علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو سیاست گاہ مت بناؤ

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

علی گڑھ مسلم  یونی ورسٹی ہندوستان کی وہ ممتاز یونیورسٹی ہے جس نے دنیا بھر میں ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کا ہر موقع پر خوشگوار پیغام دیا ہے، یہاں انسانی اقدار کی حفاظت  کی جاتی ہے کبھی بھی کسی طالب علم کے ساتھ قومی، نسلی اور لسانی بھید بھاؤ نہیں کیا گیا ہے، یونیورسٹی کے حالیہ تنازع کو سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹی کی آئیڈیالوجی کی عینک لگا کر دیکھ رہی ہیں–

حد تو یہ ہیکہ میڈیا نے بھی اپنی دشمنی اور نفرت کا کھلا ثبوت دیا ہے، ظاہر ہےمیڈیا سے تو یہی امید کیجا سکتی ہے کیونکہ اس وقت میڈیا مخصوص فکر کا اسیر پے، مجھے بتانا یہ ہیکہ اس تنازع کو ہوا کہاں سے ملی اگر ہم کچھ روز پہلے کے اخبارات دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی  میں سلمان خورشید کو ایک پروگرام میں مدعو گیا تھا جس میں ایک طالب علم نے گانگریس کی مسلم مخالف کار کردگی پر سوال کیا تو سلمان خورشید نے کہا کہ ہاں اگرگانگریس کے دامن پر مسلموں کے خون کے دھبے ہیں تو میں بھی داغدار ہوں، میں سمجھتا ہوں ان کا یہ اعتراف اس با ت کا کھلا ثبوت ہےکہ ابھی بھی سیاست میں اخلاقی قدریں موجود ہیں، اس کے بعد میڈیا نے اس مسئلہ کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا  اور ملک میں سیاست نے ایک نیا روپ اختیار کرلیا طرح طرح کی بیان بازیاں شروع ہوئیں اسی دوران ٹی وی چینل نے سبرامنیم سوامی سے سوال کیا کہ سلمان خورشید کے بیان پر آپ کی کیا رائے ہے انہوں نے اس کا جو بھی جواب دیا وہ الگ مسئلہ ہے لیکن اس وقت انہوں نے یہ بھی کہا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی  دہشت گردی کا اڈہ ہے، ظاہر ہے یہ صرف مسلم یونیورسٹی پر حملہ نہیں تھابلکہ پورے ملک میں یونیورسٹی کی تابناک شبیہ کو بدنام کرنے   کی شرمناک حرکت تھی۔

 اس کے کچھ روز بعد علیگڑھ کے لوکسبھا ممبر نے یونین حال میں جناح کی تصویر آویزاں ہونے پر اعتراض کیا، یہاں رک کر یہ بھی سنتے چلئے کہ علیگڑہ کے ایم پی یونیورسٹی کورٹ کے ممبر ہیں اور انہوں نے کئی مرتبہ کورٹ کی میٹنگ میں شرکت بھی کی ہے مگر کسی بھی نششت میں انہوں نے جناح کی تصویر کو لیکر کوئ سوال نہیں اٹھایا اسی دوران ایک  نام نہاد مسلم، ضمیر فروش اور ایمان فروش آر ایس ایس کے رضا کار کی طرف سے  یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ یونیورسٹی  میں آر ایس ایس  کی شاکھا کھولنے کی اجازت دیجائے میں یہ واضح کردوں کہ  کسی بھی مسلم اور غیر مسلم تنظیم کی یونورسٹی  میں کوئی شاکھا نہیں  ہے۔

 ان شواہد کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں فرقہ پرست طاقتیں منصوبہ بند سازش رچ رہی تھیں اور اس کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی ناپاک سعی کررہی تھیں،  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک ہندوجاگرن منچ یا دیگر ہندو تنظیموں کا کیمپس میں داخل ہونا اور الٹی میٹم دینا کہ اڑتالیس گھنٹہ.میں جناح کی تصویر کو ہٹادیا جائے کیا یہ صحیح تھا؟اور یہ شر پسند عناصر کس کی شہ سے یونیورسٹی احاطہ میں داخل ہوئے؟  آخر ضلع انتظامیہ نے ان کو یہاں آنے کی اجازت کیوں دی؟ اگر پولس کی اجازت کے بغیر داخل ہوئے تو پولس نے ان پر کیا کاروائی کی؟ اسی پر بس نہیں بلکہ ہندویواواہنی کے شر پسند عناصر  اشتعال انگیز   نعرے بازی بھی کررہے تھے اور پولس کا عملہ ان کی پشت پناہی کررہا تھا اس کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟

 یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہیکہ جناح کی تصویر علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں 1938 سے آویزاں ہے کیونکہ ان کو طلباء یونین نے لائف ممبر شپ دی تھی  اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہیکہ یہاں جناح کے افکار کو کسی بھی نوعیت سے سپورٹ کیا جاتا ہے یا اس کی مدح سرائی کیجاتی ہے تاریخ شاہد ہے کہ یونیورسٹی میں کبھی بھی ملک مخالف سر گرمیوں میں  ملوث افراد یا  ان کے حامیین کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے ہمیشہ علیگ برادری نے ان طاقتوں کی سر کوبی کی ہے جو ملک اور قوم کے مخالف رہی ہیں – کیونکہ یونیورسٹی کی روح میں وطن دوستی اور انسان دوستی کا عنصرشامل ہے ، نیزدومئی کو سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو بھی یونین کی ممبر شپ دینے کا پروگرام تھا کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ کچھ لوگ حامد انصاری کو بھی نشانہ بنانا چاہتے تھے ؟ رہا جناح کی تصویر کے آویزاں ہونے کا سوال تو میں بتادوں کہ اگر اس مسئلہ کو قانونی دائرہ میں رہکر حل کیا جاتا تو بہتر تھا افسوس اس بات کا ہے کہ ستر سال کے بعد اچانک جناح کی تصویر کا کیوں خیال آیا؟  کیا یہ کہنا درست نہیں ہیکہ جناح کی تصویر کو بہانا بناکر فسطائی طاقتیں یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کو درہم برہم کرنا چاہتی ہیں ہیمشہ یونیورسٹی  فسطائی طاقتوں کے نشانہ پر رہی ہے کبھی اس کے اقلیتی کردار پر اعتراض ظاہر کیا جاتاہے تو کبھی اس کے ملی اور قومی وقار پر سوال کھڑا کیا جاتا ہے، آخر کیوں؟

 سب سے بڑی بات یہ ہیکہ تنگ نظر افراد کو مسلمانوں کی تعلیمی کامیابی برداشت نہیں ہورہی ہے یوں تو ہندوستان میں مسلمان تعلیمی طور پر انتھائی پسماندہ ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے لے دیکر ہندوستان میں مسلمانوں کے  اکا دکا تعلیمی ادارے ہیں لیکن فرقہ پرست طاقتیں ان پربھی تعصب کی نگاہیں مرکوز کئے رہتی ہیں جبکہ   ہندوستان ایک  جمہوری ملک ہے یہاں تمام طبقات کو تعلیمی، مذہبی اور فکری   آزادی حاصل ہے  اس کے باوجود اس طرح کی در اندازی کا کیا جواز ہے؟  گھوم پھر کربات وہیں آتی ہے کہ میڈیا جناح کی تصویر کو لیکر کافی فکرمند ہے، لیکن میڈیا نے کیا یہ مدعا بھی اٹھایا کہ ہندویواواہنی کے سر پھرےمسلح کیمپس میں  کیون آئے؟  طلباء جب ان کی غنڈہ گردی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے گئے تو ان پر بے دردی سے لاٹھیاں برسائیں اور ہوائ فائرنگ بھی کی حتی کہ چند طلباء کو کوٹ کوٹ کر زخمی بھی کرڈالا کیا یوپی پولس کا یہ رویہ اس بات کا بین ثبوت نہیں ہیکہ اب پولس کا عملہ بھی با اختیار نہیں ہے بلکہ موقع پرست نیتاؤں کے دباؤ میں کام کررہا ہے؟

یہ حقیقت ہے جب سے ملک میں سیکولر طاقتیں کا اثر کم ہوا ہے تب سے جگہ جگہ فسطائیت کا گھناؤنا روپ پروان چڑھا ہے اور ہندو مسلم نفرت کو بھی بڑھا وا دیا گیا ہے، ملک  کی ساجھی روایت باہمی اتحاد کو  آئے دن فرقہ پرست طاقتیں نئے نئے شگوفے چھوڑ کر مخدوش و مجروح کررہی، پر امن ماحول کو عدم رواداری، منفی فکر اور تنگ نظری کے تیرو نشتر چبھوکر پامال کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جاری ہے، ہندوستان کی برسوں پرانی تہذیب قومی یکجہتی، بھائی چارگی کو پاش پاش کیا جارہا ہے مزے کی بات یہ ہیکہ اب سیاست کا پورا کارو بار مذہب کی بنیاد پر کیا جارہا ہے، باہمی میل جول سے رہنے والی قوموں کے درمیان نفرت، حسد اور خود غرضی جیسی  مہلک  بیماریوں کی مسلسل تخم ریزی کیجارہی ہے، کبھی لو جہاد، بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم اور گھر واپسی جیسی فضول بحثوں نے ملک کے ہر معتدل باشندہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے ، تصور کیجئے جب ملک  اس طرح کے لایعنی شگوفوں میں الجھ کر رہ جائے تو کیا ملک اور سماج کی فلاح و ترقی ممکن ہے؟

