’عکس یوسف‘ کی تقریب رسم اجراء

’بخاری فاؤنڈیشن دوحہ قطر‘ کے زیر اہتمام ہوٹل ریڈیسن بلو میں مرحوم سید یوسف کمال بخاری کے مضامین کا مجموعہ ’’عکس یوسف‘‘ کی تقریب رسم اجراء عمل میں آئی۔ تقریب میں ہندستان کے علاوہ بیرون ملک سے بھی اردو کے دانشوروں نے شرکت کی اور ممتاز ادیب، محقق، مورخ اور ماہر آثار قدیمہ یوسف کمال بخاری کی حیات وخدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ وزارت کھیل کود اور ثقافت کے اسٹنٹ ڈائریکٹر جناب فیصل السویدی اور محترمہ منی المجلی( رئیس قسم) کی حاضری نے پروگرام کے وقار کو ایک مقام عطا کیا۔

محترمہ اوشا روی شنکر نے انتہائی خوبصورت انداز میں پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ سیمینار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بخاری فاؤنڈیشن کے چیئرمین محمدصبیح بخاری نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ اور بخاری فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے اپنے والد سید یوسف کمال بخاری کی حیات و خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اور کہا کہ میں نے تیس سال پہلے ہندوستان کو خیرباد کہہ دیا تھا اور میرے والد بائیس سال قبل اس دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ مجھے اپنے والد کے اس اہم علمی اثاثہ کا بہت دیر بعد پتہ چلا اور اس بات پر مجھے پشیمانی بھی ہے اور اپنی کمتری کا احساس بھی، کہ میں اپنے پہلو میں بیش قیمت علمی خزانہ رکھتے ہوئے بھی اس سے نابلد تھا۔ میں شکر گذار ہوں اس خدائے وحدہ لاشریک کا کہ جس نے مجھے دیرسے ہی سہی مگر اس کام کو کرنے کی توفیق بخشی۔ محمد صبیح بخاری نے ندیم ماہرؔ کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک بے لوث اور مخلص دوست جو خود ایک اردو اسکالر ہیں انہوں نے میری اس ذمہ داری کا بیڑا اپنے سر لیا اور انتہائی انتھک محنت او رجانفشانی سے محض چھ ماہ میں یہ کارہائے مشکل بآسانی کردیا۔ صبیح بخاری نے اس موقع پر پروفیسر اختر الواسع کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا آپ کے مضمون نے کتاب کی افادیت کو جہاں دوبالا کیا ہے وہیں آپ کی موجودگی نے آج کے پروگرام کو ایک وقار عطا کیا ہے۔

  مرتب ومحقق ’’عکس یوسف‘‘ ندیم ماہر ؔنے یوسف کما ل بخاری کی ادبی نگارشات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یوسف کمال بخاری ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ یوسف کمال بخاری نے نہ صرف اردو میں تحقیقی مضامین لکھے ہیں بلکہ انہوں نے اردو کے ساتھ انگریزی، فارسی اور فرنچ زبان میں جو تحقیقی کام کیا ہے وہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔ ان مضامین کی کل تعداد دوسو پچاس ہے۔ ندیم ماہرؔ نے یوسف کمال بخاری کو عہد ساز شخصیت سے تعبیر کیا۔ اورمضامین کی اہمیت پر بولتے ہوئے کہا کہ اردو رسم الخط اور فن خطاطی پر ان کے ذریعہ کئے گئے تحقیقی کام کوتعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔

 مہمان اعزازی پروفیسر شافع قدوائی (ہیڈ آف ماس کمیونی کیشن علی گڈھ مسلم یونیورسٹی)نے کتاب کے مضامین پر تفصیلی بحث کی۔ آپ نے یوسف کمال بخاری کے مضمون ’’دورخسروی کے فن تعمیر ‘‘پر گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ مضمون نہ صرف تاریخی ہے بلکہ ہندوستان کے مزاج کو سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ نیز آپ نے لسانیات کے حوالے سے رسم الخط کے عنوان پر بخاری صاحب کے تین مضامین کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ ان مضامین کو لسانیات کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔

