انسان اور زمین کی حکومت (قسط 37)

رستم علی خان

اسی طرح ذوالقرنین نے اپنا سفر جاری رکھا اور راستے میں کئی قومیں اور علاقے آئے- ذوالقرنین کا لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کے زمین کا دوسرا کنارہ آ گیا کہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا تھا اور اس سے آگے جانے کا کوئی راستہ تھا- اور وہاں ایک قوم ایسی پائی کہ جن کے لئیے سورج کے سوا کوئی پردہ نہیں تھا- نہ ان کا کوئی گھر بار تھا اور نہ ہی کوئی کھیتی باڑی کا سامان- اور نہ ہی ان کے بدن پر کوئی لباس تھا مرد و زن ننگے پھرتے اور کھانے کے لئیے دوسرے شہروں سے لوٹ مار کر کے لے آتے-

یعنی وہ ایک ایسی قوم پر پنہچے کہ جو صحرا میں رہتی تھی اور اس سے آگے پانی تھا- چونکہ صحرا میں ہونے کی وجہ سے کھیتی نہیں ہو سکتی تھی کہ زمین ساتھ نہ دیتی تھی- تو نہ وہاں کپاس ہوتی کہ لباس بنا سکیں اور نہ ہی کوئی درخت وغیرہ کہ گھر بنا سکیں-
چنانچہ وہاں مرد عورتیں سب ننگے رہتے اور جانوروں کی طرح کوئی کسی سے شرم محسوس نہ کرتا اور جانوروں کی مانند ہی جماع کیا کرتے- اور کھانے کے لئیے دوسرے شہروں سے لاتے- اور وہاں کا موسم بھی ایسا ہی تھا جیسا عمومی طور پر صحراوں کا ہوتا ہے کہ دن کو تو سخت گرمی پڑتی اور رات کے وقت سخت سردی پڑتی- چنانچہ وہ رات کو دوسرے شہروں میں جاتے اور کھانے واسطے اسباب تلاش کرتے اور جو ملتا لوٹ لاتے اور دن کے وقت سورج کی روشنی اور تپش سے اپنے جسموں کو قوت پنہچاتے-
ذوالقرنین کا لشکر جب وہاں پنہچا تو ان لوگوں نے انہیں لوٹنے کی خاطر ان سے جنگ شروع کر دی- ایک روایت کے مطابق کہ جسے حضرت علی سے منسوب کیا جاتا ہے ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ نے انہیں دو بار زندگی عطا کی تھی- ایک بار جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پر پنہچے تو اسے کالے پانیوں میں غروب ہوتا پایا اور وہاں ایک ایسی قوم تھی جو جانوروں کی کھال پنہتی اور اس کے سوا ان کے جسم پر کچھ نہ ہوتا- اور انہی کا شکار کر کے کھاتے- چنانچہ جب ذوالقرنین کا لشکر وہاں پنہچا تو اللہ نے انہیں قوت دی کہ وہ قوم کے ساتھ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں – انہوں نے عادل حکمرانوں کی طرح فرمایا کہ جو نیک عمل کرے گا اس کے لئیے اچھا بدلہ ہو گا اور جو برا کرے گا لہذا سزا کا حقدار ہو گا- روایت میں ہے کہ اس جنگ میں ذوالقرنین شہید ہو گئے تو اللہ نے انہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائی- اور تب وہ پھر لڑے اور فتح مبین حاصل کی اور وہاں کے لوگوں کو اللہ کی بندگی میں جھکایا اور جو سرکش تھے انہیں جہنم واصل کیا-

اور دوسری دفعہ مذکورہ بالا قوم سے جنگ کے دوران بھی حضرت ذوالقرنین شہید ہوئے تب اللہ تعالی نے انہیں ایک بار پھر زندگی عطا فرمائی اس طرح آپ کا نام ذوالقرنین ہوا- واللہ اعلم الصواب-

چنانچہ ذوالقرنین کے لشکر نے ان سے جنگ کی اور ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ان کے ساتھ اچھا برتاو کیا گیا اور اپنے لشکر میں سے کچھ نیک لوگوں کو ان کی راہنمائی کے لئیے رکھا گیا کہ انہیں اطاعت الہی کے مطابق زندگی گزارنے کی راہنمائی فرمائیں اور علاوہ اس کے دھوپ گرمی اور سردی وغیرہ سے بچنے کے لیے جو طریقہ کار میسر ہیں ان سے آگاہ کیا جائے- الغرض کہ محنت مشقت سے اپنی طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان میں چند نیک اور صاحب عقل لوگوں کو چھوڑا اور جو لوگ ان میں سرکش تھے جنہیں دیکھا کہ وہ اطاعت قبول کرنے والے نہیں اور نہ ہی وہ ایمان لائیں گے اور زمین میں خرابی ہی کریں گے ہر صورت انہیں قتل کر دیا اور جہنم واصل کیا-

