علامہ شبلی نعمانی

 ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی

علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمہ ۴؍جون ۱۸۵۷ء کوموضع بندول ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ حبیب اﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر وادب کے بڑے اداشناس تھے۔ رفاہ عام کے کاموں میں بھی آگے بڑھ کر حصہ لیتے، تصوف کے بھی ذوق آشنا تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کے نام شبلی وجنید رکھے اور علم دین کی تعلیم دلائی، علامہ شبلی ان کے بڑے بیٹے تھے، انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، پھر مولوی عبداﷲجیر اج پوری سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد یہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل ہوئے، اسی زمانہ میں ان کے والد نے اعظم گڈھ شہر میں مدرسہ عربیہ قائم کیا تو وہ اس میں آگئے، بعد ازاں مولانا فاروق چریا کو ٹی کوان کے مدرسہ عربیہ میں استاذ مقرر کردیا۔ چنانچہ اسی مدرسہ میں انھوں نے تعلیم کی تکمیل کی، پھر مختلف علوم وفنون میں مہارت پیدا کرنے کے لئے مثلاً فقہ کی تحصیل کے لئے مولانا ارشاد حسین رام پوری، ادب کے لئے مولانا فیض الحسن سہارن پوری اور حدیث کے لئے مولانا احمد علی محدث سہارن پوری کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، اسی زمانہ میں ان کے والد اورخانوادے کے دیگر افراد حج کے لئے جارہے تھے، چنانچہ انھوں بھی رخت سفر باندھا اور تعلیم کے بعد سب سے پہلے اﷲ کے گھر کی زیارت کی، وہاں بھی ان کا ذوقِ علم ومطالعہ غالب رہا اور انھوں نے مدینہ منورہ کی کتب خانوں سے استفادہ کیا۔

 حج کے بعد انھوں نے اعظم گڈھ میں مختلف مشاغل اختیار کئے، کچھ دن امین رہے، پھروکالت کا امتحان پاس کرکے اعظم گڈھ و بستی میں وکالت کی لیکن ان سب کاموں میں ان کا جی نہ لگا اور ان میں وہ ناکام رہے۔

 ان کے والد شیخ حبیب اﷲ علی گڈھ تحریک کے ابتدائی ہم نوا لوگوں میں سے تھے سرسید نے اعظم گڈھ کا سفرکیا تو وہ ان کے ساتھ رہے، کالج کی مالی معاونت کی، بعض عمارتوں کی تعمیر میں بھی انھوں نے حصہ لیا، سرسید نے پٹر یاٹک سوسائٹی قائم کی تو انھیں اعظم گڈھ کا کرسپاڈنگ رکن مقرر کیا۔ اسی تعلق کی بنا پر انھوں نے تمام بچوں، بھتیجوں اور قرب وجوار کے طلبہ کو علی گڈھ میں داخل کرایا، ان کے دوسرے بیٹے مہدی حسن جوحفظ قرآن مکمل کرچکے تھے انھیں انگریزی تعلیم دلائی اور علی گڈھ بھیجا، وہ علی گڈھ کے ابتدائی طلبہ میں سے تھے،چنانچہ علی گڈھ سے ایف اے کرنے کے بعد وہ بیر سٹری کے لئے لندن گئے، منجھلے بیٹے محمد اسحاق نے بھی علی گڈھ سے بی اے کیا اور وکالت پاس کرکے الہ آباد کے نامور وکیل ہوئے۔ ۱۸۸۲ء میں شیخ صاحب بچوں سے ملنے علی گڈھ گئے تو شبلی کوبھی ساتھ لے گئے، اس دور میں شبلی کے دل میں سرسید کا کتنا احترام رہا ہوگا کہ وہ علی گڈھ آئے تو خالی ہاتھ نہیں آئے، سرسید کی مدح میں عربی میں قصیدہ کہہ کر ساتھ لائے اور پیش کیا، جسے سرسید نے بہت پسند کیا اور شیخ صاحب کی آمد، کالج کے معائنہ اور اس قصیدہ کا ذکر علی گڈھ انسٹی ٹیوٹ میں کیا اور قصیدہ کو بھی شائع کیا۔ اس قصیدہ میں شبلی نے سرسید کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اور جیسا ان کا سراپا کھینچا ہے وہ بے حد اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ اس وقت تک شبلی جدیددنیاسے ناواقف تھے، بہرحال شبلی کی سرسید سے یہ پہلی ملاقات تھی۔

علی گڈھ جانے سے پہلے اعظم گڈھ میں شبلی کی مشغولیا ت بھی متنوع تھیں وہ کبھی شعر وشاعری کی محفل سجاتے ہیں، کبھی طلبہ کو درس دیتے، شدید حنفیت کے زیر اثر گھوڑے پر سوار ہوکر اہل حدیث علماء سے مناظرے کرتے ہیں۔ ان کی ابتدائی تصنیفات اسکات المعتدی اور رسالہ ظل الغمام اسی مناظرانہ شغل کی دین ہیں۔

