علمی مجلس کے زیر اہتمام طارق متین کے اعزاز میں شعری نشست

کامران غنی صبا

علمی مجلس، پٹنہ کے زیر اہتمام گزشتہ شام معروف شاعر طارق متین کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ نشست کی صدارت بزرگ شاعر قیصر صدیقی نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ اثر فریدی نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دیا۔ مہمانان خصوصی کی حیثیت سے مہمان شاعر طارق متین کے علاوہ معروف افسانہ نگار فخر الدین عارفی اور مغربی بنگال سے تشریف لائے ہوئے افسانہ نگار عشرت بیتاب شریک ہوئے۔ علمی مجلس کے جنرل سکریٹری پرویز عالم نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے علمی مجلس کی حالیہ کارگزاریوں پر روشنی ڈالی، انہوں نے طارق متین کی شاعری پر بھی اظہار خیال کیا۔

فخر الدین عارفی نے طارق متین سے اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ماضی کی خوشگوار یادوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے ادب کی زوال آمادہ قدروں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی نہیں کی گئی تو زبان و ادب کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔عشرت بیتاب نے بہار خاص طور سے عظیم آباد کی ادبی سرگرمیوں پر مسرت کااظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ بہار اور مغربی بنگال میں اردو زبان و ادب کی صورت حال دوسری ریاستوں سے بہتر ہے۔نشست میں شاذیہ فخر اور مہ جبین پروین(آسنسول) بھی شریک تھیں ۔ پرویز عالم کے شکریہ کے ساتھ اعزازی نشست کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔ اس مخصوص شعری نشست میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے:

جنت بھی اسی کی ہے یہ دنیا بھی اسی کی

پھر کس لیے قانون یہاں اور وہاں اور

قیصر صدیقی

صاحبو سن کے حکایاتِ جواں مرگیٔ دل

صبر کرنا بھی تو مشکل ہے مگر کر لیا جائے

طارق متین

زندہ دلانِ شہر میں ناشاد بھی ہیں ایک

یہ اور بات زینتِ محفل ہوئے ہیں آپ

ناشاد اورنگ آبادی

نگاہ اٹھتی نہیں کسی پر وہ بے بسی ہے

ہماری اپنی نگاہ پر بھی تمہارا قبضہ

معین کوثر

کہنے کی نہیں بات قلندر ہیں قلندر

قدموں میں پڑے رہتے ہیں سلطان ہزاروں

اثر فریدی

جس انقلاب کی بنیاد میں لہو ہوگا

مجھے یقین ہے اس معرکے میں تو ہوگا

اصغر حسین کامل

وطن کے واسطے اب سر کٹا دوں گا

جہاں والو یہ میرا حوصلہ دیکھو

معین گریڈیہوی

منافقت نہیں آتی سو رنجشوں کے بعد

تعلقات کا ہم اختتام کرتے ہیں

کامران غنی صبا

گلوں کے درمیاں یہ خار خار کچھ تو ہے

چمن میں ہوتا ہے اس کا شمار کچھ تو ہے

جمال کاکوی

آتا رہا خیال مجھے بار بار یہ

رشتہ ہمارے پیار کا کیوں ٹوٹ سا گیا

شاذیہ فخر

تبصرے بند ہیں۔