علمائے کرام اور مفتیانِ عظیم جواب دیں

حفیظ نعمانی

ماہِ مبارک کے آخری دنوں میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مساجد میں جگہ ملنا دشوار ہوجاتی۔ لیکن حالت یہ ہے کہ امام صاحب تراویح کی 20 رکعات میں چھوٹی چھوٹی 10 سورتوں کو دوبار پڑھ کر تراویح کی رسم ادا کررہے ہیں۔ ماہِ مبارک کے وہ دن اور رات جس میں ہر نیکی کا ثواب 70 گنا ہے ان کی طرف سے ایسی بے نیازی ہے جیسے ہر مسلمان کا گھر ثواب سے بھر گیا ہے اب اسے مزید ثواب کی ضرورت نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں قیامِ رمضان جن کو تراویح کہا جاتا ہے اس میں قرآن کریم کے ساتھ کیا کیا ہوا؟ اس کے بارے میں ہم نے آنسو کی طرح روشنائی بہائی اور جن کے دل میں درد ہوا وہ بھی آہ و بکا کرتے رہے۔ اس سلسلہ کی ایک آخری تحریر جو بہت ہی مدلل ہے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اس کے بعد یہ موضوع سال بھر بند رہے گا۔

فراّٹے کے ساتھ۔ تیز دوڑتی اور پھسلتی زبان۔ شتابدی سے بھی تیز۔ راجدھانی سے بھی آگے۔ ہوائی جہاز کی رفتار کا مقابلہ کرنے والی زبان۔ کیا پڑھ رہی ہے پتہ نہیں؟ مگر پڑھے جارہی ہے پڑھے جارہی ہے۔ بہت غور سے سننے کے بعد یا کبھی رفتار کم ہو تو لگتا ہے کہ ہاں حافظ صاحب آیات قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں۔

بہت حیرت ہوتی ہے جب لوگوں کو قرآن جلد سننے کے بعد فخریہ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ جو نہ تو قرآنی الفاظ کے معانی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی مفاہیم آیات سے۔

میرے ایک دوست ہیں جو بہت اچھے حافظ ہیں ۔ میں نے ان سے ایک دن پوچھا تم اچھے حافظ قرآن ہو تراویح کیوں نہیں پڑھاتے ہو؟ موصوف نے اس کے جواب میں جب راز سے پردہ اٹھایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ میرے دوست نے کہا کہ دیکھو آج کے زمانہ میں ہمارے ملک میں جو تراویح رائج ہیں اس میں ثواب کا تو سوال ہی نہیں ، اُلٹا قرآن کی لعنت سنانے والے کے بھی حصہ میں آتی ہے اور سننے والوں کے بھی تم عالم ہو جانتے ہوگے کہ اللہ کے نبیؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ۔

بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے۔ آج تم جتنے بھی تراویح میں قرآن پڑھنے والے حافظوں سے مل لو کسی کا مطمع نظریہ نہیں ہوتا کہ ہم قرآن پڑھ کرثواب حاصل کریں الاّ ماشاء اللہ اکثر تراویح میں ملنے والی رقم کی لالچ میں تراویح کے لئے محنت کرتے ہیں ۔ ہزار کوشش کے بعد بھی مجھے اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ ہمارے ہندوستان میں الفاظ کو توڑ مروڑکر برق رفتاری سے تراویح میں قرآن پڑھنے کی رسم کب اور کہاں سے شروع ہوئی؟ اور علمائے کرام اور مفتیانِ عظام نے اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں دی کہ اتنی تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں ؟ ہمارے مذہب مقدس میں اس نہج پر اس عظیم ترین کتاب کی تلاوت جائز بھی ہے کہ نہیں ہے؟