 کتب بینی اور مطالعہ کا شوق انھیں بچپن سے تھا، اعظم گڈھ کے کتب فروشوں کی دکانوں پر کھڑے ہوکر وہ کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور اپنے احباب سے کتابیں حاصل کرکے ان کا مطالعہ کرتے، غرض علم ومطالعہ کے وہ بڑے شائق تھے مگر اس وقت تک ان کی فکر ونظر کا میدان حنفیت کی تبلیغ واشاعت تھا۔

  ۱۹۸۳ء میں علی گڈھ کالج میں فارسی کی جگہ نکلی تو وہ اپنے استاذ مولانا فیض الحسن سہارن پوری کے سفارشی خط کے ساتھ اس کے امیدوار ہوئے۔ چنانچہ ان کا انٹرویو اس طرح ہو اکہ سرسید کے کتب خانہ میں انھیں بلایا گیا وہ آئے تو کتابیں دیکھ کر جوالماریوں میں بند تھیں الماریوں کا چکر لگاتے رہے، ان سے کہاگیا کہ اب انٹرویو کل ہوگا۔ دوسرے د ن آئے تو الماریاں کھلی ہوئی تھیں چنانچہ وہ الماریوں سے کتابیں نکال نکال کر دیکھتے رہے، پھر ان سے کہا گیا کہ انٹرویو کل ہوگا۔ تیسرے دن وہ آئے تو کتب خانہ میں کرسی اور میز بھی موجود تھی، چنانچہ وہ الماریوں سے کتابیں نکال کر مطالعہ میں منہمک ہوگئے، اسی اثناء میں سرسید احمد خاں تشریف لائے اور ان کے ذوق مطالعہ کو دیکھ کر ان کے تقرر کی خوش خبری سُنائی گویا ان کے بڑھے ہوئے ذوق مطالعہ نے انھیں علی گڈھ سے وابستہ کردیا اور اب انھیں بھی    ٓٓٓٓاندازہ ہوا کہ سرسید کس قدرجویائے علم اور دانائے راز تھے، چنانچہ فروری ۱۸۸۳ء سے وہ علی گڈھ کالج سے وابستہ ہوئے۔ یہاں آئے تو سرسید کے کتب خانہ، سرسید کی صحبت اور پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیالات نے ان کے ذوق ونظر کی دنیا ہی بدل دی، اس وقت کالج نئے علوم وافکار بلکہ جدید دنیا کا ایک اہم مرکز تھا۔

یہاں کے قیام نے شبلی کی دنیا ہی بدل دی جس کا خود انھوں نے بارہا اعتراف کیا ہے، پہلے وہ کالج سے باہر رہتے تھے، سرسید نے انھیں اپنے قریب بلاکر ایک بنگلیہ میں قیام کرنے کا موقع دیا، جسے عرف عام میں شبلی کی بنگلیہ کہا جاتا تھا، اس طرح ان کا اور سرسید کا شب وروز کا ساتھ ہوا تو شبلی سرسید کی زبان بولنے لگے، سرسید اور علی گڈھ تحریک کی حمایت میں انھوں نے ۱۸۸۵ء میں مثنوی صبح امید لکھی اس میں انھوں نے سرسید کا جو سراپا کھینچا ہے، اور علی گڈھ تحریک کی جس قدر تعریف وتوصیف کی ہے، واقعہ یہ ہے کہ وہ بڑی بڑی کتابوں سے بھی نہ ہوسکی۔

 اس زمانہ میں سرسید ایجوکیشنل کانفرنس قائم کرچکے تھے، اس کے دوسرے اجلاس میں شبلی نے شرکت کی اور سرسید کی خواہش پر ’’مسلمانوں کی گذشتۂ تعلیم ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا، یہ مقالہ لکھنؤ کی شاہی بارہ دری میں سرسید کی موجودگی میں پیش کیا گیا، جب یہ مقالہ پیش کیا جارہا تھا اس وقت کے امراء اور روؤسا ووالیانِ ریاست اور جدید علوم وفنون کے شیدائی موجود تھے او ر لوگ اُٹھ اُٹھ کر پوچھتے تھے کیا مولانا ہمارا ماضی ایسا ہی شاندارتھا،جیسا کہ آپ بیان کررہے ہیں ؟شبلی نے اس مقالہ میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، قدیم مدارس، دارالعلوم اور اس کی ترقیوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے، سرسید نے اس رسالہ کو بے حد پسند کیا اور مدرسۃ العلوم کی طرف سے شائع کیا۔

