عمل کا سراب!

عالم نقوی

ہم ویسے بھی اُصولی طور پر اِس کے قائل ہیں کہ اچھا کام جو بھی کرے اُسے کرنے دینا چاہیے۔ ہماری تنقید تخریب کے لیے ہر گز نہیں ہوتی۔ لیکن اَچھے کو اَچھا، بُرے کو بُرا، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہماری منصبی ذمہ داری ہے۔ ہمارا مقصد کسی کو تکلیف پہنچانا بھی نہیں ہوتا۔ ذاتی دشمنی ویسے بھی ہماری کسی سے نہیں ہے لیکن، جن کے ساتھ ہمیں سختی برتنے کی ہدایت کی گئی ہے ہم اُن کے ساتھ نرمی سے نہیں پیش آ سکتے۔ اور جن کے ساتھ ’رُحَما بینھم ‘ کا حکم ہے، اُن کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتے اور جو ایسا کرتے ہیں ہم ان کی حمایت  کا جوکھم تو کسی قیمت پر مول  نہیں لے  سکتے کیونکہ ہمیں تو ہر حال میں سچی گواہی دینے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ قریب ترین عزیزوں ہی کے خلاف کیوں نہ ہو !اور زیادتی  کرنے یا ’حد ‘ سے آگے بڑھنے کی اجازت تو ہمیں کسی حال میں نہیں دی گئی ہے۔

ہاں اندازے کی غلطی، سمجھنے کی غلطی، یا  کسی خاص اِضطراری مرحلے میں فیصلہ کرنے کی غلطی ہو سکتی ہے۔ سو اُس کے لیے ہم ’اِھدِ نَا ا لصِّرا ط َا لمُستقیم ‘،’رَبِّ زِدنی علما ً‘، ’رَبنَّا لا تُزِغ قلوبنا بعد اِذ ھَدَیتنَا ‘ اور ’یا اللہ اِھدِنا و نَجِّنا مِنَ ا لقَوم ِا لظّا لمین ‘ کی جوت جگائے رکھنے کے لیے ہمہ دم کوشاں رہتے ہیں ! پھر بھی  ہم انسان ہیں اور’ عدوِّ مبین‘ سے مفر تو ہمیں بھی نہیں ہے !کبھی نہ کبھی اُس خبیث کا  داؤں چل ہی جاتا ہے۔ سو اُس کے لیے ہم ’ ربنا فا غفر لنا ذنو بنا و کفِّر عنَّا سئیآ    تنا و توفنا معَ ا لا َبرار‘  کا ورد رکھتے ہیں  تا کہ موت تو کم از کم بہ حالت اسلام و ایمان ہی آئے اور عاقبت میں گھاٹا اُٹھانے والوں میں شمار ہونے سے بچ جائیں !

بے شک اَمر و نہی کرنے والے اپنا کام کر رہے ہیں، امن و شانتی کا سبق دینے والے بھی اپنے کام میں مشغول  ہیں لیکن ہر طرف جو دکھائی دے رہا ہے وہ یہی کہ بد اَمنی پھیل رہی ہے، عدم رواداری بڑھ رہی ہے، ذات، مذہب، نسل اور زبان کے تعصب میں اضافہ ہو رہا ہےغرض  کہ زمین فساد سے بھرتی جارہی ہے !ایسا کیوں ہے ؟ ہماری زبانوں میں اثر کیوں ختم ہو گیا ہے ؟ منافقت، بے عملی،بے ضمیری اور حرام سے عدم ِاِجتناب  کے سوا اس کا اور کوئی سبب ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہماری روزی اور غذا میں  طرح طرح کے حرام کی آمیزش ہو چکی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ ورنہ دعاؤں میں اثر اس طرح نہیں جاتا رہتا اور زبان سے  تاثیر یوں نہیں  رُخصت  ہوجاتی۔ ہم گناہ کبیرہ سے بچنے کی شعوری کوشش تو کرتے ہیں لیکن گناہان صغیرہ کو ’ معمولی ‘ سمجھ کر اُن کی طرف سے غفلت برتتے ہیں۔ نتیجے میں اُن کی کثرت بذات خود گناہ کبیرہ بن جاتی ہے۔

سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ جو کام ہرگز نہیں کرنے چاہئے وہ کر رہے ہیں بلکہ اسے فخر سمجھتے ہیں اور اسے خوبصورت نام دے رکھے ہیں اور ان کے لیے  حسین اصطلاحیں تک گڑھ لی ہیں ! اور جو کام بہر صورت و بہر قیمت جاری رہنے چاہئیں وہی مطلق چھوڑ رکھے ہیں، ان کی طرف تو پلٹ کے دیکھتے بھی نہیں۔ اور جو  مقصود ہے، جو مطلوب ِ اصلی ہے، جو نصب ا لعین ہے وہی گُم ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے، بلکہ بالکل ہی فراموش ہے۔

اسلام نافذ ہونے کے لیے آیا ہے۔ لیکن اس کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اقبال کی بلندی ضروری ہے۔ مگر ہماری تو ہوا اُکھڑی ہوئی ہے، اقبال کہیں گم ہو چکا ہے، قوت ناپید ہے، غضب خدا کا جنہیں اپنے کفر و شرک کی بدولت دنیا میں چھوٹا بن کے رہنا تھا، وہ، ہمیں چھوٹے بن کے رہنے پر مجبور کر رہے ہیں ! اور ہم ہیں کہ’’ ٹک ٹک دیدیم و دم نہ کشیدیم ‘‘میں مبتلا ہیں !

ہمارے معاملات خراب ہیں، تعلیم ہے تو حکمت نہیں۔ عقل ہے تو فراست نہیں۔ دَولت ہے تو شُکر و  اِنفاق نہیں۔ بے زَرِی  ہے تو صبرو توکل نہیں۔ فحاشی کے سیلاب کو روکنے اور اخلاقی قدروں کی بحالی کے لیے جو کام خود ہمارے کرنے کے ہیں وہ یا تو دوسروں کے سپرد کر دیے ہیں یا  گو شئہ  فراموشی میں ڈال رکھے ہیں۔ عورت کو کموڈیٹی بننے سے روکتے نہیں۔ سود سے بچتے نہیں۔ تعلیم وہ اپنا رکھی ہے جو نہ صرف غیر نافع علم پر مبنی ہے بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اخلاقی نظام تک کی دشمن ہے معیشت وہ اختیار کر رکھی ہے جو انسانیت، انصاف اور نظام عدل سے  بغض للہی رکھتی ہے۔

منافقین و مرتدینِ خلق کے دعوے البتہ بہت بڑے  ہیں۔ کوئی تعلیمی بیداری لا نے اور معاشی استحکام پیدا کرنے کا دعویدار ہے تو کوئی شانتی اور سد بھاؤنا کا نقیب بنا ہوا ہے۔ میمنے  بھیڑیوں  سے کہہ رہے ہیں کہ حضور ! ہم تو صدیوں سے ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے  آئے ہیں، ہم تو  ایک دوسرے کے ازلی بھائی ہیں !بھلا بھائی سے بندھو کو کیا خطرہ ؟ قومی یکجہتی زندہ باد۔ شانتی سد بھاؤنا پائیندہ باد!

تبصرے بند ہیں۔