عورتوں کی میراث قرآن و سنت کی روشنی میں

مولانا محمد غیا ث الدین حسامی

                اسلام ایک مکمل دستورِ حیات ہے ، اس نےزندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی کی ہے ،انسان کی پیدائش سے لے کر آخری آرام گاہ تک زندگی کے جتنے موڑ آسکتے ہیں ہر موڑ پر اسلام نے اپنے پیروکاروں کی رہبری کی ہے،اور ایسا عادلانہ اور منصفانہ نظام پیش کیا ہے کہ دنیا کے مفکرین و دانشور انگشت بہ دنداں ہیں ، دبے لفظوں میں اسلام کے محاسن اور اس کی خوبیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں ،اسلام نے جہاں انسان کی زندگی کے تمام مسائل کا حل بتایا ہے وہیں موت کے بعد کے مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے ، انسان کی موت کے بعد ایک اہم مسئلہ اس کے املاک و جائداد کی تقسیم کا ہے ، شریعت کے دیگر احکام کے مقابلے میں میراث کو یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں بذاتِ خود اس کی تفصیلات اور جزئیات ذکر کی ہیں، احکام میراث جس کو قرآن میں مختلف مقامات پر جتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے نماز ، روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں کئے گئے ہیں ،پھر اس کو فریضۃ من اللہ اور حدود اللہ سے تعبیر کیاگیا ہے اس سے شریعت میں قانون ِ میراث کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ،آج نام نہاد اور خود ساختہ مفکرین و دانشور جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہر چیز کو نعمت ِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور اس کو موضوع ِبحث بنانے کو اور اس پرایمان بالغیب لانے کو روشن خیالی کا لازمہ سمجھتے ہیں ، اسلامی تعلیمات پر ہرذہ سرائیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اور اپنی محدود اور کوتاہ عقل سے جھوٹی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اسلام کے بعض احکام کو قابل ترمیم و تنسیخ قرار دیتے ہیں ، ان کا اسلام پر ایک اعتراض یہ ہے کہ اس نے صنفِ نازک کے ساتھ ناانصافی کی ہے ، اور اس نے ایسے اصول و قوانین تشکیل دیئے ہیں جن سے عورتوں کی تذلیل اور ان کی حق تلفی ہوتی ہے،اور میرث کے معاملہ میں اس نے عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ میں نصف رکھا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراض یا پروپیگنڈہ ان لوگوں کی طرف سے کیا جارہا ہےجن کے مذہب میں عورتوں کو وراثت میں کوئی حق یا حصہ نہیں دیا جاتا ہے، بلکہ عورتوں کومملوکہ چیزوں کی طرح منتقل کیا جاتا ہے اور اگر کوئی مرد مرجاتاہے تو اس کے گھرکے مرداس کی بیوی کے مالک اسی طرح بن جاتے ہیں جس طرح اس کے ترکہ کے مالک بن جاتےہیں ،عورت کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شادی کرلیتےہیں اور اسے کچھ بھی مہر نہیںدیتےہیں ، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کسی اور کے ساتھ کردیجاتی ہے ،اور مہر خود کھالیتےہیں ، یا عمر بھر اس کو بیوہ رہنے پر مجبورکرتے ہیں، اور کبھی سوتیلا بیٹا بھی اس کے ساتھ جبری شادی کرلیتاہےاور اس کا مالک اسی طرح بن جاتا ہےجس طرح اپنے باپ کے ترکہ کامالک بن جاتا ہے ،لیکن دیگر مذاہب کے مقابلے میں یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے عورتوں کو میراث میں مردوںکے ساتھ حصے مقرر کئے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں باضابطہ اعلان کیا گیا’’ لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا‘‘ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میںمردوں کا حصہ ہے اوران کے ترکے میںعورتوں کا بھی حصہ ہے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، اور یہ حصے (خدا کی طرف سے) مقررہ ہیں( النساء 7)اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالی نےعورت پر ہونے والے ظلم کو روکنےلئے فرمایا :’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ‘‘ اے ایمان والو ! تمہارے لئے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو ، انہیں اس لئے روکے نہ رکھو کہ جو (مال) تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں ، ان کے ساتھ اچھے طریقے سےزندگی بسر کرو ، اگرچہ تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو ، اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائی رکھی ہو (النساء)حقیقت یہ کہ دنیا میں حقوق نسواں کا اولین علمبردار اگر کوئی مذہب ہے تو وہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو پستی سے نکال کرنے بلندیوں پر چڑھا یا اور جس نے ہر شعبہ میں عورتوں کے حقوق کی نمائندگی کی ہے۔

