یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 سعود عثمانی شعر وادب کے حوالہ سے اس وقت ادبی دنیا کاایک نہایت معتبر نام ہے، جن کو ستھری شاعری کاپاکیزہ ذوق وراثت میں ملا، جو زکی کیفی صاحب مرحوم کے فرزند اور عالم اسلام کے مایہ ناز عالم دین، عظیم فقیہ ومحدث، باکمال شاعر وادیب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بھتیجے ہیں۔ سعود عثمانی جو حسن ِ بیان، اظہارِ خیا ل میں جدت وندرت کا انوکھا اسلوب رکھتے ہیں اور جن کی شاعری میں دلکشی، رعنائی، سچائی اور خوبصورتی کا سیل ِ رواں ہوتا ہے، ان کا ہی کہا ہوا یہ بہت ہی خوبصورت شعر ہر سننے والے کو فوری طور پر اپنی طرف کھینچتا ہے، اور دل ودماغ کو بے خود کرجاتا ہے۔ کتاب سے عشق ومحبت اور مطالعہ سے شوق ولگاؤ رکھنے والے ہر انسان کو اس شعر میں غیر معمولی صداقت نظر آتی ہے اور آنے والے دور کی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہے۔ بعض شعر انسا ن کے ذہن ودل پر نقش کرجاتے ہیں اور انسان اس کے معانی میں ڈوب جاتا ہے، یہ شعر بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جس کے اندر ایک تلخ حقیقت کو بہت ہی دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

موجود ہ دور سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور ایجادات واختراعات کا دور ہے اوربالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی حکمرانی کا دور ہے، اس دور نے انسان کو جہاں بہت ساری سہولتوں اور آسانیوں سے نوازا ہے وہیں بہت سی چیزو ں کا حقیقی لطف ومزہ چھین بھی لیا ہے، مشین کے اس دور میں انسان بھی مشین ہی کی طرح کاموں کی انجام دہی میں لگاہوا نظر آتا ہے، خوش طبعی، رنگارنگی اور دلچسپی کی جگہ اب مصنوعی اور ظاہری بے کیف زندگی نے لے لی ہے۔ چناں چہ مطالعہ اور کتب بینی کا جو ذوق ماضی میں تھا اب وہ رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے بلکہ اس خوبصورت دنیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ پہلے لوگ جہاں کتابوں کے مطالعہ اور شعر وادب کے چسکے سے اپنے اوقات کو یادگار بناتے اور ایام ِ فراغت کو قیمتی بناکر گزارتے تھے اب اس کی جگہ انٹر نیٹ، موبائل کے کھیلوں اور لایعنی مشغلوں نے اپنا سکہ بٹھا دیا ہے، اور بچہ بچہ پڑھنے کے بجائے کھیلنے میں لگاہواہے، اور نوجوان علم وتحقیق کے بجائے فضول چیزوں میں بہارِ عمر کو کھپارہے ہیں۔ کسی دور میں کتابو ں سے الماریوں کو سجائے رکھنا اور نئی نئی کتابوں سے اپنے ذوق کی تسکین کرنا باعث ِ فخر سمجھا جاتا تھا اب ایسے باذوق ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ملیں گے، کسی کا چشم کشا قول ہے کہ’’جب کتابیں سڑک کے کنارے رکھ کر بکیں گی اور جوتے کانچ کے شورروم میں تو سمجھ لینا کہ لوگوں کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔ ‘‘

 ترقی کے اس دور میں ہر چیز کمپیوٹرائز ہوچکی ہے، گھربیٹھے دور دراز کی چیزیں بھی آسانی کے ساتھ منگوالی جارہی ہے، جہاں کمپیوٹر کے ذریعہ بہت ساری سہولتیں پیدا ہوئی ہیں وہیں کتابوں کے مطبوعہ جلدیں ہاتھوں میں اٹھائے پڑھنے کے بجائے پی، ڈی، ایف کی شکل میں پڑھی جارہی ہیں، اس سے یقینا بڑی آسانی ہوگئی، اور نادر ونایاب کتابیں بھی دستیاب ہونے لگیں ہیں اور بغیر خرچ کے مفت میں کتابوں کو حاصل کرلیا جارہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے مطالعہ کا جو حقیقی لطف اور مزہ تھا وہ نہیں رہا، اس کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن علم اور کتابوں کی خوبصورت دنیا کی ویرانی کا گلہ شکوہ بھی بجا ہے۔ کتب خانے خالے ہوتے جارہے ہیں، طبع شدہ کتابیں صرف چند افراد کے علاوہ کوئی لینے کے لئے تیار نہیں، ہر کوئی مفت کی کتاب کو کمپیوٹر یا موبائل میں ڈال کر پڑھ لینے کی فکر میں ہے۔ ایسی دور میں سعود عثمانی کا یہ شعر ذہن ودل کو جھنجھوڑدیتا ہے اور آنے والے دور کی منظر کشی کرتا ہے کہ معلوم نہیں اب یہ حالت ہے تو آئندہ نسلیں کتابوں کو خرید کر پڑھے گی بھی یا نہیں، بلکہ مطبوعہ کتابوں کی جگہ کمپیوٹر اورموبائل کے اسکرین پر کتابوں کودیکھا جائے گا۔ اس لئے سعود عثمانی کا یہ شعر ایک مرتبہ پھر دوہرائیے، اور جس سادگی اوربے ساختگی میں جو اہم اور پتے کی بات کہی گئی اس کو محسوس کیجیے ؎