بعد اس سب کے کہ جب وہاں سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور لوگ ایمان والے رہ گئے اور اللہ کا حکم اور بندگی بجا لانے والے ہوئے اور اپنا طرز زندگی بہتر بنانے لگے تب ذوالقرنین نے وہاں سے اگلے سفر کا ارادہ باندھا جو شمال کی جانب تھا۔

چنانچہ ذوالقرنین نے اپنا اگلا سفر شمال کی جانب شروع کیا اور وہاں سے ایک ایسی جگہ جا پنہچے جس کے بارے قرآن سورہ کہف میں ارشاد ہوا ہے؛

ترجمہ: پھر ذوالقرنین پیچھے چلا ایک اور راہ کے یہاں تک کہ جب پنہچا درمیان دو پہاڑوں کے تو وہاں پایا ایک ایسی قوم کو کہ جو نہ سمجھتی تھی کسی بات کو-

روایت میں تذکرہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین جب شمال کی حد میں پنہچے تو وہاں دو پہاڑوں کو کھڑا پایا دیوار کی مانند اور ان کے پار جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا سوائے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان والی خالی جگہ کے- اور وہاں ایک ایسی قوم تھی جن کی زبان ذوالقرنین کے لشکریوں میں سے کسی کو سمجھ نہ آتی تھی- اور ان لوگوں میں زیادہ لوگ حکیم اور زاہد تھے علم و دانائی بھی رکھتے تھے- لیکن دونوں پہاڑوں میں بسنے والے لوگ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھتے تھے کہ دونوں کے درمیان پہاڑ آڑ تھے- اور ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کی جگہ سے کھلا تھا جہاں سے یاجوج ماجوج آتے اور ان کو لوٹ مار کر چلے جاتے- یاجوج ماجوج دوگروہ تھے کثیر التعداد تھے کہ تعداد ان کی سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہ تھی اور وہ دونوں پہاڑوں کے اس طرف رہتے تھے ایک پہاڑ میں قوم یاجوج کی اور دوسرے پہاڑ میں قوم ماجوج کی-

یہ دونوں قبیلے حضرت نوح کے بیٹے یافث بن نوح کی نسل میں سے تھے- جو اولاد نوح کے زمین پر پھیل جانے سے وہاں آ کر آباد ہو گئے تھے- بعض روایات کے مطابق یافث طن نوح کی نسل سے ایک آدمی ماجوج ہوا جس کی یہ ساری نسل تھی اور ان میں سے آگے چل کر ایک بادشاہ یاجوج ہوا اور فاتح ٹھہرا تب ان کی نسل اپنے جد کے ساتھ اس کا نام بھی لگاتی- اور بعض کے مطابق یہ دو بھائی تھے یاجوج ماجوج جن کی یہ نسل تھی- الغرض نسل ان کی بےحد تھی کہ سوا اللہ کے ان کی تعداد کسی کو معلوم نہیں اور صورت میں آدمیوں جیسے تھے لیکن قدر و قامت میں کم و بیش تھے بعض ان میں ٹھگنے تھے اور بعض دراز قامت تھے- بعض ایک گز اور بعض کی قد و قامت ایک بالشت ہے- لیکن کان ان کے بڑے بڑے ہیں مانند ہاتھیوں کے اور وہ زمین پر لٹکتے ہیں- اپنا ایک کان زمین پر بچھاتے ہیں اور دوسرا اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔

اور مانند حیوانوں کے رہتے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے سے کوئی شرم و حیا نہیں کرتا اور جانوروں کی مانند ہی ایک سے ایک جماع کرتا ہے- اور جانوروں کی مانند ہی قضاء حاجت وغیرہ کرتے ہیں یعنی کسی بھی طرح سے تہذیب ان میں نہ پائی جاتی ہے- اور نہ ہی ان پر موت ہے کہ ان کی تعداد کم ہو یا کسی طرح جنگ کر کے ان پر فتح حاصل کی جائے- یعنی ان لوگوں کو اللہ کی طرف سے چھوٹ دی گئی تھی- اس کے علاوہ بھی کئی روایتیں یاجوج ماجوج کی نسل اور پیدائش کے بارے ہیں جن میں سے زیادہ یا تو افسانوی ہیں یا پھر اسرائیلی راویوں جیسے کعب الحبار رحمہ اللہ وغیرہ سے منقول ہیں جو بعد میں اسلامی مفسرین نے تفسیر میں شامل کر لیں لیکن زیادہ یہی صحیح روایت ہے کہ یہ یافث بن نوح کی نسل سے تھے-

