عمران پرتاپ گڑھی فینس کلب، اشفاق اﷲ خان بریگیڈ اور ہم سب

ذاکر حسین

مکرمی !وطن عزیز میں سر گرم تخریب پسند عناصر کے بڑھتی شر انگیز سر گرمیوں ، اقلیتوں ودلتوں پر ہو نے والے ہجومی تشدداور نفرت انگیز بیانات کے خلاف اور مظلوموں کو ا نصاف دلا نے کے لیے گزشتہ دنوں دہلی کے جنتر منتر سے لیکر اعظم گڑھ کے سرائمیر تک سیاسی، سماجی وملی تنظیموں کے عہدیداران کارکنان نے زبردست احتجاجی مظاہرہ  کرکے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف جاری ہجومی تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدام کریں۔ عمران پرتاب گڑھی فینس کلب کے زیر اہتمام مظاہرین نے ملک بھرمیں بڑھتی لاقونیت کے خلاف اور گئو رکشکوں کے ذریعے ’موب لنچنگ ‘ کے بڑھتے سانحات کے خلاف آخری سانس تک لڑائی جاری رکھنے کا عزم کیا۔وہیں اعظم گڑھ کے نوجوانوں کے ذریعے نفرت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔

ہم نفرت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے والے اور تخریب پسند افراد کی شر انگیز سرگرمیوں پر قدغن لگانے کیلئے متحد ہونے کیلئے ہم ان سب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔عمران پرتاپ گڑھی فینس کلب کے زیرِ اہتمام منعقدکئے گئے مظاہرے میں شرکت کرنے والے رکن پارلیمنٹ اسرار لحق ، دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا، تیستا سیتلواڑ، سوامی اگنیش ویش ،شبنم ہاشمی، راشٹریہ علماء کونسل کے قومی ترجمان طلحہ رشادی، مسلم مہا سبھا کے قومی صدر عمران خان ، مسلم مہا سبھا کے قومی ترجمان شریف خلجی ،ممبر اسمبلی امانت اﷲخان، عام آدمی پارٹی لیڈر سنجے سنگھ، ممبر اسمبلی عبد اﷲاعظم خان ، ممبر اسمبلی نفیس احمد، ممبر اسمبلی فہیم احمد، سہیلی نامی تنظیم کی صدر شبانہ خان، سماجی کارکن نوید چودھری سمیت اس پرگرام میں شرکت کرنے والے سارے انصاف پسند لوگ قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے نفرت کے خلاف اٹھائی گئی آواز پر لبیک کہا۔ دوسری جانب اسی طرح کا پروگرام اعظم گڑھ کے سرائمیر میں اشفاق اﷲخان بریگیڈ کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا۔

پروگرام کو منعقدکروانے والوں سرفہرست اشرف اعظمی ، اشرف اصلاحی ،عرفات اعظمی ،ابو مشعل ،شہباز رشادی ،سراج احمداعظمی ،عدنان احمد،بلال شیخ، عادل اعظمی اور قاسم اعجاز سمیت دیگر سبھی نوجوانوں کی ہمت اور محنت کا اعتراف کرتے ہوئے ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ پرگرام میں شریک ہونے والے راشٹریہ علماء کونسل کے نورالھدیٰ، ایم آئی ایم کے عمران بنٹی، ایم آئی ایم کے کلیم جامعی ، ندیم خان ، اکمل سنجری ، رہائی منچ کے مسیح الدین سنجری ، طارق شفیق سمیت دیگر کا بھی ہم شکریا ادا کرتے ہیں کہ اس نازک وقت میں آپ سب نفرت کے خلاف متحد ہوئے ۔لیکن ہمارا اتحادصرف ایک دو دن کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے ہونا چاہئے۔ تمام مسلم سیاسی جماعتوں اور ملی تنظیموں کے لیڈران بالخصوص ایم آئی ایم ، پیس پارٹی اور راشٹریہ علماء کونسل کے کارکنان کے درمیان جو سرد جنگ چل رہی ہے وہ ختم ہونی چاہئے۔ خیال رکھیں ہم سب کے ایک امت، ایک قوم اور بھائی بھائی ہیں اور ہمارے مسائل ایک ہیں ۔ہم سب جب تک متحد ہو کر ان مسائل کے خلاف سینہ سپر نہیں ہونگے ان مسائل سے چھٹکارا نہیں پا سکتے ۔راشٹریہ علماء کونسل اورایم آئی ایم کے کارکنان درمیان سرد جنگ اور نفرت کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ اس کیلئے دونو ں جماعتوں کے کارکنان کو چاہئے کہ وہ بات چیت بالخصوص شوسل نیٹ ورکنگ سائٹ پر ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے  کاسلسلہ بند ہونا چاہئے۔