خود قرآن جس فصاحت و بلاغت کے بلند و بالا معیار کے ساتھ سب سے اونچے رُتبہ کے فصیح و بلیغ کی طرف سے تخلیقی کائنات کے ایلغ و اصفح ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کیا ان سے ایک بھی روایت ایسی ملتی ہے کہ آقائے کریم علیہ السلام و تسلیم نے آندھی طوفان کی طرح برق رفتاری سے قرآن پڑھا ہو یا اپنے کسی جانثار کو پڑھنے کی اجازت دی ہو؟ ہمیں تو کئی آیتیں ایسی ملتی ہیں جن میں آہستہ ٹھہر کر اور اسکے اسرار و رموز کی طرف توجہ دے کر پڑھنے کی تاکید ملتی ہے۔ آقائے کریمؐ نے بظاہر یاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا۔ خود سوچئے جس پر قرآن نازل ہوا جب اسے بھی مصلحتاً جلد جلد قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں ملی تو ایک عام شخص کو جسے مفہوم قرآن کا دور سے بھی واسطہ نہ ہو، کیونکر قرآن کی توہین کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
ورتل القرآن ترتیلا۔ کہ قواعد و تجاوید کی رعایت کرتے ہوئے آہستگی کے ساتھ رک رک کر تلاوت کی جائے سورۂ دخان کی آیت:
وقال الرسول یارب انّ قومی اتخذ و ہٰذالقرآن مہجورا
کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میری اُمت قرآن کے معانی میں غور کرنا چھوڑ دے گی۔ جس طرز پر قرآن پڑھنے سے خود قرآن لعنت کرے ایسے پڑھنے اور سننے سے کیا فائدہ؟

حضرت امام مالکؒ کا ایک واقعہ بڑا ہی سبق آموز ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ آپ کا فلاں شاگرد عشاء کے بعد کھڑا ہوتا ہے اور فجر سے پہلے نوافل میں پورا قرآن ختم کرلیتا ہے۔ امام صاحب بنفس نفیس اس شاگرد کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے معلوم کیا کہ تمہارے بارے میں ایسا ایسا سن رہا ہوں کیا یہ ٹھیک ہے؟ شاگرد نے تسلیم کیا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ آج رات جب کھڑے ہو تو تصور کرنا کہ مجھے سنا رہے ہو۔ اگلے دن امام مالکؒ نے دریافت کیا کہ کیسارہا؟ شاگرد نے جواب دیا کہ آج تو صرف دس پارے ہی پڑھ سکا۔ آپ نے اگلا سبق دیا کہ آج کھڑ ے ہونا تو تصور کرنا کہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنا رہا ہوں ۔ اگلے دن امام مالکؒ نے دریافت کیا آج کیا حال رہا؟ شاگرد نے عرض کیا کہ اس کیفیت کے ساتھ تو میں ایک پارہ بھی نہیں پڑھ سکا۔ امام صاحب نے آخری سبق دیا کہ آج پڑھنے کے لئے کھڑے ہونا تو تصور کرنا کہ ربّ کریم کو قرآن کریم سنا رہا ہوں ۔ اگلے دن استاد محترم کے احوال پوچھنے پر عرض کیا کہ آج تو پوری رات سورۂ فاتحہ کی تلاوت بھی نہیں کرسکا۔

ہمارے دین متین میں ہر چیز کا حق معین ہے۔ قرآن کا حق کیا ہے؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ جس قدر کسی چیز کا حق کا درجہ کم ہوگا اسی درجہ کا ثواب بھی کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ ادنیٰ درجہ میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہرکر صاف صاف اطمینان سے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے۔ کیا رمضان کے مبارک مہینہ میں ہمارے حفاظ قرآن کا ادنیٰ حق بھی ادا کررہے ہیں ؟ جن حافظوں کو رات میں پانچ پارے پڑھنا ہوتے ہیں کبھی ان سے معلوم کیجئے کہ خشوع و خضوع تضرع و انکساری کا گذر بھی ان کے دلوں پر ہوتا ہے؟

یہ پانچ پارے بھی جب 20 رکعات نماز تراویح میں پڑنا ہو تو ذہن و دماغ کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو قرآن کی لعنت کا طوق اپنے گلے میں لٹکانے کے شوقین ہیں ۔ کیا آج کے زمانہ میں منصب افتاء اوربلند و بالا علمی مسند پر قابض حضرات امام مالکؒ کی سُنت پر عمل کرتے ہوئے قوم میں رائج ہوچکی اس بدعت سیسۂ پر پابندی نہیں لگا سکتے؟ کوشش کریں تو ضرور لگاسکتے ہیں ۔ سوچئے کہ کہیں قوم کی تباہی و بربادی کی ایک وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اللہ کا مقدس کلام مہینے بھر مسلمانوں کی بڑی جماعت پر لعنت بھیجتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