الغرض یہ ایک وحشی قبیلہ تھا جو پہاڑوں کے اس طرف بسنے والے لوگوں کو پریشان کرتا اور ان کی املاک تباہ کر دیتا سارا پانی یا تو پی جاتے یا اس طرح خراب کر جاتے کہ استعمال کے قابل نہ رہتا- وہاں کے کھیتوں میں تل کی پیداوار ہوتی اور تل یاجوج ماجوج کی مرغوب خوراک تھی-

چنانچہ جب حضرت ذوالقرنین وہاں پنہچے تو ان لوگوں کو دعوت حق پنہچائی- انہوں نے ذوالقرنین سے مدد مانگی اور کہا کہ ہمیں اس بدبخت قوم سے نجات دلائی جائے کہ ہماری املاک تباہ کر دیتے ہیں لوٹ مار کے علاوہ ہمارے کھیت اور پانی تک خراب کر دیتے ہیں جو ان کے ہتھے چڑھے اسے مار دیتے ہیں ہم پر ظلم و ستم کرتے ہیں اور تعداد ان کی کثیر ہونے کی وجہ سے ہم ان سے جنگ کی قوت بھی نہیں رکھتے- پس اگر آپ ان کے اور ہمارے درمیان کسی طرح کی کوئی آڑ یا رکاوٹ بنا دیں جو ان دونوں پہاڑوں کو کاٹنے والے درمیانی درے کو بند کر دے تو اس طرح ان کا یہ راستہ بند ہو جائے گا اور ہم ان کی سرکشیوں سے محفوظ ہو جائیں گے- اور اس کام کے لئیے جو لاگت آئے گی ہم ادا کرنے کو تیار ہیں اور اگر ایک ہی بار نہ کر سکیں تو ہم اپنی فصل کا ایک بڑا حصہ آپ کو بطور ٹیکس اور خراج کے ادا کیا کریں گے اور آپ کی اطاعت بھی قبول کریں گے- یعنی ان لوگوں نے حضرت ذوالقرنین کو قوت و مرتبے والا دیکھا تو سمجھ لیا کہ یہ ہماری مدد کر سکتے ہیں اور اس کے عوض انہوں نے اپنی فصلوں کا کچھ حصہ بطور خراج دینے کی پیشکش بھی کی اور ساتھ اطاعت قبولنے کا عہد کیا اور یہ چیز ان کی حکمت و دانائی کو ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ ذوالقرنین کے ساتھ اللہ کی خاص مدد ہے اور یہ ہماری مدد کر سکتے ہیں اس معاملے میں اور اگر کسی طرح یاجوج ماجوج سے جان چھوٹ جائے تو ساری املاک اور فصلوں کی بربادی سے بہتر ہے ان میں سے کچھ حصہ بطور خراج ادا کیا جائے اور اطاعت قبول لینے سے ان کی قوت بھی بڑھ جاتی۔

چنانچہ اس قوم نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کے معاملے میں مدد طلب کی اور یہ کہا کہ اس کامیں جتنی لاگت آئے گی وہ لوگ بھر دیں گے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوا تو وہ اس قیمت کے بدلے بادشاہ کو خراج دیا کریں گے-

چنانچہ حضرت ذوالقرنین نے اس قوم والوں سے کہا کہ مجھے کسی قسم کی دنیاوی مال و دولت کی تم سے ضرورت نہیں ہے میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں – تو تم اس بات کی فکر نہ کرو جتنی لاگت اس کام میں آئے گی یا جو کچھ بھی اس درے کو بند کرنے کے لیے استمعال ہو گا وہ سب میں اپنے خزانوں میں سے خرچ کروں گا اور اس کے لیے نہ تم پر کوئی قرض کا بھار ہو گا اور نہ ہی تمہیں کوئی خراج ادا کرنا پڑے گا- البتہ اگر تم کر سکو تو اتنا کام کرو کہ اسے بند کرنے میں ہمارا ساتھ دو- مطلب یہ کہ جو سامان وغیرہ درے کو بند کرنے کے لئیے لگے گا وہ وہاں پنہچانے اور اسے دیوار کی صورت کھڑا کرنے میں ہمارا ساتھ دو۔