                 علم میراث سے تھوڑی بہت جانکاری رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ وراثت سے حصہ پانے والے اصحاب ِ فرائض میں مرد کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے ،جہاںپر چار مرد:باپ ، دادا، ماں شریک بھائی ، شوہر کو حصہ دیا گیا ہے تووہی اٹھ عورتوں:بیوی ، بیٹی ، پوتی ، حقیقی بہن ، ماں شریک بہن، باپ شریک بہن ، ماں ، دادی یا نانی کو حصہ دیا گیا ؛ حقیقت یہ کہ اسلام نے عورت کو وہ مثالی حقوق دیے ہیں جو آج تک کوئی تہذیب یا کوئی مذہب اسے نہیں دے سکا،اسلام سے پہلے دنیا میں مالی نظام دولت کو جمع کرنے پر تھا ، چند افراد کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت رہا کرتی تھی ، مال ودولت کو جمع کرنے کا ایک سبب قانونِ میراث بھی تھا ، یہودیوں کے یہاں پوری میراث صرف بڑے لڑکے کو مل جاتی تھی ، عورتوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا، ہندوؤں کے یہاں میراث میں عورتوں کا کوئی حق نہیںتھا ، زمانہ جاہلیت میں میراث کے حقدار وہ لوگ سمجھے جاتے تھے جو لڑنے اور دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، اسلئے خواتین اور نابالغ بچوں کو ترکہ میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتاتھا ، اسلام نے ایک ایسے نظام معیشت کی بنیاد رکھی جس میں دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو ، اس اصول کو جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں برتاگیا ، وہیں قانونِ میراث میں بھی اس کو ملحوظ رکھا گیا ، مردوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی میراث میں حق دیا گیا اور تقسیم ِ میراث کا ایک ایسا متوازن اور منصفانہ نظام مقرر کیاگیاکہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی؛ بلکہ آج مغرب سے مشرق تک مختلف ملکوں اور قریوں کے قانون میں اسلام کے قانونِ میراث سے خوشہ چینی کی گئی ہے،اسلام نے میراث کے حوالہ سے کیسا متوازن اور منصفانہ نظام پیش کیا ہے آیئے ذیل میںاس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:میراثی احکام کا مختصر جائزہ لینے پر یہ پتہ چلتا ہےکہ عورت کبھی مرد کے برابرحصہ پاتی ہے تو کبھی اس سے بھی زیادہ حصہ کی حقدار ہوتی ہے، اور کچھ صورتوں میں تو عورت حصہ پاتی ہےلیکن مرد محروم رہ جاتا ہے ، جب کہ عورت صرف چار صورتوں میں مرد سے کم حصہ کی حقدار ہوتی ہے ،کچھ مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے مثلاً:

                ٭  وہ صورتیںجن میں عورت اور مرد برابر برابر حصہ پاتے ہیں جیسےاگر کسی شخص کے وارثین میں اولاد اور والدین ہوں تو والدین میں دونوں کو چھٹاچھٹا حصہ ملے گا، جیسے اللہ کا ارشاد ہے :’’” وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَد”‘‘(النسا11)اور اگر والدین کے ساتھ ساتھ بیٹا بھی ہو تووالد کو سدس اور والدہ کو سدس ملے گا اور باقی بیٹے ہی ملے گا ، اس صورت میں والدہ کو والد کے برابر حصہ مل رہا ہے ۔

                 کلالہ کی صورت میں اخیافی (یعنی ماں کی جانب سے ) بہن بھائی کو برابر برابر حصہ ملے گا ، کلالہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کا باپ بیٹانہ ہوتو اگر کسی ایسےشخص کے وارثین میں اس کی ماں کی جانب سے دو یا اس سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو انہیں ثلث حصہ ملے گا جس میں مرد اور عورت سب برابر شریک رہیں گے ، جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :” وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ” ‘‘اور اگر مورت مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا بھا ئی یا بہن ہوتو ان کو سدس (چھٹا حصہ ) ملے گا اور اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوتو وہ تمام ایک ثلث ( تہائی حصہ ) میں برابر  برابر شریک ہوںگے ( النساء13)  اس صورت میں بھا ئیوں اور بہنوں کو برابر برابر حصہ مل رہا ہے ۔

                ٭اور وہ صورتیںجس میں مرد سے زيادہ حصہ عورت کو ملتا ہےجیسے اگر کسی شخص نے اپنے وارثین میں بیوی ، بیٹی ، ماں اور ایک حقیقی بھائی چھوڑا توپورے ترکہ کوچوبیس 24مساوی حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے تین حصے بیوی کو، چار حصے ماں کو ، پانچ حصے حقیقی بھائی کو ، اور بارہ حصے بیٹی کو ملیں گے ، یہاں پر عورت (یعنی بیٹی ) کو مرد ( یعنی حقیقی بھائی ) سے زیادہ حصہ شریعت نے دیا ہے،اسی طرح اگر کسی عورت نے اپنے وارثین میں شوہر ، بیٹی ،حقیقی بہن چھوڑی ہے تو اس کے ترکہ کو چار مساوی حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے شوہر کو ایک حصہ ، بیٹی کو دو حصے اورحقیقی بہن کو ایک حصہ ملے گا ۔اس صورت میں بھی عورت (یعنی بیٹی ) کو مرد ( یعنی شوہر ) سے زيادہ حصہ شریعت نے مقرر کیاہے ۔

