یوپی میں بدلتا سیاسی منظر نامہ

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

چناوی سمر میں جوڑ توڑ، پارٹی بدلنا وخیمہ بندی کرنا عام ہے۔ الیکشن جیتنے کیلئے نئی نئی ٹیکنکس کا استعمال، نعرے گڑھے جاتے ہیں۔ تجربہ کار سیاست داں پارٹی کی کارکردگی عوام کو بتانے اور ووٹروں کو لبھانے کیلئے منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کا خاندانی جھگڑا بھی انتخابی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ذریعہ ایک ساتھ کئی نشانے سادھے گئے ہیں۔ اشتہارات اور ہوڈنگ جو کام نہیں کرپائے وہ اس ڈرامے نے کردیا۔ سماج وادی پارٹی جو چرچا سے باہر ہوتی جارہی تھی وہ عوام کی گفتگو کا حصہ بن گئی۔ اس نے میڈیا میں خوب سرخیاں بٹوریں، الیکٹرانک میڈیا میں اسے اتنا وقت ملا جتنا وہ کروڑوں خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کرسکتی تھی اور سب سے بڑی بات، تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی لوگوںکا دھیان سرکار کی کمزوریوں سے ہٹ کر چچا بھتیجے کی لڑائی پرٹک گیا۔ لا اینڈ آرڈر، فرقہ وارانہ فسادات، جن کی تعداد300سے زیادہ ہے، کرپشن، لینڈ مافیا اور غنڈوں کی چاندی، فرقہ پرستوں کوکھلی چھوٹ، بھکمری، غریبی، کسانوں کے مسائل اور انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں سے بھی عوام کا دھیان بھٹکا دیاہے۔
سپا کا اندرونی اختلاف ایک طرف جہاں اینٹی ان کمبینی کو کم کرنے کی کوشش ہے وہیں اس نے شیوپال یادو کے وزیراعلیٰ بننے کے خواب پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہ چال کچھ اس طرح چلی گئی کہ شیوپال چاروںخانے چت ہوگئے اور چاہ کر بھی وہ نیتا جی ملائم سنگھ یادو کی مرضی کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ نیتا جی خود ان کے ساتھ ہیں۔ اکھلیش سے الجھنے کی وجہ سے شیوپال پارٹی میں کمزور ہوئے ہیں۔ وہیں امر سنگھ اور مختار انصاری سے ان کے رشتوں کے میڈیا میں چھا جانے سے شیوپال کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ سماج وادی پارٹی اس اٹھاپٹک سے یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئی ہے کہ اس نے بی جے پی سے ہمدردی رکھنے کیلئے رام گوپال یادو کو باہر کا راستہ دکھا دیا ہے۔ پارٹی کی پھوٹ میں بی جے پی کی سازش اور اس میں امر سنگھ کا رول بعد میں سامنے آسکتا ہے ۔اس وقت سپا یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ زمین جائیداد پر قبضہ کرنے والوں اور بدعنوانوں کو پسند نہیں کرتی۔
اکھلیش یادو کی وکاس رتھ یاترا ، رجت جینتی تقریبات سے ریاست کے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پارٹی کی نظرآنے والے ریاستی انتخابات پر ہے۔ پارٹی کے ذمہ داروں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن رتھ یاترا کی شروعات میں وزیراعلیٰ نے منچ سے ملائم سنگھ کا نام تو لیا مگر شیوپال کا نام نہیں پکارا گیا۔ رتھ پر لگائی گئی تصویروں سے بھی شیوپال غائب تھے۔ البتہ رجت جینتی پر شیوپال نے اکھلیش کی کامیابی کی خواہش ظاہر کی۔ اکھلیش یادو نے منچ پر شیوپال کے پائوں چھوکر آشیرواد لیا۔ انہوںنے کہاکہ اگر ہاتھ میں تلوار دیتے ہو تو اسے چلانے کی اجازت بھی دو۔ مقصد صاف تھاکہ جب ریاست کا وزیراعلیٰ بنایا ہے تواسے کام کرنے دو۔ وہ یہ جتانے سے نہیں چوکے کہ ان کے ترقی کے کاموں میں سپا کے بوڑھے روڑا بن رہے ہیں جبکہ وہ ریاست کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
