہمکنار ہوتاہے۔ وہ اس طرح کہ اقبال کے مطابق اسلام کا ظہور عالم ِ مشہودات میں  استقرائی عقل کا آغاز تھا۔ اس سے قبل استخراجی عقل کارفرما تھی۔

استخراجی اور استقرائی عقل کے عین درمیان رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات موجود ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں:

’’اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں  نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے‘‘۔

اقبال کے نزدیک نبوت کا معراج ہی یہی تھا کہ وہ انسان کو استخراجی عقل کی پرستش سے نکال کر استقرائی عقل تک لے آئے۔ اگر ایک بار انسان استقرائی عقل اختیار کرنے میں  کامیاب ہوگیا تو پھر اسے نبیوں  اور رسولوں  کی ضرورت نہ رہیگی۔ کیونکہ اب وہ اس وحی کو جو ایک مظہر فطرت ہے براہِ راست خود حاصل کرنے کا اہل ہوچکا ہوگا۔

اقبال کے الفاظ یہ ہیں:

’’لیکن یہاں  یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات ِ انسانی اب وارداتِ باطن (وحی) سے، جو باعتبار نوعیت انبیأ کے احوال و واردات سے مختلف نہیں ، ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکی ہے۔قران مجید نے ’آفاق و انفس‘ دونوں  کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات کا ظہور محسوسات و مدرکات میں ، خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی، ہر کہیں  ہورہا ہے‘‘۔

اس تمام تر استدلال کے بعد اقبال اپنے اصل عقیدہ کی وضاحت کرتاہے۔ اقبال وحی کی نشوونما کا قائل ہے تو اپنے افکار کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے تازہ بہ تازہ ارتقا کا منکر نہیں  ہے۔ جیسے کہ ہم ابھی ایک اقتباس میں  دیکھ چکے ہیں ۔ چنانچہ اقبال آئندہ سطور میں  نہایت وضاحت کے ساتھ بتاتاہے کہ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وحی نہیں  جو رک گئی ہے بلکہ یہ ’’دعویٰ‘‘ ہے جو روک دیا گیا ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں :

’’اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں  پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے لہذا ہمیں  اس کی اطاعت لازم آتی ہے‘‘۔

اب ایک آخری منطقی سوال یہ بچ جاتاہے کہ اگروحی کا ارتقأ نہیں  روکا گیا اور اس فطری مظہر کا اظہار آج بھی ہورہا ہے تو پھر دعویٰ کیوں  روک دیا گیا؟ یعنی آج اگر کوئی شخص وحی کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ ہم کیوں  نہ تسلیم کرینگے؟

اس سوال کا جواب ہم پہلے دیکھ آئے ہیں ۔ قران کی وحی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے ساتھ ہی کائنات کے پست و بلند پر غور کرنے کی اجازت عطاکردی گئی۔ یعنی استقرائی عقل عطاکردی گئی۔ بقول اقبال سقراط کا موضوع تو صرف انسان ہے۔

افلاطون کو تو حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم سے نفرت ہے اور ان کی پیروی میں  ساری یونان کی علمی تاریخ کو عالم ِمحسوس سے نفرت ہے۔ وہ صرف استخراجی عقل کے قائل ہیں ۔ دوجمع دو چارہوتاہے جیسے پختہ اصولوں  کی روشنی میں  حاصل ہونے والے علم کو علم مانتے ہیں ۔ وہ تو ستاروں ، سیاروں ، پھولوں ، پودوں ، درختوں  اور پہاڑوں  کے علم کو علم نہیں  مانتے۔ قران بہ اصرار یہ منواتاہے کہ حسی تجربے سے حاصل ہونے والا علم بھی علم ہے۔ حسی تجربے سے حاصل ہونے والی علم کی بنیاد ’’شک‘‘ پر ہے۔

یہ چیز کیا ہے؟

یہ پتھر کالے رنگ کا کیوں  ہے؟

یہ درخت اونچا اور وہ درخت پست قد کیوں  ہے؟

یہ شکوک و شبہات جن کی اجازت اسلام نے دی۔ گویا عقل اب تنقید کرنے کے قابل ہوگئی۔ وہ حسی اور عقلی دونوں  طرح کے علوم سے مستفید ہونے کی اہل ہوگئی تو پھر گویا وہ عقلیت کی قبر سے نکل کر آزاد ہوگئی۔ آزاد عقل کو کسی انسان کی رہنمائی کی نہیں  بلکہ خود پر اعتماد کی ضرورت تھی۔ اسے قران نے غوروفکر کرنے پر شدت کے ساتھ اکسایا اور انسان کی سرے سے جان ہی چھوٹ گئی۔

اگر اسلام کو مذہب نہ سمجھا جائے تو دوسرے الفاظ میں  یہی کہنا پڑیگا کہ اسلام دراصل تمام تر الوہی مذاہب سے چھٹکارا دلانے کے لیے نازل ہوا تھا۔

یعنی اقبال کے نزدیک انسان کو صوفیانہ واردات سے رہنمائی اب بھی ملےگی لیکن اب وہ آزاد ہے اور جو کچھ الہام، کشف یا وحی ہے وہ اس کا اپنا ہی ہے اور وہ اس کا اکیلا ہی ذمہ دار ہے۔ اس کے نتائج سے اگر دیگر لوگ اتفاق بھی کرلیں  تب بھی ان پر اُس کی اطاعت لازم نہیں  آئے گی کیونکہ وہ سب پھر اپنی تنقیدی عقل کو استعمال کرنے میں  حق بجانب ہونگے۔