 یہاں آکر شبلی کے خیالات اور غورفکر کا محور بدل گیا اور انھیں معلوم ہواکہ اسلام اورشعائراسلام پر کس قسم کے اعتراضات ہیں اور اسلام کی سچی خدمت کا میدان کیاہے، یہیں وہ سرسید کی صحبت اور پروفیسر آرنلڈ کی رفاقت میں مستشرقین سے اور ان کے اسلام پر اعتراضات سے واقف ہوئے، چنانچہ انھوں نے رسالہ کتب خانہ اسکندریہ لکھا جس میں انھوں نے مسلمانوں پر عائد اس الزام کا کہ کتب خانہ اسکندریہ مسلمانوں نے برباد کیا اورمسلمان علم کے دشمن تھے، بڑا مدلل جواب لکھا اور ثابت کیا کہ یہ محض الزام ہے،حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں اورکتب خانہ اسکندریہ خود عیسائیوں نے جلایا اور اس کے جلانے میں ان کے مذہبی رہنما شریک تھے۔ اس محققانہ مقالہ نے اہل علم کو بے حد متاثر کیا اور اس سے مغربی اہل قلم کے نقطۂ نظر میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ الجزیہ اور حقوق الذمیین بھی ان کے اسی نوع کی تحقیقات کے نمونے ہیں، الجزیہ کا سرسید نے انگریزی میں ترجمہ کراکے شائع کیا اور اس کی وہ بے حد تعریف کرتے تھے۔

 یہاں علی گڈھ کی فضا میں انھوں نے درس وتدریس کے ساتھ شعروسخن کا بھی سلسلہ جاری رکھا، کالج کی خاص خاص مجالس میں وہ شریک ہوتے، قصائد پیش کرتے، خاص طور پرکالج میں کوئی مہمان آتا تو اس کے منظوم استقبال اور قصائد پیش کرکے کالج کی ادبی فضا اور اس کے وقار میں اضافہ کرتے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک وہ کالج سے وابستہ رہے، ان میں بیشترتخلیقات کو سرسید نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع کیا ہے۔

 مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم جو ان کے جدید دور تصنیف اور تحقیق کی پہلی کاوش ہے کے بعد ۱۸۸۷ء میں خلیفہ مامون کی سوانح اور تاریخ المامون لکھی۔ ان کی یہ تصنیف بھی بے حد مقبول ہوئی، اور کالج کی طرف سے شائع ہوئی، ۱۸۸۹ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن سرسید کے دیباچہ کے ساتھ شائع ہوا۔ اس میں سرسید نے اپنے سے چالیس سال چھوٹے علامہ شبلی کی جس قدر تعریف وتحسین کی ہے وہ مثالی ہے، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سر سیدکس درجہ بلند رتبہ شخص تھے۔ انھوں نے شبلی کے مورخانہ حیثیت کی داد دی، ان کے وسعت مطالعہ کو سراہا، خاص طور پر حوالہ اور ماخذ کے اہتمام کی تحسین کی اور شبلی کے اسلوب نگارش کی ایسی تعریف کی کہ اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہوگی، انھوں نے لکھا کہ المامون کی زبان ایسی ہے کہ دلی والوں کو بھی رشک آتا ہوگا۔ اس کے بعد شبلی نے سیرۃ النعمان لکھی اس کا پہلا ایڈیش بھی کالج کی طرف سے شائع ہوا، المامون میں شبلی نے مامون کی حکومت اور اس کے عہدکی تمام نیرنگیاں دکھلائی تھیں، تواب انھوں نے سیرۃ النعمان میں امام اعظم کے حالات وسوانح کے ساتھ فقہ اور اس کی جز ئیات پرایسی بحثیں کیں اور ایسا تجزیہ پیش کیا کہ اس سے پہلے اردو میں اس کی کوئی مثال نہ تھی، ان کی یہ تحقیقات جہاں صحبت سرسید کے زیر اثر پیدا ہونے والے جدید ذہن کا پتہ دیتی ہیں وہیں شبلی کے گہرے مطالعہ اور روایتی مذہبی تحقیقات کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ سے بھی واقف کراتی ہیں۔

 اس کے بعد ۱۸۹۲ء میں علامہ شبلی نے نصابی رسالہ بدٔالاسلام تیار کیا جو عرصہ تک کالج کے نصاب میں شامل رہا۔

  شبلی نے کالج میں میلاد کی مجلسیں منعقد کرنے کی طرح کی ڈالی، چنانچہ سیرت نبوی کے جلسے جس میں وہ خود سیرت پر تقریریں کرتے، ہرسال ہونے لگے، پھر اس قدر اہتمام ہوا کہ یہ جلسے سالار منزل اور اسٹریچی ہال میں منعقد ہونے لگے، آپ اندازہ کیجئے، انگریز پرنسپل اور انگریز اساتذہ کے درمیان شبلی کی یہ کوششیں کس درجہ اہم ہے۔ دراصل یہ ان کی مذہبی روح اور مذہب سے حد درجہ لگاؤ کا نتیجہ تھا۔ واقعہ یہ کہ انھوں نے اپنے عالمانہ وقار کا ہمیشہ خیال رکھا۔

