علمی معیشت اور بقاء روزگار

وسیم احمد

 انسانی تہذیب کی ابتدہ ہی سے معیشت ہر معاشرےکی تخلیق کا  بنیادی جذو  رہی ہے۔ تہذیب انسانی کے ابتدی ادور میں معیشت  ذرعی بنیا دوں پر قائم تھی،جو اٹھارویں صدی میں صنعتی اور اکیسیویں صدی میں علمی بنیادوں پر قا‏ئیم ہوئی۔‏معیشت کے ارتقاۂ  کے اس عمل سےلوگ سطحی طور پر تو  واقف ہیں،  لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلوں کو اپنی  پیشہ ورانہ زندگیوں میں اختیار کرنے میں عموما ناکام رہتے ہیں۔ جدید معیشت میں ترقی کرنے اورآگے بڑہنے کے تقاضے بیسویں صدی سے کافی مختلف ہیں،  جن کو سمجھنا اور  پروفیشنل لائف میں اختیار کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہیں۔ ان سطور میں دو بنیادی عناصر کی وضاحت کی گئی ہے، جو قارئین کی پیشہ ورانہ زندگیوں میں  مثبت تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آج سے بیس سال پہلے جب  میں انجینیرنگ ینیورسٹی سے پاس آوٹ ہوا تو اس وقت یار  دوست اس با ت سے بہت خوش تھے کہ آخر کار پڑھائی  سے جان چھوٹی   اورپروفیشنل زندگی میں ٹیسٹ،پروجیکٹ اور وایوا کا  کوئی جنجال نہیں ہو گا۔     گر یجویشن کے کچھ ہی عرصے بعد تقریبا تمام ہی دوستوں کو مختلف  قومی اور بین الاقوامی اداروں میں ملازمت مل گئ، اور سب نے  اپنے اپنے پرفیشنل کیر‏‏‏ئر کا آغاز کر دیا۔ جاب شروع کرنے کے بعد جب بھی دوستوں کی محفل جمتی تو بابوں کی شکایات لازما  مضوع محفل بنتیں۔ بابوں سے ہماری مرادو ادھیڑ عمر باسس تھے جوکہ عرصہ دراض سےاپنے عہدوں پربراجمان تھے اور جن کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں ان کی جوانی کی طرح ماند پڑھ چکی تھیں۔ ان میں  سے اکثر نے شاید گریجویشن کے بعد  کتاب  اور علم سے دور کا بھی واسطہ  نہیں رکھا تھا۔ ان با بوں کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ نوجوان انجینیر کے پیش کردہ ہر نئے  منصوبہ، خیال اور   مسئلہ کےحل کو کسی نہ کسی بنیاد پر  رد کر دیا جا‏‏ئے۔ بنیادی طور پر وہ بابے تبدیلی کے عمل سے خائف تھے اور پیشہ ورانہ معمولات کو ویسے ہی چلانا چاہتے جیسا کہ وہ  پچھلے کئ سالوں سے چلاتے آرہے تھے۔ اس خوف کی بنیادی وجہ ان کی آؤٹ ڈیٹڈ نالج تھی۔

   بیس سال  کا عرصہ گزرنے کے بعد اب جب   میں اپنے ہم جماعتوں کو دیکھتا ہوں تو  اس  بات کا بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ان بیس سالوں میں ہمارے معاشرے  نے ان متحرک اور پرجوش انسانوں کو بھی بابوں میں تبدیل کردیا ہے۔ہمارا معاشرہ تعلیم کو ایک ایسے بیگار کے طور پر دیکھتا ہے جو کہ صرف  حصول  روزگار کے لیےکی جاتی ہے۔ اس لیے جیسے ہی کسی کو اپنی مطلوبہ ڈگر ی اور ملازمت  مل جاتی ہے وہ تعلیم اور تدریس سے ایسے منہ موڑ تا ہے  جیسےکو‏‏‏ئ قیدی اپنے زندان سے ۔  عملی زندگی شروع ہونے کے بعد ہم میں سے اکثر کتاب صرف حالت مجبوری   میں ہی کھولتے ہیں۔   اس عمومی رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان وقت کے ساتھ ساتھ اپنی متعلقہ فیلڈ میں ہونے والی ترقی سے بے خبرہو جاتا ہے، اور اس کی سوچ  اورعلم اس  کی ڈگری کے وقت کی  حاصل کردہ معلومات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ پیشہ ورانہ لاعلمی آخر کار ایک ایسے خوف کو جنم دیتی جس کے تحت انسان لاشعوری طور پرایجاد وتخلیق کے عمل   کونا پسند کرنے لگتا ہے۔