ہم شوسل نیٹ ورکنگ سائٹ پر حماقت جب غیر مسلم دیکھتے ہونگے تو وہ ہمارے اور اسلام کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہونگے ؟اختلاف کس میں نہیں ہوتا، نظریاتی اختلاف کس قوم میں نہیں ہے؟لیکن دیگر قومیں ہماری طرح حماقت کا مظاہرہ نہیں بلکہ ذہانت اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔آپ نے کتنے ہندئوں کو نریندر مودی ، امت شاہ ، یوگی سمیت دیگر کو لعنت ملامت کرتے دیکھا یاسنا ہے؟ شاید ایک بھی نہیں اگر اس طرح کے افراد کی تعداد ہے بھی تو مٹھی بھر ہے ۔لیکن وہ بھی ہماری طرح اپنے اختلاف اور سرد جنگ کو پردے سے باہر نہیں آنے دیتے۔راشٹریہ علماء کونسل ، ایم آئی ایم ، پیس پارٹی سمیت دیگر تنظیموں اورمسلم سیاسی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کریں ۔ہمیں اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے کارکردگی اعتراف کریں اور تعریف کے دو چار جملے بھی ادا کر دیجئے ۔یہاں ایک مثال دینا چاہوں گا ۔ابھی کچھ دنوں پہلے سیف اﷲنامی نوجوان کا دہشت گردی کے الزام میں انکائونٹر کر دیا گیا ۔

اس معاملے میں راشٹریہ علما ء کونسل کے قومی صدر نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس انکائونٹر کو غلط بتایا ۔ مولانا رشادی کے اس کام کی پورے ملک میں پذیرائی ہوئی، لیکن بعد میں کوئی اور نہیں اپنی قوم کے ہی افراد مولاناعامر رشادی کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے کچھ اور رنگ ونام دینے سطحی حرکت کرنے لگے۔   بیشک ایم آئی ایم ایک بہت ہی اچھی سیاسی جماعت ہے ، یہاں غور کرنے والی بات ہیکہ جو لوگ ایم آئی ایم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ بی جے پی کی کتنے ہندو مخالفت کرتے ہیں ۔دوسرے یہ کہ اگر ایم آئی ایم نے آپ کو بہت فائدہ نہیں پہنچایا ہے تو اس سے آپ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا ہے ۔یہی بات راشٹریہ علماء کونسل ، پیس پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعت کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ راشٹریہ علماء کونسل پیس پارٹی اور دیگر مسلم سیاسی جماعت نے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے ؟ ان جماعتو ں نے خالد مجاہد کا قتل نہیں کروایا ہے ۔ ان سیاسی جماعتوں نے آپ کو ریزرویشن سے محروم نہیں کیا ہے ۔ ان سیاسی جماعتوں نے آپ کو تعلیم میں پیچھے نہیں کیا ہے۔

یاد رکھیں ہمارے اتنے مسائل ہیں کہ اگر انہیں حل کرنے لگ جائیں تو برسوں بعد ان کو ہم حل نہیں کر سکیں گے۔ بہت مسائل ہیں۔آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی ہٹانا، مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں انکائونٹر اور گرفتاری ، تعلیم اور دیگر مسائل ہمیں دعوت ِفکر دیتے ہیں کہ ہم متحد اور سنجیدہ ہوں ۔سب سے اہم ہمارے درمیان اتحاد کا قیام ہے جیسا اتحاد کا مظاہرہ اہم نے کیا ہے ایسا ہمیشہ ہونا چاہئے ۔امید ہیکہ ہمارے اتحادکا یہ سفر ایک خوشگوار ماحول میں ایک طویل فاصلہ طے کرے گا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