 مہمان خصوصی سر ضیاء الدین یونیورسٹی کراچی کے وائس چانسلر جناب پروفیسر پیرزادہ قاسم نے محمد صبیح بخاری اور ندیم ماہر ؔ کو کتاب کی اشاعت پر مبارکباد بیش کی او ر کہا کہ کتاب موجودہ تہذیب آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ باتیں ختم ہوجاتی ہیں لوگ باتوں کو بھول جاتے ہیں لیکن کتاب تہذیب کو ساتھ لے کر سفر کرتی ہے، اسی لیے اگر خطہ یا کسی قوم کی تاریخ وتہذیب کا مطالعہ کرنا ہو تو کتاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں اس سے روشناس کراتاہے۔

 سمینار میں مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈینٹ پروفیسر اختر الواسع نے بطورصدر شرکت فرمائی۔ پروفیسر اختر الواسع نے سمینار سے اپنے پُرمغز خطاب میں کہا کہ ایک ایسے عہد میں جب ادبی اداروں میں تحقیق کا رجحان زوال پذیر ہو رہا ہے یوسف کمال بخاری کی تحریروں کو پڑھنے سے نئی روشنی ملتی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق سے ادب کے دامن کو وسیع کیاہے۔ یوسف کمال بخاری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان کے ہاں تنوع ہے، اکہرا پن نہیں ہے، جبکہ آج کے دور میں اکہرے پن کو تخصص کے نام پر رائج کردیا گیا ہے، جس کا اثر ہماری صلاحیتوں پر کوئی بہت اچھا نہیں پڑ رہا ہے۔ یوسف بخاری نے جس دور میں آنکھیں کھولیں اس زمانے میں ہشت پہلو افراد ہواکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم کا تنوع پوری توانائی کے ساتھ قاری کو متاثر اور معلومات سے مالا مال کردیتاہے۔ آپ نے یوسف کمال بخاری کے مضمون’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا اسلام نے عورت کو جتنے حقوق دیئے ہیں شاید ہی کسی مذہب یا تہذیب نے دیئے ہوں لیکن ہم اسلام کا مطالعہ نہیں کرتے۔ حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت زینب او ررابعہ بصری تاریخ میں ایسی ڈھیروں مثالیں ہیں جو عورتوں کواقتصاد وتجارت، علم وسیاست اور روحانیت کے اعلی مقام پر فائزکرتی ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں قرآن کی نہیں مانتے۔ ’’اتحاد مذاہب‘‘ مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اللہ نے تکثیر مذاہب کا دنیا میں نظام بنایا ہے تو پھر ہم کیوں اس بات پر عمل پیرا نہیں، ہم کیوں دوسرے مذاہب کا احترام نہیں کرتے۔ آج کا دور (Convert)کا نہیں (Communicate)کرنے کا دور ہے۔ ہمیں ہر مذہب کا احترام کرنا چاہئے، کوئی بھی مذہب نفرت کا درس نہیں دیتا۔ نیز آپ نے اسلام کے فلسفہ ٔ جہاد پر بولتے ہوئے کہا کہا کہ جہاد بعینہ وہی پیغام ہے جو کرشن جی نے ارجن سے یدھ کی ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا جو بھگوت گیتا کے نام سے موسوم ہے، جہاد کا مطلب مارنا، ظلم یا قتل کرنا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔

 پروفیسر اختر الواسع نے محمد صبیح بخاری کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ اپنے والد کے علمی اثاثے کی حفاظت کرسکیں اور اتفاق سے آپ کو ایک ندیم ملا تو وہ بھی ماہرؔ۔

  کلماتِ تشکر دختر محمد صبیح بخاری صائمہ بخاری نے پیش کئے۔ رسم اجراء اور سیمنار کی اس تقریب میں دوحہ قطر کی تمام اردو تنظیموں کے اراکین وعہدیداران کے علاوہ بلالحاظ مذہب وملت سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

تبصرے بند ہیں۔