سرسیدنے کالج کے تعاون کے لئے ایک تھیٹر قائم کیا جس میں سرسید تحریک کے بعض اہم رہنما شریک ہوئے اور اپنے اپنے کردار ادا کئے، اس کا ایک کیریکٹر شبلی بھی تھے اور اس میں ایسا ترکیب بند پیش کیا کہ اسے آج بھی پڑھنے کے بعد حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔

 سیرت النعمان کے بعد انھوں نے الفاروق کی تصنیف کا آغاز کیا، اور علی گڈھ میں کیا، سرسیدشیعہ سنی تفرقہ کے خوف سے الفاروق کی تصنیف کے حق میں نہ تھے، باوجود اس کے شبلی نے اسے لکھا یہ دراصل شبلی کا ذوقی معاملہ تھا، یہ کتا ب سرسید کی وفات کے بعد ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئی مگر سبقت کی غرض سے جب مولوی سراج الدین نے سیرۃ الفاروق لکھی تو سرسید نے ان سے ناراضی ظاہر کی اور لکھا کہ اگر چہ ہم اس کے حق میں نہیں ہیں مگر مولوی سراج الدین کا سبقت کرنا        ٹھیک نہیں ہے، ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ مولوی شبلی کیا لکھتے ہیں اور اسی میں انھوں نے شبلی کی بھی تسلی کی اس سبقت سے کیا اگر دس لوگ بھی لکھیں تو شبلی کی تحریر ان سب میں نرالی ہوگی۔

 ۱۸۹۴ء میں شبلی نے روم ومصروشام کا سفر اختیار کیا، نہ صرف علی گڈھ کالج کی تاریخ میں بلکہ ہندوستان کے تمام کالجوں میں شبلی پہلے ایسے پروفیسر تھے جنہوں نے بیرون ھند کا تعلیمی سفر کیا، اس سفر کے کئی مقاصد تھے، اسلامی تاریخ کی باقیات کا مطالعہ ومشاہدہ،اسلامی ممالک کے طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم کا مطالعہ،الفاروق جس کی تصنیف کے  لئے ھندوستان کے کتب خانے ناکافی تھے، مواد حاصل کر نا وغیرہ۔ چنانچہ شبلی نے اس سفر میں ان تمام امور اورمقاصد پر گہری نظر رکھی، قسطنطنیہ، بیروت، فلسطین اور خاص طور پر مصر کے مدارس اور کالجوں کا معائنہ کیا، جامع ازہر دیکھا۔ قدیم وجدید تعلیم کے تقریباً تمام اداروں کیمعائنہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہونچے کہ وہاں بھی طریقۂ تعلیم اور صحیح نہج پر تعلیم کا سلسلہ قائم نہیں ہے۔ انھوں نے جامع ازہر پر بھی اظہار افسو س کیا اور سرسید کو لکھا کہ یہاں بھی جدید وقدیم تعلیم علاحدہ علاحدہ ہے اور جب تک اس کے ڈانڈے نہ ملیں گے اصل ترقی مفقود رہے گی۔

 اس سفر میں انھوں نے خاص طور پر کتب خانوں کی سیر کی، کتابوں کا مطالعہ کیا، نوٹ لئے اور نقل نویسوں سے کتابیں نقل کرائیں، قسطنطنیہ میں کتب خانوں کی سیر پیدل چل کر کی۔ یہ تمام تفصیلات سفر نامہ اور سرسید کے نام خطوط میں موجود ہیں۔

  اس سفر میں انھیں نامور شخصیات سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ شبلی جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ اور ان کے افکار سے بھی واقف ہوئے، غازی عثمان پاشا جنھوں نے روسیوں کے چھکّے چُھڑا دئے تھے، ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ خلیفہ سلطان عبدالحمیدکی زیارت کی اور انھوں نے تمغہمجیدیہ سے سرفراز کیا، غرض وہ لوٹے تو ان کے ساتھ بہت کچھ تھا، مگر یہ انگریز ی حکومت کی پالیسی کے خلاف تھا، انگریز سلطان عبدالحمید کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ چنانچہ علامہ شبلی کو پین اسلامزم کا ہندوستان میں نمائندہ خیال کیا گیا اور سخت ناراضگی ظاہر کی گئی، سرسید نے معاملہ سلجھایا اور حکومت وقت سے کہا کہ کالج میں ایک ایسا شخص ہے جسے ترکی حکومت تو تمغۂ مجیدیہ عطا کرتی ہے اور ہماری حکومت محض ناراضی، چنانچہ سرسید کی کوششوں سے انھیں شمس العلماء کا خطاب ملا مگر ساتھ ہی تمغۂ مجیدیہ کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی، بلکہ ان پر خفیہ پولس بھی لگادی گئی۔

