علماء ومدارس اور ان پر برسنے والے تیر

علماء ومدارس کو نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے حوالے سے ہدف تنقید بنانا اور مدارس کے فارغین کو بے مصرف گرداننا حالیہ برسوں میں اہل علم کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔اس تعلق سے فقرے بازی، تحریر وتقریر ،بحث ومباحثہ اور گفتگو کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتاہے ۔ لیکن اہل علم کے اس پسندیدہ مشغلہ اور اس مشغلہ سے علماء ومدارس کے بالعموم تجاہل عارفانہ پر گفتگو سے فی الوقت صرف نظر کرتے ہوئے کیا دیکھنے اور غور کرنے کی بات یہ نہیں ہے کہ انگریزوں کے پونے دوسوسالہ دورِ حکمرانی اور ہمارے ملک کو آزاد ہونے کے بعد سے لے کر اب تک کا جو عرصہ گزرچکا ہے اس پوری مدت میں وہ کیا چیز تھی جس نے مسلمانان ہند کو مسلمان بنائے رکھا۔ وہ کیا چیز تھی جس نےنہ تو اپنے وطن عزیز میں اندلس سے اسپین بننے کی تاریخ کو دہرانے دیا اور نہ ہی اس ملک کے مسلمانوں کا بھارتی کرن ہونے دیا۔حالانکہ شاید ہی کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتاہے کہ مسلمانوں کے علاوہ اس ملک کی تمام اقوام و مذاہب خود کو بھارتی کرن سے محفوظ نہ رکھ سکے اور بڑی تعداد نے تو اپنی شناخت ہی کھودی ۔ اسی کا مطالبہ عرصۂدراز سے مسلمانوں سے بھی کیا جارہاہے اور اس وقت سنگھ پریوار کی طرف سے مسلمانان ہند پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش تیزتر ہوگئی ہے اسے روکنے کی مؤثر ترین کوشش کہاں سے ہورہی ہے کیا اس پر غور نہیں کیاجانا چاہئے۔ملک کے طول وعرض میں مسلمانِ ہند کی اصلاح و فلاح کے لئے پوری تندہی سے کمک بھیجنے کا کام کس کی طرف سے ہورہا ہے۔
کس وجہ سے صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بین الاقوامی طاقتیں مدارس کو ناکارہ گرادان رہی ہیں۔ ان کے نصاب اور نظام تعلیم پرخود بھی سوالات قائم کررہی ہیں اور خود مسلمانوں کے درمیان سے بھی آواز بلند کرا رہی ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ امت مسلمہ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئےمدارس کی جدید کاری کے نام پر خود ان مدارس کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لئےایڈی چوٹی کا زور بھی لگارہی ہیں۔کیا غور کرنے کی یہ بات نہیں ہےکہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ قومی اور بین الاقوامی طاقتیں جن کی اسلام دشمنی جگ ظاہر ہے وہ کیوں صرف فنڈ کی فراہمی کے نام پراور کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی قسمیں کھا کھاکر اس دولت کو مدارس پر خرچ کرنا چاہتی ہیں جس کے لئے وہ ہر طرف خون کی ندیاں بہا رہی ہیں ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ہر کام کا تو جائزہ لیا جاتا ہے ، اس کے مثبت اور تعمیری پہلووں کا اعتراف کیا جاتاہے، منفی پہلووں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور اصلاح طلب امور کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے لیکن مدارس کے معاملہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ کیا کبھی اس پہلوسے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی کہ تقریبا سوا دوسو برس سے بھی زائد عرصہ میں علماء و مدارس نے کیا خدمات انجام دیں۔ ان سے ملک کے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا۔برادران وطن نے ان سے کیا فائدہ اٹھایا حالانکہ مدارس میں برادران وطن کی آمد اور علماء کی صحبت گوکہ دورحاضر میں مخالف لہر کی وجہ سے کم ہوئی ہے لیکن ماضی نے اس کا خوشگوار مشاہدہ کیا ہے۔کیا کبھی اس پہلوسے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی کہ ہمارے ملک کو اس کے انتظام وانصرام اور سیاست وسماجیات میں مدارس اور علماء سے کیا فائدہ حاصل ہوا۔کیا کبھی یہ پتا لگانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں جرائم ، تخریبی سرگرمیوں اور غیرقانونی کاموں میں مدارس اور علماء کی شمولیت ، عصری تعلیمی اداروں کے وابستگان اور فارغین کی شمولیت اور دیگر مذاہب کے علمبرداروں کی شمولیت کا تناسب کیا ہے۔جبکہ ان تمام جگہ کی آمدنی کے درمیان خاصا فرق ہے۔
علماء سے مسلم عوام، ملک وقوم کی توقعات، علماء کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے، مدارس کے نصاب اور نظام میں اصلاحات کی گنجائش اور ضرورت کو ہزار بار تسلیم کرنے کے باوجود اس حقیقت سے انکار شائد کسی کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ علماء ومدارس پر گفتگو کےلئےاختیار کیا جانے والا انداز عموما یک رخی اور جذباتی ہوتا ہے ۔لیکن سوال پھر بھی یہی ہےکہ آخر کیا وجہ ہے اور ایسی کون سی آفت آپڑی ہے جس کی وجہ سے مدارس میں "تبدیلی” کی صدا چہار جانب سے بلند ہونے لگی بلکہ اب تو انداز چیخ وپکار اور سب وشتم کا ہوگیا ہے ۔ اپنے پرائے سب ایسے ہم آواز اور باہم شیر وشکر ہوگئے ہیں کہ ارباب مدارس تو کیا خود کو سیاست، سماجیات اور نفسیات کے ماہر تصور کرنے والوں کے لئے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگاکہ بلند ہونے والی آواز کسی ناصح کی ہے یا ناقد کی ، مدارس کو نشانہ بنانے والے تیر بہی خواہوں کی طرف سے آرہے ہیں یا ان اغیار کی طرف سے جنہوں نے عرصۂ درازسے مدارس پرکمان تان رکھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