رجت جینتی کے موقع پر جنتا پریوار کے ایک منچ پر آنے سے مہا گٹھ بندھن کی قیاس آرائی ہو رہی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ گٹھ بندھن بہار کی طرز پر ہوگا، اس میں کانگریس شامل رہے گی۔ شیلا دکشت کا وزیراعلیٰ کیلئے اکھلیش یادو کو پہلی پسند بتانا بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ یہیں رک کر گٹھ بندھن کے مقصد اور اس میں شامل دلوں کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ یوپی میں وفاق برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہورہا ہے۔ ریاست میں اس کے خلاف شدید اینٹی ان کمبینی پائی جاتی ہے۔ جبکہ بہار میں نتیش کمار کے خلاف ایسا ماحول نہیں تھا۔ دوسرے ان کے ساتھ کانگریس تیسرے پارٹنر کے طورپر تھی اور اسی حیثیت میں اس میں شامل رہی۔ یوپی میں سماج وادی کی ہم پلہ اگر کوئی پارٹی ہے تو وہ بی ایس پی ہے۔ اس سے وفاق ہوتا تو یہ بہار کی طرز پر وفاق مانا جاسکتا تھا۔ یہاں گٹھ بندھن میں شامل ہونے والی پارٹیاں آرایل ڈی، کانگریس، جنتادل ایس، جے ڈی یو اور آرجے ڈی ہوسکتی ہیں۔ اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کی آج کوئی زمین نہیں ہے۔ اس کے جاٹ ووٹ بی جے پی میں جاچکے ہیں اور مسلمانو ں کو خود اجیت سنگھ نے چھوڑ دیا ہے۔ جنتا دل ایس جس کے ذمہ دار دیوگوڑا جی ہیں یوپی میں ان کی پارٹی ہی نہیں ہے۔ رہا سوال آرجے ڈی اور جے ڈی یوکا جیسے پروانچل ووٹوں کیلئے جوڑا جارہا ہے۔ یہ کتنے کارگرہوںگے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ کانگریس اس مقام پر ہے جسے فائدے یا نقصان سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ایسی حالت میں یہ گٹھ بندھن یوپی کے عوام کو خاص طورپر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی سازش ہے۔
بھاجپا جانتی ہے کہ وہ یوپی میں ترقی(وکاس) کے مدے پر چنائو نہیں جیت سکتی۔ بھلے ہی وہ یہ کہہ رہی ہے کہ یوپی کو نہ بووا ٹھیک کرسکتی ہے اورنہ بھتیجا۔ بھاجپا کرے گی وکاس۔ امت شاہ نے سماجوادی کے گڑھ اٹاوہ میں ریلی کرکے یہ پیغام دیا۔ انہوںنے پہلی مرتبہ یہاں غیر یادواوبی سی ووٹروںکو ساتھ لانے کی کوشش کی۔ امت شاہ نے ریلی میں کہا کہ مایاوتی کے زمانے میں ریپ کے واقعات میں 161فیصد بڑھوتری ہوئی تھی۔ بی جے پی کو یہ بھی معلوم ہے کہ یوپی میں ذات برادری کی سیاست اس کے کام نہیں آئے گی۔ اس لئے 3نومبر کی سپا کی وکاس رتھ یاترا کا جواب دینے کیلئے اس نے 5نومبر سے پریورتن (بدلائو)یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھاجپا یہاں راشٹر واد کے نعرے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ رام جنم بھومی، رام مندر اس کا حصہ ہے۔ لہٰذا وزیراعظم مودی نے وجے دشمی کے موقع پر لکھنؤ میں رام کے نعرے لگوائے۔ آر ایس ایس نے یوپی میں رام مندر کو مدعا بنانے کی بات کہی ہے۔ لیکن بھاجپا آنے والے انتخابات میں اسے چناوی مدعا بنانے سے انکارکررہی ہے۔ مرکزی وزیر مہیش شرما ایودھیا میں رامائن میوزیم بنانے کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں۔ اس پر مرکزی حکومت 225کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ جبکہ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ مدعاختم ہوچکا ہے لیکن ہر الیکشن سے پہلے اسے بھنانے کیلئے بی جے پی کچھ نہ کچھ کرتی ہے۔