 شبلی کو علی گڈھ کی آب وہوا کبھی راس نہیں آئی او ر ان کی صحت خرا ب رہی، اس لئے انھوں نے سرسید سے خواہش کی کہ انھیں چھ ماہ کی رُخصت دی جائے، تاکہ وہ چھ ماہ کالج میں رہ کر تعلیم وتدریس کا کام کریں اور چھ ماہ کہیں اور قیام کرکے تصنیف وتالیف کا کام کریں، گو سید محمود نے اس کی مخالفت کی مگر سرسید نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی۔ مگر ابھی اس پر عمل بھی نہیں ہوپایا تھا کہ سرسیدنے۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو سفر آخرت اختیار کیا، شبلی کو اس کا بڑا صدمہ پہونچا اور انھوں نے علی گڈھ کی ملازمت سے اسی سال استعفا دیدیا۔

  شبلی علی گڈھ سے (۱۸۸۳-۱۹۹۸ء)سولہ سال وابستہ رہے، درس وتدریس کا فریضہ اس طرح انجام دیاکہ طلبہ میں عربی وفارسی کا صحیح مذاق پیدا کردیا، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی ظفر علی خاں، بابائے اردو مولوی عبدالحق، خوشی محمد ناظر، سجاد حید ر یلدرم، مولوی مسعود علی محوی اور بہت سے ایسے نام ہیں جن کا مذاق شعر وادب اور علم وادب سے گہرا لگاؤ، اور تحقیق وتدقیق کا چسکہ انھیں کا پیدا کردہ ہے، مولانا جوہر تو آخر تک کہتے رہے کہ میرا ذوق قرآن استادشبلی کی دین ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ علی گڈھ کالج میں تعلیم کے آغاز سے پہلے وہ درس قرآن دیتے جس میں تما م طلبہ شریک ہوتے اوریہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ پہلے سیرت کے جلسے اور پھر درس قرآن کے ذریعہ شبلی نے علی گڈھ میں مذہبی فضا قائم کی، اس دور کے متعدد طلبہ نے اس سے اپنے شغف کا ذکر کیا ہے۔

 شبلی علی گڈھ میں سرسید کے ساتھ رہے، ان کی صحبتوں میں شریک غالب رہے، ان سے بہت کچھ سیکھا مگر ان کے بعض نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کرتے تھے، خاص طور پر بعض مذہبی اور سیاسی معاملات میں ان کا نقطۂ نظر مختلف تھا، اس سے سرسید بھی واقف تھے۔ مگر انھوں نے کبھی اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا اور وہ جس بلند ظرف کے شخص تھے وہ کربھی نہیں سکتے تھے مگر بعد میں علی گڈھ کے بعض نام نہاد اور شبلی کے سوانح نگار نے غیر ضروری طورپراس اختلاف رائے کو ہوا دی اور نقطۂ نظر کے اختلاف کو ذاتی اختلاف ثابت کرکے دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی، غور وفکر کرنے والے ذہنوں میں اختلاف ہوتا ہے، اور ہونا چاہئے، زمانہ کی رفتار اور نئی ضرورتوں  کے تقاضوں سے کون انکار کرسکتا ہے۔ سرسیدنے ۱۸۵۷ء کے سانحات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے شبلی اس کے بعدکی نسل سے تھے، انہوں نے اپنے دور کے لحاظ سے سیاسی معاملات میں ایک نیا نظریہ اختیار کیا، ڈیڑھ سو برس بعد آج ہم جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی معاملہ میں شبلی کا نظریہ کسی قدر درست تھا، مگر سرسید کا قوم سے مخلصانہ معاملہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔

 شبلی علی گڈھ سے ملازمت سے علاحدہ ہوئے، علی گڈھ سے کبھی علاحدہ نہ ہوئے، ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کالج میں قیام کے خواہاں رہے۔ ۱۹۰۴ء میں ان کے دوست محسن الملک نے انھیں کالج سے دوبارہ وابستہ ہونے کے لئے راضی بھی کرلیا تھا۔

 وہ سرسید کے زمانہ میں اور بعد میں بھی ایجو کیشنل کانفرنس میں شریک ہوتے رہے، اس میں تقریر یں کرتے اور قراردادیں پیش کرتے، اختلاف واتفاق کرتے، اور پورے طور رپر مباحثہ میں دلجمعی سے شریک رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمت سے علاحدگی کے پانچ سال بعد انھیں ایجوکیشنل کانفرنس نے اپنے ایک شعبہ انجمن ترقی اردو کاسکریٹری نامزد کیا، جس پر وہ دو برس تک فائز رہے۔ چنانچہ ترقی اردو کے منصوبے بنائے، اہل علم اور ادباء وشعراء سے خط وکتا بت کی، اس کے حساب کتاب کا نظم کیا، ترجمہ کے لئے متعدد کتابوں کا انتخاب کیا، ادباء کو انعامات دینے کا سلسلہ قائم کیا اور انجمن کی ماہ بہ ماہ رپورٹ لکھ کر نواب محسن الملک کو پیش کرتے رہے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے شبلی ہی کی بچھائی ہوئی بساط پر انجمن میں نئے برگ وبار پیدا کئے اورسچ یہ ہے کہ انھوں نے شدید اختلاف کے باوجود اپنے استاذ ہی کی خواہشوں کی تکمیل کی۔