اقبال کہتے ہیں :

’’زندگی وہ فرصت ہے جس میں  خودی کو عمل کے لاانتہا مواقع میسر آتے ہیں ‘‘۔

موت سے پہلے اس جملے کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہے ہیں  کہ خودی جو انسانی شخصیت کا اندرنی اور نہایت گہرا رُخ ہے۔۔۔۔۔۔۔ عرصۂ حیات ِ جسمانی کے دوران عمل کے ذریعے خود کو مستحکم بناسکتی ہے۔ مزید سادہ الفاظ میں  انسان اپنی شخصیت کوحسن عمل کے ذریعے مستحکم بناسکتاہے اور یہ موقع اس کی شخصیت کو جسمانی زندگی کے عرصہ میں  نصیب ہوتاہے۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک ایک مستحکم خودی کو موت نہیں  آتی۔

بقول اقبال:

فرشتہ موت کا چھُوتاہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتاہے

یا

زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں  ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خودگرو خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
چنانچہ عرصہ حیاتِ جسمانی خودی کی عارضی 

قیام گاہ ہے۔ پیکرآدم ِ خاکی میں  مشہود ہونے سے پہلے خودی فرد کی انفرادی سطح پر اپنی ایک اور الگ شناخت کی حامل نہیں  تھی، یعنی اگر وہ کسی لامتناہی ہستی سے انسان میں  منتقل ہوئی ہے تو بھی انسان بننے سے پہلے اس کی الگ شناخت نہ تھی۔
انسانی وجود میں  جوہر کی صورت جلوہ گر ہونے کے بعد خودی کو ایک الگ انفرادی شناخت ہاتھ آگئی۔

اب اگر خودی چاہے تو اپنی شناخت کو مزید مضبوط بناتے ہوئے ہمیشہ کے لیے خود کو اتنا مستحکم کرلے کہ عارضی حیات میں  کسی بھی قسم کا حادثہ اس کی صحت پر اثرانداز نہ ہو۔ یہاں  تک کہ یہ حادثہ اگر ’’موت‘‘ کا حادثہ ہو تب بھی۔

اقبال کے الفاظ یہ ہیں :

’’لہذا خودی نے اپنے عمل اور سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں  اتنا استحکام پیدا کرلیا کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے تو اس صورت میں  موت کو بھی ایک راستہ ہی تصور کیا جائےگا‘‘۔

آخرت کی زندگی سے متعلق اقبال کا مؤقف بڑا دلچسپ ہے، اقبال کا کہنا ہے کہ:

’’موت اس (خودی) کا پہلا امتحان ہےتاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں  کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں  یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہوجائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھینگے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیازِ من و تُو خودی کا احترام کریں ۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں ۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔ بالفاظ دگر ہم اس کے اُمیدوار ہیں‘‘۔

جہاں  تک اس بات کا تعلق ہے کہ اقبال بعثتِ ثانیہ سے کیا مراد لیتے ہیں ؟

تو یہاں  ہم اُن کا یہ اقتباس دیکھتے ہیں،

’’علمائے الٰہیات کے درمیان جو مسئلہ مختلف فیہ ہے وہ یہ کہ انسان کی بعثت ِ ثانیہ پر کیا اس کا جسم بھی پھر سے زندہ ہوجائے گا۔ اس میں  زیادہ ترخیال یہ ہے اور شاہ ولی اللہ کی رائے بھی جن کی ذات پر گویا الٰہیات اسلامیہ کا خاتمہ ہوگیا یہی تھی کہ حیات بعد الموت پر ایسا کوئی مادی پیکر ناگزیر ہے جو خودی کے نئے ماحول میں  اس کے مناسب حال ہو۔ لیکن میں  سمجھتاہوں  ان کے اس نظریے کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ جب ہم خودی کا تصور بحیثیت ایک فرد کے کرتے ہیں  تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے کسی مقام یا اختباری پس منظر سے نسبت دیں‘‘۔

گویا اقبال کہہ رہے ہیں  کہ بعثتِ ثانیہ کے وقت کسی پیکر کا ہونا محض ہمیں  ضروری لگتاہے کیونکہ ہم جب خودی کو فرد ِ واحد سمجھتے ہیں  تو پھر اس کے لیے مکان میں  ہونا بھی لازمی سمجھتے ہیں ۔

اقبال کے نزدیک دوبارہ اُٹھایا جانا جسمانی طور پر ضروری نہیں  ہے۔ وہ کہتے ہیں  کہ:

’’کیونکہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں  کہ انسان کا معاد کسی نہ کسی جسد عنصری سے وابستہ ہے، خواہ اس جسد عنصری کی حقیقت کچھ بھی ہو اور سردست ہم اسے سمجھ بھی نہ سکیں ، جب بھی بعثت ِ ثانیہ کے باب میں  ہمیں  کوئی بصیرت حاصل نہیں  ہوتی۔ قران مجید نے بھی اس سلسلے میں  جن مماثلتوں  کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے مقصود صرف یہی ظاہر کرنا ہے کہ بعثت ثانیہ ایک حقیقت ہے، یہ نہیں  کہ اس کی ماہیت کیا ہے‘‘۔

جنت اور جہنم کے حوالے سے تو اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں  اپنا عقیدہ بیان کیا ہے،

’’جنت اور دوزخ اس (خودی) کے احوال ہیں ۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں  ہیں ‘‘۔

مزید لکھتے ہیں:

’’جیسے دوزخ کے بارے میں  ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں  تک پہنچتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں  پر غلبے اور کامرانی کی مسرت‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