 کا غذکی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے 

 یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا حقیقی مزہ اس کی اصل شکل میں ہی ملتا ہے، کتابیں بھی ان ہی چیزوں میں سے ہیں، انسان کو بوقت ِ ضرورت تو مطالعہ کے لئے موجودہ سہولت بخش طریقہ کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ بھی باضابطہ مطالعہ کے لئے سابقہ طرز کو باقی رکھنا اور اسی انداز میں کتابوں سے لطف اندوز ہونا بھی چاہیے، یہ صرف ایک روایت کی پاسداری نہیں ہے بلکہ حقیقی لطف ومزہ کے حاصل کرنے کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ کتاب سفر وحضرکی بہترین رفیق ہے، کتاب کے ذریعہ علم ومعلومات کی دنیا میں رونق ہے، کتاب کے ذریعے عزت وعظمت ہے، انسان کبھی کتاب سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے ان گنت لوگ گزرے ہیں جنہیں کتابوں سے عشق تھا اور اپنی زندگی کا سب سے حسین تصور اس کو قرار دیتے کہ وہ گوشہ ٔ تنہائی میں بیٹھے کتاب کی مطالعہ میں غرق ہوں۔ ایسے بہت سے واقعات میں دو تین یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ ہمارے اندر بھی احساس ِ خفتہ بیدار ہوجائے او ر جذبہ ٔ تازہ نصیب ہوجائے۔

علامہ ابن جوزی ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ:میں اپنا حال عرض کرتا ہوں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی بھی طرح بھی سیر نہیں ہوتی، جب بھی کوئی نئی کتاب نظر آجاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔۔ ۔ اگر میں کہوں کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت سے زیادہ معلوم ہوگا۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتابوں کا مطالعہ کیا، جس میں چھ ہزار کتابیں ہیں۔ ( قیمۃ الزمن عند العلماء:61) فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے، وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب سرکاری کاموں سے ذرا فرصت انہیں ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔ علامہ ابن رشد ؒ کے بارے میں ہے کہ:وہ اپنی شعوری زندگی میں صرف دوراتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔ جاحظ کے بارے میں ہے کہ: وہ کتا ب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے لیتے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے۔ ( شاہراہ ِ زندگی پر کامیابی کاسفر: 19)

جاحظ کے بارے میں ہے کہ:کتابوں کے جمگھٹے میں پڑے رہتے کہ ایک دن آس پاس رکھی ہوئی کتابیں آگریں، مفلوج وبیمار جسم اٹھنے کی تاب کہاں لاسکتا تھا، اس طرح اپنی محبوب کتابوں میں ہی دب کر جان جان ِ آفریں کے حوالہ کردی۔ ( متاعِ وقت کاروان ِ علم 173) مولانا ابوالکلا م آزاد اپنے ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں :میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش ِ زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہوسکتا ہے؟جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا، رات کا وقت ہو، آتشدان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔ ( حوالہ ٔ سابق) علامہ انور شاہ کشمیری جب بیماری کے ایام میں تھے، اور غلط خبر افواہ بھی انتقال کی اڑ گئی تھی، اس موقع پر آپ کے شاگردوں علامہ شبیر عثمانی وغیرہ کا ایک وفد ملاقات کے لئے آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ نمازکی چوکی پر بیٹھے سامنے تکئے پر رکھی ہوئی کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہیں، اور اندھیرے کی وجہ سے کتاب کی طرف جھکے ہوئے ہیں، یہ منظر دیکھ سب حیران رہ گئے شاگردوں نے اس وقت مشقت نہ اٹھانے کی درخواست کی تو انہیں جواب دیا:بھائی ٹھیک کہتے، لیکن کتاب بھی ایک روگ ہے، اس روگ کا کیاکروں ؟

غرض یہ کہ ایسے بہت سے تاریخ ساز افراد گزرے ہین جنہیں کتابوں سے والہانہ تعلق تھا اور وہ ان کی محبوب دنیا تھی، آج کے اس دور میں ضرورت ہے کہ ہمار ا رشتہ کتابوں سے، مطالعہ سے استوار رہے، اور سہولتوں کے باجود ہم کتابوں کو پڑھنے والے اور باضابطہ لے کر مطالعہ کرنے والے بنیں، ہماری تھوڑی سی بے توجہی ایک عظیم خسارہ کا سبب ہوگی اور آنے و الی نسلوں کو ہم پاکیزہ ذوق دینے اور علمی میراث کو منتقل کرنے سے محروم رہیں گے۔ ہم نے سعود عثمانی ہی کے شعر سے اس تحریر کا آغاز کیا تھا اب اختتام بھی ان کے ایک خوبصورت شعر پر کرتے ہیں؎

 ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا

 مالک  اس  تنہائی  میں  تونے کتنا خیال ہمارا کیا

1 تبصرہ
  1. سید شاہ واعظ احمد کہتے ہیں

    جی بلکل صحیح فرمایا

تبصرے بند ہیں۔