تاریخ بتاتی ہے جب بھی حکومتوں نے اپنے مقصد اصلی کو بالائے طاق رکھا ہے اور عوام کو مذہب کے نام پر لڑایا ہے تو اس کے نتائج عوام کے لئے مفید نہیں رہے ہیں، اگر ہم علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا جائزہ تعصب کی عینک ہٹاکر لیں  تو معلوم ہو گا کہ اس ادارہ نے ملک اور قوم کے لئے ایسے جیالے تیار کئے ہیں جنہوں نے ملک کی عظمت اور وقار کو پوری دنیا میں روشن کیاہے ، رواں سال میں تقسیم اسناد کے موقع پر ملک کے صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کوبند نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس ادارہ کے دریائے علم سے فیضیاب  ہو نے والے  فارغین نے پوری دنیا میں ملک کی عظمت میں چار چاند لگائے ہیں – دکھ کی بات یہ ہیکہ ہندوستان میں اب تعلیمی اداروں کو ناعاقبت اندیش اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں، جبکہ تعلیمی اداروں کو سیاست کا اکھاڑہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ تعلیمی اداروں کو زد پہنچانے کا مطلب ہے پورے ملک کی جنتا کو نقصان پہنچانا اور ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کرنا طلباء خواہ کسی بھی تعلیمی ادارہ.میں زیر تعلیم ہوں  وہ صرف اس ادارہ،یا اپنے خاندان کے لئے ہی ترقی کا باعث نہیں ہوتے بلکہ پورے ملک کی زینت اور سرمائہ افتخار ہوتے آج حکومتوں کو چاہئے کہ ایسے قوانین بنائیں کہ تعلیمی اداروں پر مشکوک نگاہوں سے دیکھنے والے طبقوں کی طاقت اور زور  بے اثر ہو کر رہ جائے  اور یہ تبھی ممکن ہے جب حکومتیں ملک کی ترقی کے لئے سنجیدہ ہوں  اگر ہم علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے مزاج اور روح کو جاننا چاہتے ہیں تو بانئی درسگاہ سر سید احمد خاں کے اس روشن خیال نظریہ کو جاننا بیحد ضروری ہے، انہوں ملک کی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کے لئے کہا تھا کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند اور ہندو مسلم اس کی دو آنکھیں ہیں اگر دونوں میں سے کسی کو بھی زک پہنچائی تو دلہن کانی ہو جائے گی، اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ سر سید کے اس نظریہ نے ہندوستان کی میل ملاپ اور باہمی تعاون کی روایت کو نہ صرف تقویت پہنچائی بلکہ اس کو زندہ دلی اور خوش مزاجی سے ہندوستان کے مسلمانوں نے فروغ دیا اور دیرہے ہیں، اس وقت وطن عزیز میں ایک نیا رواج چل پڑا ہے کہ مٹھی بھر لوگ  اپنی جھوٹی حب الوطنی کو نمایاں کرنے کے لئے ملک کی دوسری اکثریت مسلمانوں کو غدار وطن قرار دینے کے لئے قابل اعتراض ہتھگنڈہ اپنا رہے ہیں۔

 اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ملک کی آزادی میں ہم برابر کے شریک ہیں یہاں کی خوشی اور غم میں ہم نے ہر مرتبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے  اس کے باوجود مسلمانوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ان کے ساتھ امتیاز برتا جاتاہے اور انکی حب الوطنی پر بار بار شک  کیاجاتا ہے، جس سے  ملک کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوتی ہے، ضمنا یہ عرض کردوں کہ ہندوستان کے معزز اخبار راشٹریہ سہارا میں 4/ مئی کے اداریہ میں لکھا گیا ہیکہ جناح کے سیکولر خیالات سے متائثر ہو کر بی جے پی کے سابق صدر لال کرشن اڈوانی نے پاکستان میں ان کے مزار پر جاکر اپنی پیشانی جھکائی، اسی طرح بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر جسونت سنگھ نے جناح کی شخصیت پر پوری ایک کتاب ہی لکھ دی تھی، حال ہی  میں اتر پردیش حکومت   کے کاوینی وزیر سوامی پرساد موریہ نے جناح کو مہا پرش قرار دیا، آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ سماج میں نفرت کا زہر گھول کر سیاسی عروج حاصل کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ حکومت کرنے کا اتناہی شوق ہے تو وکاس اور فلاح وبہبود کو بنیاد بناکر الیکشن میں کامیابی حاصل کی جائے۔

 آج ملک کا بیشتر طبقہ روزگار مانگ رہا ہے، کسان بھاری تعداد میں خود کشی کررہے ہیں نوجوان  تعلیم کے مناسب مواقع کا مطالبہ کرر ہے ہیں، مہنگائی نے عام آدمی کہ کمر توڑ کر رکھ دی ہے، مگر ہماری سر کاروں کے پاس سماج کو ترقی دینے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہاں ہندو مسلم اتحاد کو ختم کرنے کے لئے تمام منوصبے ہیں چاہے اس کے لئے کسی تعلیمی ادارہ کو نقصان پہنچانا پڑے یا مسجد اور مندر جیسے مقدس مقامات کو زد پہنچانی پڑے، اس لئے ایسی باطل طاقتوں کو کمزور کرنے کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو سخت ایکشن لیتے ہوئے شر پسند عناصر پر قد غن لگانا چاہئے کہ وہ پھر کسی بھی ادارہ کی طرف غلط ارادہ سے دیکھ بھی نہ سکیں، اگر معاشرہ میں یہ نفرت سلگتی رہی تو ہندوستانی معاشرہ اپنی صدیوں پرانی صفت روداری کو کھو بیٹھے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