 ان کے آخری دور میں آغا خان کی سرکردگی میں یونیورسٹی فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا اس کے ایک رکن شبلی بھی تھے۔ لکھنؤ میں اس کے جلسوں میں شریک رہے، مالی تعاون میں بھی حصّہ لیا اور یونیورسٹی کے لئے جو وفد گورنر سے ملنے شملہ گیا تھا اس میں شبلی بھی شامل تھے، گویا علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنانے میں شبلی کا بھی حصہ ہے۔

علامہ شبلی اخیر تک کالج آتے اور طلبہ سے خطاب کرتے رہے،اسی کالج میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ کالج جس طرح طلبہ کی تربیت کرتا ہے، اسی طرح اساتذہ کی بھی تربیت کرتا ہے، طلبہ کو اگر بی اے -ایم اے کرتا ہے تو اساتذہ کو شمس العلماء بناتا ہے،یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ شبلی کو سر سید نے شمس العلماکا خطاب جس وقت دلوایا اس وقت تک ڈپٹی نذیر احمد اور حالی کو بھی شمس العلماء کا خطاب نہیں ملا تھا۔ بہرحال شبلی نے اخیر تک کالج سے تعلق رکھا۔ آخری بار انھوں نے اسٹریچی ہال میں ۱۹۱۳ء میں اپنے انتقال سے چند ماہ پہلے خطا ب کیا، جس کی روداد انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوئی ہے اوروہ خطبات شبلی میں شامل ہے۔

 شبلی علی گڈھ میں نہ صرف سرسید کی صحبتوں میں شامل رہے بلکہ ان کے ساتھ سفر بھی کیا سرسید کے نینی تال سفر میں بھی ساتھ رہے، اسی طرح وہ حیدرآباد کے سفر میں بھی ان کے ساتھ گئے،وہاں کے جلسوں میں تقریریں کیں، ترکیب بند پیش کئے، ان کی انہی علمی وتصنیفی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر نظام حیدرآباد کی طرف سے انھیں وظیفہ ملا اور ان کی آئندہ تصنیفات کوسلسلہ آصفیہ میں داخل کرنے کا حکم ہوا اور بعد کی چندتصنیفات اسی کے تحت شائع ہوئیں۔

استعفیٰ کے بعدشبلی علی گڈھ سے اعظم گڈھ آئے، الفاروق پایہ تکمیل تک پہونچی اور ۱۸۹۹ء میں مطبع نامی کان پور سے شائع ہوئی، اسی زمانہ میں ان کے والد شیخ حبیب اﷲ بیمار ہوئے اور ۱۲؍اگست ۱۹۰۰ء کو وفات پائی،شیخ صاحب کی آمدنی تو بہت تھی، وکالت کے علاوہ نیل اور شکر کے گودام اور زمینداری سے بہت کچھ آتا تھا مگر وہ بڑے دریا دل اور شاہ خر چ تھے، رفاہ عام کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے، دوسرے بیٹے مہدی حسن کی لند ن میں بیرسٹری کی تعلیم میں بھی ایک بڑی رقم خرچ ہوئی اور پھر ان کی واپسی پر شیخ صاحب نے اعظم گڈھ میں ایسی دعوت کی جوہفتہ بھر چلتی رہی،اس لئے جب انھوں وفات پائی تو ایک بڑا قرض چھوڑا جس کے ادا کرنے کی ذمہ داری علامہ شبلی کے ذمہ آئی، چنانچہ انھوں نے ندوہ کے بجائے حیدرآبا د کا رُخ کیا اور ۱۹۰۱ء میں ناظم سررشتہ علوم وفنون حیدرآباد کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ حیدرآباد میں وہ چار سال اور کچھ ماہ رہے، اس دورا ن ملازمت کے فرائض کے علاوہ انجمن ترقی اردو کا بارگراں اُٹھائے رہے، اس کے علاوہ انھوں نے چار اہم کتابیں سپرد قلم کیں۔ الکلام، علم الکلام، سوانح مولانا روم اور الغزالی اسی قیام حیدرآباد کی یادگار یں ہیں، اپنے موضوع پر یہ اس قدر اہم کتابیں ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ ان کے لکھنے والے نے کتنی محنت اور مشقت کا سامنا کیا ہوگا، خاص طور پر سوانح مولانا روم میں تحقیق منسوبات میں انھوں نے جو زور تحقیق صرف کیا ہے وہ انہیں کا حصّہ ہے۔

