علامہ یوسف القرضاوی: ایک عظیم مجدد، مجتہداور مفکر!

ترتیب: عبدالعزیز

علامہ یوسف القرضاوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے،آپ کا وطنی تعلق مصر سے ہے لیکن گزشتہ چار دہائی سے آپ قطر میں قیام پذیر ہیں ،ایک سوسے زائد معرکۃ الآراء کتابوں کے مصنف ہیں ،اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں ، دروس وخطابات کی ویڈیو اور سی ڈیز کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے،ٹوئٹر اور فیس بک پر آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں ، الجزیزہ چینل پر دنیا بھر میں چھ کروڑسے زائد لوگ آپ کو سنتے ہیں ،آپ کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ ،امریکہ اور بر صغیر تک پھیلا ہوا ہے ، آپ کو دنیا بھر میں مجتہد،مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جاناجاتاہے،مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر ،فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل ہے، گزشتہ 5 جون کو سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصرکی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کئے جانے کے بعد مذکورہ ممالک نے دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 59 نمایاں شخصیات اور بارہ خیراتی ادارے کا نام شامل ہے ،جنہیں دہشت گردقراردیاگیاہے ان میں علامہ یوسف القرضاوی کا نام سرفہرست ہے۔

علامہ یوسف القرضاوی عالم اسلام کے ممتاز ترین عالم دین،نامور فقیہ اور عظیم مفکر ومجدد ہیں ، 9 ستمبر 1926ء کو مصر میں آپ کی پیدائش ہوئی،دوسال کی عمر ہوئی تو والد محترم کا انتقا ل ہوگیا،اس کے بعد آپ نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی۔ خاندان والے انہیں دکاندار یا بڑھئی بننے کو کہتے تھے۔تاہم وہ اس دوران میں قرآن مجید حفظ کرتے رہے۔ نو برس کی عمر میں حفظ مکمل کرلیا،اس کے بعدانہوں نے ’’جامعہ ازہر‘‘قاہرہ، مصر میں تعلیم حاصل کی اور علوم اسلامی میں خصوصی مہارت حاصل ہوگئی۔

 علامہ قرضاوی کے پا س تین بیٹے ہیں اور چار بیٹیاں ہیں ،تین اولاد نے برطانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا ہے جبکہ ان کی ایک بیٹی الہام القرضاوی عالمی سطح پر نیوکلیئر سائنس داں کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں ،شیخ القرضاوی کے والدعبد الرحمن یوسف القرضاوی شاعر اور سیاسی رہنما تھے۔

  یوسف القرضاوی اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کے عقیدت مند تھے، ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا، اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر انہیں پہلی بار 1949 میں جیل بھی جانا پڑا، ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو مشتعل کر دیا؛ چنانچہ ان کے قید و بند کا سلسلہ جاری رہااور تقریباً تین مرتبہ جمال عبد الناصر کی حکومت میں انہیں جیل جانا پڑا اس دوران آپ مصرکی وزارت برائے مذہبی امور میں کام کرتے رہے،1961ء میں آپ نے مصر کو الوداع کہہ کر قطر کارخ کیا جہاں مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح وہ الجزائر کی یونیورسٹیوں میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، 2011ء میں جب مصرمیں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آپ نے 1981ء کے بعد پہلی مرتبہ اپنے دیارمصر میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ عوامی سطح پر مصر میں آپ نے ایک مجمع عام سے خطاب کیا جس میں تقریباً پچیس لاکھ عوام تھے ،جمعہ کی نماز بھی آپ نے پڑھائی، حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کا خیر مقدم کیا۔

