ابھی کتنا ستم ہے جو باقی ہے

محمد فرازاحمد

شام کو والدہ نے مارکیٹ بھیجا کچھ سامان لانے کے لئے، مارکٹ پہنچ کرساہوکار کی دکان پر سے سامان کی خریداری کر رہا تھا کے ایک معصوم سابچہ ہاتھ میں نوٹ لئے آیا اس کے پیچھے پیچھے ایک ضعیف العمر شخص، چہرہ بوجھا ہوا ، آنکھ ترچھی، جو کہ اس لڑکے کے والد تھے وہ بھی ساتھ آئے۔ اس لڑکے نے دھیرے سے دکاندار سے کہا کہ ایک تیل کی پاکٹ دیجئے، دکاندار نے لڑکے کے ہاتھ میں نوٹ دکھ لیا اور کہا کہ بیٹا 500 کا نوٹ نہیں چلے گا۔ جیسے ہی دکاندار نے یہ بات کہی تب اس لڑکے اور اسکے باپ کا چہرہ انتہائی رنجیدہ ہوگیا اور وہ پانچ سو کی نوٹ کو دیکھنے لگے شائد ملامت بھی کرنے لگے۔ مَیں اس نظارے کو دیکھ کر انتہائی غمزدہ ہوگیا، پھر لڑکےکے والد نے سہمے ہوئے انداز میں دکاندار سے کہا کہ ’’گھر میں پکانے کےلئے تیل نہیں ہے اسلئے خریدنے آیا ہوں‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ سننے ہی تھے کہ آنکھیں اچانک نم ہوگئی، درد ایسا تھا کہ ناقابلِ بیان ہے، تحریری کے دوران بھی اس منظر نے آنکھیں اشکبار کردی۔ معصوم بچہ، شکست خوردہ باپ آنکھوں میں کچھ لئے دکاندار کو اور اس نوٹ کو دیکھنے لگے۔ اس منظر کو دیکھ کر خیال آیا کہ جو غریب کل تک سو روپئے رکھ کر بھی فخر محسوس کرتا تھا آج عالم یہ ہیکہ پانچ سو کا نوٹ ہونے کے باوجود گھرمیں چولھا سلگنے کو نہیں۔۔۔۔۔ جب وہ واپس جانے لگے تب دکاندار کو بھی رحم آگیا اور اس نے واپس بلاکر ان سے پانچ سو کا نوٹ لیا اور سامان دیکر روانہ کردیا۔
اس سارے منظر نے ایک دم سے ذہن کو متذبذب کردیا، وہ چہرے ذہن میں نقش ہوچکے ہیں جو کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لیتے، پتہ نہیں ملک بھر میں ایسے کتنے لاچار ہونگے جن کے گھر ان پانچ سو اور ہزار کے نوٹ کے ہونے کےباوجود بھی چولھا جلنے سے خاصر ہیں؟ کتنے ایسے لوگ ہونگے جو مسافر ہیں اور اس ایمرجنسی سے سخت پریشانی کا سامنا کررہے ہونگے؟ یقیناًحکومت کا یہ اقدام صحیح ہوسکتا ہے لیکن ایسی ایمر جنسی کیا آن پڑی تھی کہ راتوں رات خوشحال گھرانوں میں مایوسی لالی گئی، دووقت پیٹ بھرنے والوں کو دن بھر کےلئے بھوکا کردیا گیا؟ یقیناً یہ چجھنے والے سوالات کسی بھی سنجیدہ و باشعور شہری کو سونے نہیں دینگے۔
‏تو آ تو سہی ، بتلا تو سہی
ابهی کتنا ستم ہے جو باقی ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