 حیدرآباد کے اندرونی سیاسی حالات سے وہ دل برداشتہ تھے اور اب والد کاقرض بھی ادا ہوچکا تھا، چنانچہ انھوں نے استعفیٰ دیا اور وظیفہ جاری کرنے کی درخواست دی، دونوں منظور ہوئے او راب انھوں نے بقیہ زندگی ندوہ کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور لکھنؤ آگئے اور بقیہ زندگی وہیں گذاردی۔

 تحریک ندوہ کے وہ ابتدائی فعال لوگوں میں تھے، وہ اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے، قراردادیں پیش کرتے، تعلیم، طرز تعلیم اورنصاب تعلیم پر بحث کرتے،سچ تویہ کہ ہمارے قدیم علوم پر ان کی جتنی گہری نظرتھی، شاید ہی تحریک ندوہ میں کسی اور کی رہی ہو، یہی وجہ ہے کہ ندوہ کادستور انھوں نے بنایا اور اس کے اغراض ومقاصد طے کئے۔ دارالعلوم کا نصاب تعلیم بھی انھیں نے بنایا، اسی سے متاثر ہوکر انھیں ۱۹۰۴ء میں معتمد تعلیم مقرر کیاگیا، چنانچہ وہ ندوہ آئے تو اپنی تمام صلاحیتیں اس پر لگادیں، تھے تو وہ معتمد تعلیم مگر ندوہ کے لئے خط وکتابت کرنا، تعاون کے لئے سفر کرنا، اہل ثروت او ر والیان ریاست سے رابطہ کرنا، سب انھوں نے اپنے سرلے لیا اور بڑی بڑی رقمیں حاصل کیں، ان سے پہلے ندوہ کا خزانہ خالی تھا انھوں نے اپنی جدوجہد سے اس کی مالیات کا مسئلہ حل کردیا۔

 وہ دارالعلوم میں جاتے تو مختلف درجات میں چلے جاتے خو د پڑھاتے اور اساتذہ کو بھی طریقہ تدریس کے ہنر سمجھاتے، پُرانے طرز تعلیم کے بجائے وہ جدید تعلیم یعنی لکچر کا طریقہ اختیار کرنے پر زور دیتے، ندوہ میں انھوں نیقرآن بھی پڑھایا اور بخاری بھی، یہی نہیں انھوں نے ملک کے ممتاز علماء کو بلاکر ندوہ میں تعلیم کا معیار بلند کیا، مولانا حمیدالدین فراہی کو اکثر بلاتے جو قرآن پر درس دیتے اور ایک وقت ایسابھی آیاجب سالانہ جلسہ ندوہ میں مصر سے شیخ رشیدرضا ایڈیٹر المنار کوبلا کرصدارت کرائی، اسی اجلاس میں مولانا سید سلیمان ندوی نے عربی میں ایسی برجستہ تقریر کی تھی کہ خوش ہوکر بھرے جلسے میں اپنا عمامہ ان کے سرپر رکھ دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انھوں نے ندوہ کا رشتہ عالم عربی سے قائم کیا۔ اور ندوہ کی آواز عالم عرب میں گونجی۔

 ندوہ کے نصاب تعلیم میں انگریزی کی شمولیت پر بڑے لیت ولعل سے کام لیا گیا جس پر انھیں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر بالآخر انہیں کامیابی ملی، بعد میں تو انھوں نے ہندی اور سنسکرت تک کا شعبہ قائم کیا۔

   ۱۹۰۴ء سے ۱۹۱۳ء تک وہ ندوہ سے وابستہ رہے، مولویوں کے ایک گروہ نے اندرون ندوہ انھیں مسلسل اُلجھا کر رکھا، کبھی ندوہ کے معاملات میں تنگ کرتے، کبھی ان کی کسی کتاب کی عبار ت نقل کرکے کفر کے فتوے لگاتے، انھیں دارالعلوم میں علی گڈھ کے تعلق کی بنیاد پر ساقط الاعتبار قرار دیتے، ان کے ہرکام میں رکاوٹ ڈالتے، مگر خدا جانے وہ شخص کس چیز کا بناتھا کہباوجودان تمام الجھنوں کے اپنے کاموں میں مسلسل لگا رہا۔ تحریک وقف علی الاولاد اسی زمانہ میں شروع کی، ندوہ کے اجلاس میں اس کو منظور کرایا، ملک کے تمام بیرسٹر اور قانون دانوں سے رابطہ کیا، ان میں ایک نام علامہ اقبال کا بھی ہے۔ بالآخر وہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اس سلسلہ میں علماء سے فتاوے حاصل کئے، دستخطی مہم چلائی، نتیجہ یہ ہوا کہ محمدعلی جناح نے اسے پارلیامنٹ میں بل کی شکل میں پیش کیا، اور حکومت قانون بنانامنظور کیا۔