  ایک طویل عرصہ تک آپ اخوان المسلمون میں سرگرم رہے۔ اخوانی قیادت نے مختلف مناصب کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انہیں قبول نہیں کیا، یوسف القرضاوی یوپین کونسل برائے فتاویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ ہیں ۔انٹر نیشنل علماء یونین کونسل کے چیئرمین ہیں، انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاویٰ جاری کرتے ہیں ، رابطہ عالمی اسلامی اور مجمع القہ الاسلامی کے بھی آپ خصوصی رکن اور ذمہ دار تھے،جامعہ ازہر مصر کی بھی رکنیت حاصل تھی جہاں سے اب آپ کو معطل کردیاگیاہے، مسلمانوں کی اکثرت آپ کو معتدل قدامت پسنداور جدید حالات سے ہم آہنگ عالم قرار دیتی ہے،آپ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں ، بعض لوگ انہیں سخت گیر اسلام پسند قرار دیتے ہیں ، انٹر نیشنل چینل الجزیرہ پر آپ کا پروگرام الشریعۃ والحیاۃ بہت مقبول ہے اور تقریباً 60 ملین سے زائد لوگ اسے دیکھتے ہیں ۔ یہودی ونصاریٰ کو آپ مستقل دشمن تصور کرتے ہیں ، آپ کانظریہ ہے ان سے دوستی مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہے، آپ کا شروع سے یہ نظریہ رہاہے کہ مسلمان دوسروں کو مداخلت کا موقع دینے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کریں ۔

  یوسف القرضاوی فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر حملوں کے زبردست حامی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف خودکش دھماکے جائز ہیں کیونکہ وہ قابض اور غاصب ہیں وہ انہیں اجتہادی حملے قرار دیتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ خود کش حملے صرف اس وقت جائز ہوں گے جب اپنے دفاع کا کوئی دوسرا راستہ نہ بچے، ان کے بارے میں یک تاثر یہ ہے کہ وہ عام اسرائیلی شہریوں کے خلاف حملوں کے بھی حق میں ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی شہری جو فوج خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں ، عام شہری کی تعریف میں نہیں آئیں گے ، شیخ یوسف کے اس موقف کی بنا پر ایک طبقہ انہیں دہشت گردی کا حامل قرار دیتا ہے،تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی عرب نے بھی انہیں دہشت گرداسی وجہ سے قراردیاہے کہ وہ اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے حملہ کو درست ٹھہراتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں ، تاہم شیخ القرضاوی کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حملے صرف اسرائیلی اہداف کے خلاف جائز ہیں ۔ اس ک علاوہ کہیں بھی ان کی اجازت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 20 مارچ 2005ء کو دوحہ ، قطر میں کار بم دھماکا ہوا تو انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ اس واقعے میں ایک برطانوی شہری جان ایڈمز مارا گیا تھا۔ شیخ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں ۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہوتے ہیں ۔

 وہ مسلمانوں کیلئے حزب اللہ جیسے دہشت گرد گروہ کی حمایت جائز نہیں کیونکہ یہ شیعہ ہیں ۔ تاہم شیخ یوسف القرضاوی نے کہا کہ مسلمانوں پر اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مدد لازم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی اسلام کے بنیادی اصولوں پر متفق ہیں ۔ اختلاف صرف فروعی مسائل پر ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے عراق کے سنیوں اور شیعوں سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ خانہ جنگی ختم کریں ، شام پر روس کے حملہ کے بھی آپ شدید مخالف ہیں اور روس کے اس اقدام کو آپ دہشت گردانہ حملہ مانتے ہیں ۔

 14 اپریل 2004ء کو اسلام آن لائن پر ایک فتویٰ جاری کیا کہ تمام مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں کیونکہ وہ ان مصنوعات کے بدلے حاصل ہونے والی رقم سے معصوم فلسطینی بچوں کے جسم چھلنی کرنے کیلئے گولیاں اور دیگر اسلحہ خریدتے ہیں ۔ اسرائیلیوں کی مصنوعات خریدنا دشمن کی وحشت و جارحیت میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کو کمزور کریں ۔ اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے وہ کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو رقم ، اسلحہ سمیت سب کچھ فراہم کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کر دے۔