                ٭وہ صورتیںجس میں عورت کو حصہ ملتا ہے اور مرد کو کچھ نہیں ملتا مثلاًاگر کسی مرد نے اپنے وارثین میں ماں ، دو بیٹیاں ، دو علاتی بہنیں (یعنی باب کی جانب کی بہنیں ) اور ایک اخیافی بھائی(ماں کی جانب کا بھائی) چھوڑا ہے تو اس کا ترکہ بارہ مساوی حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں ماں کو دو حصے اور بیٹیوں کو آٹھ حصے ( یعنی ہر ایک کو چار چار حصے ) ، اور دو علاتی بہنوں کو ایک ایک حصہ ملے گا ، جبکہ اخیافی بھائی کو علاتی بہنوں کی موجودگی کی وجہ سے کچھ نہیں ملے گا،اسی طرح اگر کسی عورت نے اپنے وارثین میں شوہر ، بیٹی ، پوتا ، اور ماں باپ چھوڑی ہو تو اس کا ترکہ تیرہ مساوی حصوں میں تقسیم ہوگا ، جن میں سے ماں کو دو حصے ، باپ کو دوحصے ، شوہر کو تین حصے ، بیٹی کو چھ حصے ، جبکہ پوتا محروم ہوجاتا ہے۔

                ٭اور وہ صورتیں جن میں عورت کو مرد سے کم حصہ ملتا ہے جیسے:اگر کسی کےمرد یا عورت کے وارثین میں بیٹا اور بیٹی ہو ، تو مرد کو عورت کے مقابلہ میں  دو گنا حصہ ملتا ہے ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے :’’” يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْن…” اللہ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر ( مرد ) کے لئے مؤنث ( عورت ) کے حصہ سے دو گنا ہے ( النساء11)یا وارثین میں اولادبالکل نہ ہو بلکہ بہن اور بھائی ہو ں، تو مرد کو عورت کے حصہ سے دوگنا حصہ ملے گا ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے ’’ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْن‘‘( النساء176)

                اسی طرح زوجین( شوہر بیوی) کی میراث میںشوہر کو بیوی سے دو گنا حصہ ملتا ہے ، جیسےاگر کوئی عورت مرجائے اور اسے کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو اس کے ترکہ سے نصف ملے گااور اولاد ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ملے گا جبکہ اگر مرد مرجائے اور اسے کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو اس کے ترکہ سے چوتھا حصہ ملے گا اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملے گا جیسے اللہ کا ارشاد ہے ’’ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ” (اور تم شوہروں کے لئے تمہاری بیویوں کے ترکہ میں سے نصف ہے اگر کوئی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو تمہارے لئے ربع ہے وصیت اور قرض کو ادا کرنے کے بعد ، اور بیویوں کے لئے ربع ہے تمہارے ترکہ میں سے اگر کوئی اولاد نہ ہو ، اگر کوئی اولاد ہو تو بیویوں کے لئے ثمن ہے وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (النساء12)

                اگر کوئی مرد اپنے پیچھےماں ، باپ اور ایک بیٹی چھوڑے تو اس کے ترکہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے اس کی بیٹی کو نصف ( یعنی تین حصے ) اور اس کی ماں کوچھٹا( یعنی ایک حصہ) اور اس کے باپ کوچھٹا حصہ کے ساتھ باقی ایک حصہ بھی عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا، اس صورت میں بھی  مرد (یعنی باپ ) کو عورت ( یعنی ماں ) سے دو گنا حصہ ملتا ہےاور بیٹی کو باپ کے مقابلہ میں زیادہ مل رہا ہے ۔

                یہاں پر ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ مرد کو عورت سے دوگنا حصہ کیوں دیا جاتا ہے ؟اس کے کئی اسباب ہیں جیسے :مرد پر مالی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مثلاً اس کے کاندھوں پر بیوی ، بچوں کے اخرجات کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ، اسی طرح محرم رشتہ داروں کی ذمہ داری بھی اس کے سر رکھی گئی ہے ، جبکہ عورت کے کاندھے کو مالی ذمہ داریوں سے بوجھل نہیں کیا گیا ، بلکہ شادی سے پہلے اس کےاخراجات کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے ، باپ موجود نہ ہونے کی صورت میں بھائی پر اس کے ضروری اخراجات پورا کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ، شادی کے بعد شوہر کے ذمہ اس کا نان و نفقہ کا انتظام رکھا گیا ہے ، شوہر کےانتقال ہوجانے کی صورت میںبیٹوں کو ماں کی ضروریات پورا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے ؛بلکہ اگر گہرائی سےجائزہ لیا جائے تو شریعت نے نہ صرف اس کو مالی ذمہ داریوں سے سبگدوش کیا ہے ؛بلکہ مہر کے ذریعہ ایک معتدبہ رقم شوہر کی جانب سے دے کر بھی اس پر احسان کیا ہے،لہذا یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہ ہوگا کہ دین اسلام نے عورت پرتقسیم میراث کے معاملہ میں ظلم و زیادتی کی ہے یہ سراسر ناانصافی اور اسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈہ  ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