رامائن میوزیم پر بی جے پی سرکار نے اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ریاست کی ترقی کے کاموں کیلئے چھوٹی موٹی رقم ریلیز کرنے میں بھی وہ آنا کانی کرتی رہی ہے۔ نیتی آیوگ بننے کے بعد اس نے ریاست کے حصہ کا نو ہزار کروڑ روپیہ کاٹ لیا، اوپر سے مختلف پروجیکٹس کیلئے رقم کے بھگتان میں دیر کی اور انہیں بیچ میں ہی اٹکا دیا۔ حزب مخالف بی جے پی پر مذہب کے نام پر سیاست کا الزم لگارہا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی رامائن میوزیم ان لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش بتارہی ہے جو متنازعہ جگہ پر جلد از جلد رام مندر بنوانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں سماج وادی پارٹی کیوں پیچھے رہے۔ اس نے بھی اعلان کیا ہے کہ 22کروڑ روپے سے رام کتھا پر انٹرنیشنل تھیم پارک بنایا جائے گا۔ بی جے پی کاتو اول وآخر فرقہ وارنہ بنیادوں پر الیکشن لڑنے میں ہی فائدہ ہے لیکن سماجوادی پارٹی کو تو ریاست کے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے اور نئی نسل کے روزگار کی فکر کرنی چاہئے۔
دراصل بی جے پی چاہتی ہے کہ اگر اسے یوپی میں کامیابی نہ ملے توپھر اس کی بی ٹیم یعنی سپا کامیاب ہو۔ اسی لئے وہ بی ایس پی کے بجائے سماج وادی کو اپنے مقابلے میں دکھا رہی ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اکھلیش کو نوجوان لیڈر کے طورپر پروجیکٹ کیا جائے۔ان کے بارے میں عوام
کو بتایا جائے کہ اکھلیش پڑھے لکھے، جو جھارو، ایمان دار، صاف شبیہ والے ترقی پسند نوجوان ہیں۔ ان کے آنے سے ریاست کی ترقی ہوگی۔ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا خاندانی جھگڑا ہو یا مہا گٹھ بندھن یہ 2019 میں بھاجپا کی کامیابی اور یوپی میں دلت، مسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش ہے۔ کیوںکہ اگر دلت، مسلم اتحاد کا فارمولہ یوپی میں کامیاب ہوگیا تو 2019میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا جیتنامشکل ہے۔
اس بار یوپی میں مایاوتی کی ناکامی سے ہندوتوا کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ کیوںکہ دلتوں پر ان کی پکڑ کمزور ہوگی۔ جس کی وجہ سے وہ بی جے پی کے ساتھ جاسکتے ہیں یا پھر بھاجپا ان کے درمیان اپنی پسند کی لیڈر شپ کھڑی کرسکتی ہے۔ اترپردیش میں سیاسی منظر نامہ جس طرح بدل رہا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کئی لوگ مایاوتی کی پچھلی سرکار سے ناراض ہوں۔ ان پر لگے بدعنوانی، آمدنی سے زیادہ جائیداد کے الزا مات ناپسند ہوں، یا مسلم علاقوں کے بدلے ہوئے نام آپ کو کھٹک رہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کئی لوگوں کو مایاوتی کی باتیں سمجھ نہ آرہی ہوں لیکن سیاست میںفیصلہ ہمیشہ عقل سے لیا جاتا ہے دل سے نہیں، اورنہ ہی جذباتی ہوکر۔ جب لالو اور نتیش ایک دوسرے کے شدید مخالف ہوکر ایک ساتھ آسکتے ہیں تو کیا ریاست کی بھلائی کیلئے مسلمان کڑوا گھونٹ نہیں پی سکتے؟ لمحوں کی غلطی کی سزا کبھی کبھی بہت دیر تک بھگتنی پڑتی ہے۔ کچھ بھی نہیں تو اتنا تو مان ہی سکتے ہیں کہ بی ایس پی کی سرکار میں مجرموں کے حوصلے پست رہتے ہیں اور فسادی اپنی حد میں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مایاوتی بدلتی سیاست کا مقابلہ کیسے کرتی ہیں۔ الیکشن دور ہے کئی لوگ آپ کے اپنے بن کر آئیںگے لیکن آپ کو فیصلہ اپنے اور قوم کے حق میں لینا ہے۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