 شیخ یوسف القرضاوی کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گرین وِچ ٹائم کے بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ وہ تصویر کشی کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اصطلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے پیغمبر اسلام کے حوالے سے توہین آمیز کارٹون بنائے تو شیخ قرضاوی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں تشدد کرنا جائز نہیں ۔ نائن الیون کے واقعہ کی خبر سنتے ہیں شیخ قرضاوی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زخمیوں کیلئے خون کے عطیات دیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام صبر و تحمل کا دین ہے۔ وہ انسانی جان کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے گناہ عظیم ہے۔

 شیخ قرضاوی کا کہنا ہے کہ عراق میں جانے والے سارے امریکی ’’حملہ آور‘‘ سمجھیں جائیں گے، ان کے درمیان فوجی یا سیویلین کی کوئی تفریق نہیں ، اس لئے ان کے خلاف جہاد فرض ہے تاکہ عراق سے انخلا پر مجبور ہو جائیں ، ان کے اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا،عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور مجبور ہوکر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں جہاد یعنی ’’جدوجہد‘‘ کا لفظ استعمال کررہا ہوں ’’قتل ‘‘ کا نہیں ۔

  امریکہ میں 1999ء میں سے آپ کے داخلہ پر پابندی عائد ہے ،2008ء سے برطانیہ نے بھی آپ کے جانے پر پابندی لگارکھی ہے قبل ازیں 2004ء میں آپ نے برطانیہ کا دورہ کیاتھا ،اس کے علاوہ بھی مغرب کے کچھ ممالک نے آپ پر بابندی لگارکھی ہے۔

اسلام کی نشرواشاعت اور دینی علوم کی خدمت کی بنیاد پر آپ کو دسیوں اعلیٰ ترین ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں سعودی عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ ،دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ ،سلطان حسن البلکیہ ایوارڈ سرفہرست ہیں ،یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہیں کہ ایک طویل عرصے تک آپ سعودی عر ب اور آل سعودی کے یہاں بہت اہمیت کے حامل تھے ،ان دنوں ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں سابق سعودی فرماں رواشاہ عبد اللہ مرحوم انتہائی عقیدت کے ساتھ علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کررہے ہیں ،بتایا جاتاہے کہ سعودی حکومت نے علامہ یوسف القرضاوی کو کئی اہم عہدوں کی پیشکش بھی کی تھی لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکا رکردیاتھا۔

   اخیر میں علامہ یوسف القرضاوی کا وہ بیان بھی ملاحظہ فرمالیں جو انہوں نے قطر پر پابندی اور دہشت گرد نامزد کئے جانے کے بعد دیا ہے ۔

’’بحمد اللہ میں قطر میں ہوں اور پہلے سی بلند ہمتی عزم و استقلال اور سازشوں سے ماورا جی رہا ہوں کوئی شخص مجھ پر منافقت کا داغ نہیں لگا سکتا! اگر میں منافقت کرتا، سلاطین کا دم چھلا بنتا اور کاسہ لیسی میرا وطیرہ ہوتا تو عیش و عشرت سے طبعی موت تک جیتا اور تھوڑی بہت کوشش کے بعد وہ بڑے بڑے مناصب پاتا جن کی مجھے بارہا پیش کش کی جا چکی ہے لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے دین اور اصل بنیاد کی پیروی کرنی ہے اور اپنے ٹھوس موقف پر جینا ہے۔ اگر ممکن ہے تو میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال لو میری آواز روکنے کے سارے حربے کر لو، میری گردن پر چھری رکھ لو، میرے ایمان و استقلال میں ذرا بھی فرق نہ دیکھو گے۔ سچائی کی روشنی میرے دل میں ہے، میرا دل میرے رب کے قبضہ میں ہے، اور میرا رب ہی میرا مددگار اور استقلال بخشنے والا ہے، میں اپنے دین، عقیدے اور سچائی کے راستے پر ہی چلوں گا اور اسی پر اپنی زندگی ہنستے مسکراتے وار دوں گا۔یہی میں ظالموں سے کہتا ہوں اور ابھی تک میں اپنے اسی موقف پر قائم ہوں ، میں اپنے دین کو مطعون نہیں کر سکتا ‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