انسان کو بابا بنانے میں ایک اورعنصر کا بھی عمل دخل ہوتا ہے جس کا تعلق پروموشن سے ہے۔ دنیا کی ہر  ڈگری انسان کو کسی خاص شعبہ اور فیلڈ میں مہارت عطا کرتی ہے۔ کسی  بھی ڈگری کے حصول بعد یہ فرض  کر لینا کہ اب ہم ہرشعبہ زندگی میں شاندار کارکردگی دکھانے کے قابل ہیں،  صراصر خام خیالی ہے۔   گر چہ  شعوری طور ہم اس بات کو مانتے ہیں لیکن لاشعوری طور پر اس کی نفی کرتے ہیں،  کیونکہ ہم میں سے اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے مینجر بالکہ اس کے مینجر کا کام بھی بغیر کسی اضافی علمی صلاحیت کے باآسانی کر سکتے ہیں۔ یہ رویہ پاکستان میں رائج غلط پروموشن پریکٹس کی وجہ سے زہر قاتل بن جاتا ہے۔

 پاکستان میں یہ چلن عام ہے کہ پروموشن کے وقت یا تو سینیارٹی دیکھی جاتی ہے یا   امیدوار کی موجودہ   کارکردگی کوپرکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان ایک ایسے عہدہ    پر  پروموٹ  ہو جا تا ہےجس کی اس میں قابلیت نہیں ہوتی۔ مثلا یہ ممکن ہے کے ایک انجینیرجو ایک کمپنی کوبطور انجینیر جوائين کرے،  اور   وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  ایک بزنس یونٹ کا سربرہ بنا دیا جاے۔کسی بزنس یونٹ کے سربرہ کے لیے درکار قابلیت انجینیر کی قابلیت سے کافی وسیع اور کافی  مختلف ہوتی ہے، جس میں لیڈر‎شپ، سیلز، مارکیٹنگ، بزنس ڈیویلپمینٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اگر  اس انجینیر نے وقت کے ساتھ  کتاب و علم سے رشتہ  قا یم رکھا ہو تو  ان مضامین میں دسترس حاصل کرناکو‏ئی  مشکل کام نہیں ہوتا۔لیکن اگر ایسا نہ ہوا ہو تو وہ انجنییر اپنی محدود علمی صلاحیتوں کو وجہ سے احساس عدم تحفذ کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک بابے کی شکل اختیارکر لیتا ہے،جو نئی آنے والی نسل کے نئے  ارادوں کی ضد اپنا فرض سمجھتا ہے۔

علمی معیشت میں جہاں ایجاد و دریافت کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے وہیں ایجادات، معلومات، تکنیک اور پریکٹس کے متروک ہونے کے عمل بھی  اتنا ہی تیز ہو گیا ہے۔ اس  کا براہ راست مطلب یہ ہے کے جو کچھ ہم اپنے دور تعلیمی میں سیکھتے ہیں وہ اب بہت تیزی سےآئوٹ ڈیٹ ہو جاتا ہے۔ علمی معیشت میں کامیابی کا بنیادی تقاضہ ہے کہ ہم تعلیم اور حصول علم کے بارے میں اپنے تصورات  میں بنیادی تبدیلی لائیں۔ جس میں سب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ یہ مان  لیا جائے کہ حصول علم کا عمل ڈگری   حاصل کرنے  کے بعد بھی ویسے ہی جاری رہنا  چا ہیے جیسا کہ اس کے حصول سے پہلے تھا۔ عملی زندگی میں ہمیں یہ آسانی ہوتی ہے کہ ہم اپنی تعلیم کے مضامین خود پسند کر سکتے ہیں۔ اپنی مستقبل کی ضروریات یا  اپنی پسند کے مطابق   کسی بھی متعلقہ  مضمون کا مطلعہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔ دوسری اہم تبدیلی یہ ہے کہ تعلیم کو صرف روزگار کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھاجائے بلکہ اسے اپنے آپ کو ایک بہتر انسان بنانےاور آدمی سے انسان  بننے کے عمل کا  بنیادی جزو مانا جائے۔ اپنی آگاہی اور آگہی کو ہمیشہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش ہی جدید معاشی نظام میں کامیابی   اور جاب سیکورٹی  ضامن ہے، کیونکہ علمی معیشت میں قدر صرف  اور صرف انسانی ذہن اور اس کی سوچ کی ہے۔ ایک افریقی کہاوت  اس سادہ سی بات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے کہ” نہ جاننا  اگربری بات  ہے تو جاننے کی خواہش نہ رکھنا اس سے بھی بدتر ہے”۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