علماء، ملت کو مسلکی اختلافات میں نہ الجهائیں

مسعود جاوید

جراحة السنان لها التئام –  ولا يلتئم ما جرح اللسان۔

( تلوارسے ملے زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں مگر زبان کے دیئے ہوئے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ )

ہہ ایک عالمی حقیقت universal truth ہے اور اس مفہوم کے اشعار اور مثل دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔  پچھلے کئی دنوں بلکہ کئی سالوں سے بعض لوگ خاص طور پر مدارس کے نئے فارغین اور بعض علماء کرام سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فعال اور متحرک active ہیں اور میری اپنی سمجھ کے مطابق وہ غیر ضروری اور غیر مفید مسلکی بحث میں خود بهی الجهتے ہیں اور ملت کے افراد کو بهی الجها کر رکھتے ہیں۔ اصل تو عقیدہ ہے یعنی اس پر ایمان راسخ کہ  1- اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ 2- محمد صلى الله عليه وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ 3- الله کے فرشتے ہیں جو مختلف امور پر مقرر کئے گئے ہیں 4- اللہ نے روز ازل سے محمد ص تک تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار انبیاء علیہم السلام کو اس دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف تہذیبوں civilizations میں جب جب ضرورت پڑی بهیجا اور سب سے آخر میں محمد صلى الله عليه وسلم کو خاتم الأنبياء والمرسلين بناکر بهیجا یعنی اس کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔ ہمارا ایمان ان تمام انبیاء علیہم السلام پر ہے خواہ ان کا نام ہم نے سنا ہے یا نہیں ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں یا نہیں۔ 5- بعض انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کتابیں صحیفے بهی نازل کئے ، ہمارا ایمان ان سب کتابوں اور صحیفوں پر ہے۔ 6- ہمارا ایمان ہے کہ ایک آخری دن ہو گا قیامت آئے گی حساب کتاب ہوگا اور اس کے مطابق جزاء یا سزا ملے گی جنت یا جہنم کے حقدار ہوں گے 7- ہمارا ایمان ہے تقدیر پر؛ اچهی ہو یا بری اپنا اپنا نصیب ہے۔ تو جب تک ہم اس عقیدے کا زبان سے اقرار اور دل سے تسلیم کرتے رہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ اسی کا نام ایمان ہے۔ ہر نبی کو ان کی امت کے لئے  شریعت بهی دی گئی شریعت انسان کی سماجی زندگی کو منظم کرنے کے قوانین اور اصول و ضوابط کو کہتے ہیں۔ شریعت ہر دور اور ہر نبی کی امت کے حالات کے مد نظر اللہ نے بنایا۔ اسی لئے ہر نبی کی شریعت یکساں نہیں ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے علماء اس عقیدہ کی تبلیغ کرنے کی بجائے اس عقیدہ کے ارد گرد اپنی اپنی پسند کے دائرے کهینچتے گئے چنانچہ اسلام کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کیا پهر دونوں فرقہ کے لوگ مزید دائرے بنا کر اسلام کی وسعت کو اور تنگ کرتے چلے گئے مثال کے طور سنی طبقہ : اسلام ایک دائرہ اس دائرہ کے اندر دوسرا دائرہ : حنفی شافعی مالکی حنبلی یا غیر مقلد اہل حدیث۔ تیسرا دائرہ حنفی کے اندر : دیوبندی یا بریلوی چوتها دائرہ دیوبندی کے اندر ؛ جماعت اسلامی یا تبلیغی اس کے بعد مشرب چشتی قادری نقشبندی وغیرہ۔
آج کل اہل حدیث جو اب اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں ان کے بعض مولویوں نے دیوبندی مولویوں کے ساتھ امام ابو حنیفہ رح کے خلاف محاذ کهول رکها ہے۔ اور ان کے ہجو اور ان کی شان میں گستاخی کرکے اس پر مصر ہیں کہ وہ بحث جاری رکھیں گے۔ میں نے متعدد بار ان سے درخواست کی کہ اسے بند کریں اس لئے کہ ان فقہی موشگافیوں میں عوام کو الجهانے سے حاصل کیا ہوگا کیا حنفی طریقہ پر نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی ؟ چودہ سو سال سے چلے آرہے مسلکی اختلافات کیا آپ ختم کر سکتے ہیں ؟

آپ اپنی لکهنے پڑهنے کی صلاحیتوں اور توانائی کو کسی مفید کام میں لگائیں؟ مناظرہ کا زمانہ تو نہیں رہا لیکن موجود ٹی وی ڈیبیٹ اسی کی ایڈوانسڈ شکل ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلا کر اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس موضوع پر بات کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں بین المذاہب کورس کریں وسیع مطالعہ سے اپنے آپ کو اس لائق بنائیں کہ مدلل اور مسکت جواب سے دفاع کر سکیں۔ پچھلے سال جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایم اے اسلامک اسٹڈیز میں تین غیر مسلم تهے اس سال تقریباً چھ  غیر مسلم ہیں لسٹ ابهی فائنل نہیں ہے۔ آپ مولوی حضرات سارے فارغین تو نہیں ان میں سے ایک معتد بہ ایسے ہیں جن کی پکڑ  اسلامی عقائد اور شریعت اسلامی فقہ وغیرہ پر اچهی ہوتی ہے وہ بین المذاہب موضوعات پڑهیں گے تو جلد مہارت حاصل کر سکتے ہیں بہ نسبت ان گریجویٹس کے جو عموما اسلامی معلومات سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔

آمدم بر سر مطلب کہ آپ لوگوں کے اندر اس قدر شدت اور تعصب ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف برہنہ گفتاری اور ذاتیات پر حملہ کرنے سے نہیں جھجکتے ہیں اور یہ زبانی حملے اس قدر تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ انسان اسے برسوں نہیں بهولتا جبکہ آپ اگر کسی کو جسمانی اذیت دیں تو زخم دوچار دنوں میں مندمل ہو جاتا ہے۔ تو کیوں نہیں آپ تهوری دیر کے لئے آپس میں دست بہ گریبان ہو جائیں اس کے بعد اس قسم کی لا یعنی بحث کا خاتمہ بالخیر کر دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