 تعطیل نماز جمعہ بھی ان کا اسی دور کا کارنامہ ہے، اسی زمانہ میں شدھی تحریک نے زور پکڑا اور ارتداد کی لہر اُٹھی تو ان کی جان پہ بن آئی، خود انھوں نے شاہ جہاں پور وغیرہ کا دورہ کیا، راجپوتانہ میں معتمد اشخاص بھیجے اور اس کے سدباب کے لئے اصول وضوابط بنائے اور ایک زمانہ تک فکر مند رہے۔ ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ماہنامہ الندوہ کی ادارت کرتے رہے، اور اس کو اپنی کوششوں اور تحریروں سے ایسا رسالہ بنادیا، جس نے اندھیرے میں روشنی کا کام لیا اور بے شمارلوگ اس سے مستفیدہوئے۔ الندوہ سے انھوں نے ایک اور بہت بڑا کام لیا، تصنیف وتالیف کے لئے انھوں نے اسی رسالہ کے ذریعہ طلبائے ندوہ کی تربیت کی، مولانا سید سلیمان ندوی مولانا عبدالسلام ندوی،عبداﷲ عمادی وغیرہ نے یہیں قلم پکڑنا سیکھا اور آسمان علم وادب پر اہل قلم کی حیثیت سے چمکے، مولانا ابواکلام آزاد بھی چندماہ الندوہ کے نائب ایڈیٹر رہے، اور شبلی کی صحبت اور ان کے چشمہ شیر میں سے اپنی تشنگی بجھائی۔

 ندوہ کی ان مصروفیات کے ساتھ ان کا سلسلہ تصنیف تالیف بھی مسلسل جاری رہا، پہلے موازنہ انیس ودبیر پھر شعر العجم کی چار جلدیں یہیں لکھیں، موازنہ اور شعر العجم کی اہمیت سے اہل علم وادب واقف ہیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ندوہ کی مذکورہ بالا مصروفیات میں ایسی عظیم الشان کتابیں سپرد قلم کی جاسکتی ہیں۔ الندوہ کے سیکڑوں مضامین، جلسہ ندوہ کی سالانہ رودادیں اور سیکڑوں خطوط لکھنے کے ساتھ ساتھ ایسی معرکۃ الآراء کتابوں کی تصنیف ایک عبقری ہی کے بس کی باتیں تھیں۔

 شعر العجم ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کا پرواز تخیل درباررسالت میں پہونچ گیا اور انھوں نے اسے ہر کام پر فوقیت دی اور اس کے لئے بڑی جدوجہد کی، جس کی تفصیل حیات شبلی میں دیکھی جاسکتی ہے، بالآخر انھوں نے اس عزم کے ساتھ ’’اگر مرنہ گیا اور ایک آنکھ بھی سلامت رہی تو دنیا کو ایک ایسی کتاب دے جاؤں گا جس کی توقع کئی سوبرس تک نہیں ہوسکتی ‘‘۔ کام کا آغاز کیا اور واقعی ایسی ہی عظیم الشان سیرۃ النبیؐ ان کے قلم سے نکلی اور اسی  لازوال کتاب پر ان کے قلم کی سیاہی خشک ہوئی، ان کی صحت پہلے سے خراب تھی، اسی زمانہ میں ان کے بھائی محمد ایڈوکیٹ نے یکایک جوانی میں انتقال کیا جس سے وہ بہت دل برداشتہ ہوئے اور خون کے آنسو روئے، کلیات شبلی میں یہ مرثیہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

 ۱۹۱۳ء میں وہ ندوہ کی روز، روز کی الجھنوں سے تنگ آکر مستعفی ہوئے اور اعظم گڈھ آکر دارالمصنفین کے قیام کا سامان کرنے لگے، شہر کے قلب میں واقع اپنا باغ اور بنگلہ وقف کیا، مہمان خانہ کی تعمیرکرائی، طلبہ کوبلایا، اس کے مالی انتظامات کی فکر میں تھے کہ ان کا وقت آخر آپہونچا اور سیرت سیرت کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہونچ گئے۔ ۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ء کو ان کا انتقال ہوا، پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی، بیگم سلطان جہاں فرماں روائے بھوپال نے کہا کہ

’’فقیر بے نوا چل بسا اور اب سلطان کی باری ہے‘‘۔ 

دارالمصنفین کے احاطہ میں ان کی تدفین عمل میں آئی، ان کے مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں ؎

عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم

خدا کا شکر ہے یوں خاتم بالخیر ہونا تھا

   بلا شبہ علامہ شبلی نہ صرف ھندوستان بلکہ عالم اسلام کے مایہ ناز عالم ا ورمصنف ومفکر تھے، ان کی دینی خدمات جہاں اسلامی تاریخ کے روشن باب کا حصّہ ہیں، وہیں ان کی ادبی خدمات ادبیات عالم کا جزوجمیل، اﷲ ان کی قبر کو نور سے بھردے۔

تبصرے بند ہیں۔