وہ سب لوگ اس کام میں آپ کے ساتھ ہوئے- حضرت ذوالقرنین نے سب سے پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختے (پلیٹیں ) بنائے- اور پھر انہیں اوپر نیچے اس طرح رکھا کہ ایک کے اوپر ایک تختہ دیوار کی صورت کھڑا کرنا شروع کر دیا- لوہے کے وہ تختے بطور اینٹ استمعال کیے گئے- اور ان کو مضبوط اور پائیدا رکھنے کو ان میں پگھلا ہوا سیسہ (تانبا) بطور سیمنٹ کے استمعال کیا گیا- اور اسی طرح انہیں پہاڑ کے برابر تک ایک مضبوط دیوار کی صورت کھڑا کر دیا۔

حضرت ذوالقرنین نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان اس خالی درے کو اسی طرح پہاڑوں کی بلندی تک اٹھایا کہ کسی طرف سے راستہ نہ چھوڑا یعنی لوہے کی ایک مضبوط دیوار کو دونوں پہاڑوں کے بیچوں بیچ یوں کھڑا کیا کہ زرا برابر بھی کوئی چھید یا سوراخ اس میں نہ رہا کہ دوسری جانب سے کچھ دیکھا ہی جا سکے- جب دیوار مکمل ہو گئی تو حضرت ذوالقرنین نے ان سے تانبا پگھلانے کو کہا اور تانبے کو اس قدر پگھلایا گیا کہ مانند آگ کے سرخ ہو گیا اور پانی کی طرح کہ اگر گرایا جاتا تو بہنے لگتا بلکل ایسے جیسے کسی لاوے کے پھٹبے سے آگ کا دریا بہتا ہو- بد اس کے وہ پگھلا ہوا تانبا لانے کو کہا- جب لے آئے تو حضرت ذوالقرنین نے وہ تانبا لوہے کی دیوار پر گرانا شروع کیا- تانبا پگھلا ہوا ہونے کی وجہ سے درزوں میں اس طرح مضبوطی سے جم گیا کہ کوئی درز یا سوراخ نہ رہا- اب وہ دیوار بلکل چپٹی ہو گئی کہ چڑھنا اس پر ناممکن ہوا اور نا ہی اس میں نقب لگائی جا سکے کسی طرح بھی- لوہے اور تانبے کی دیوار دو پہاڑوں کے درمیان میں مثل پہاڑ کے ہی کھڑی ہو گئی-

بعد اس کے حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ اب یاجوج ماجوج کسی صورت اس دیوار پر نہ چڑھ سکیں گے اور نہ توڑ سکیں اور نہ ہی کسی طرح نقب لگا سکیں گے اس پار اور یہ میرے رب کی مہربانی ہے جو اس نے مجھے یہ طاقت عطا فرمائی- اب یہ لوگ اس دیوار کے دوسری طرف قید رہیں گے تب تک جب تک کہ میرے اللہ کا حکم نہیں آ جاتا- اور جب قریب آ جائے گا یوم مقررہ تب اللہ کے حکم سے یہ دیوار ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور پھر یاجوج ماجوج پوری زمین پر پھیل جائیں گے اور خرابی کریں گے اور یہ وعدہ ہے میرے اللہ کا جو ضرور پورا ہو گا-

اور روایات میں اس دیوار کی لمبائی ستر گز بیان ہوئی ہے اور طول اس دیوار کا چھتیس کوس کی راہ ہے اور عرض تین کوس کی راہ اور بعضوں نے کہا کہ طول اس کا تین سو کوس کی راہ ہے اور عرض ڈیڑھ سو کوس کی راہ- واللہ اعلم الصواب

اور ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں سد تک گیا ہوں- آپ نے فرمایا کہ مثال اس کی بیان کر- تب اس نے کہا کہ ایسی ہے جیسے چار خانہ لنگی کہ درمیان سے سیاہ اور بیچوں بیچ سے سرخ لکیریں خانے بناتی ہوئیں- تب حضور اقدس نے فرمایا بیشک تو سچ کہتا ہے کہ وہ لوہے کے تختے سیاہ ہیں اور بیچ میں درزوں میں تانبے کی لکیریں سرخ ہیں۔

اصلی دیوار اللہ کے سوا کسی کو بھی ٹھیک سے نہیں پتہ نہیں تو کب کا امریکہ اور اسرائیل پہنچ چکا ھوتا اس لئے اس دیوار کو خیالی سمجھ لیا جائے ھم نے ھمیشہ کوشش کی ھے حقیقت سے قریب تر جانے کی لیکن کچھ چیزیں اللہ نے اپنے تک رکھی ھیں بیشک جو ھم نہیں جانتے وہ اللہ پاک جانتا ھے اللہ پاک ھم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