عہد حاضرمیں اِجتہاد کی اہمیت

تحریر: مولانا امین احسن اصلاحی… ترتیب: عبدالعزیز

ہم پہلے مختصر طور پر اجتہاد کی حقیقت واضح کریں گے۔ اس کے بعد عہد حاضر میں اس کی اہمیت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
اِجتہاد کی حقیقت: عربی زبان میں ’اجتہاد‘ کے معنی انتہائی اور بھر پور کوشش کرنے کے ہیں، لیکن یہ عربی زبان کا صرف ایک لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی اصول قانون کی ایک نہایت اہم اصطلاح بھی ہے۔ اسلامی قانون کے تین اہم اور بنیادی ماخذ ہیں؛ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجتہاد۔ اسلام نے قانون اخذ کرنے کی ترتیب یہ مقرر کی ہے کہ جب ہماری زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کے بارے میں ہمیں خدا کا قانون معلوم کرنا ہو تو سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اگر اس میں کوئی واضح بات نہ ملے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اگر اس میں بھی کوئی واضح بات نہ ملے تو پھر اجتہاد کرنا چاہئے؛ یعنی پھر کتاب و سنت کے اشارات، ان کے مقتضیات و مضمرات، عہد نبویؐ کے امثال و نظائر، صحابہؓ اور خلفائے راشدینؓ کے تعامل اور شریعت اسلامی کے مزاج کو سامنے رکھ کر اس پیش آمدہ صورت کیلئے حکم متعین کرنا چاہئے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کتاب و سنت کے واضح نصوص سے کوئی حکم معلوم کرنا ہو تو یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی عربی زبان سے واقف ہو تو وہ یہ کام آسانی سے کرسکتا ہے، لیکن جہاں واضح نصوص کے بجائے اشارات مقتضیات، قیاس، استنباط اور امثال و نظائر وغیرہ سے کام لے کر خود ایک حکم لگانا یا فتویٰ دینا ہو تو یہ کام کوئی آسان کام نہیں رہ جاتا، بلکہ ایک بڑا مشکل فنی کام بن جاتا ہے۔
اسلامی قانون کی اصل زبان کی مہارت: اس کیلئے سب سے پہلے تو یہ چیز دیکھنی پڑتی ہے کہ آدمی کو اسلامی قانون کی اصل زبان یعنی عربی میں پوری مہارت ہو کیونکہ پوری مہارت کے بغیر کوئی شخص کسی زبان کے اشارات و اسالیب اور اس کے استعمالات کو اس طرح نہیں سمجھ سکتا کہ ان کی رہنمائی میں پیش آمدہ حالات کیلئے حکم یا قانون اخذ کرسکے۔ جو شخص اسلامی قانون کی اصل زبان سے اچھی طرح واقف ہو وہی معلوم کرسکتا ہے کہ ایک قانون جو بیان ہوا ہے تو اس کے الفاظ کا ظاہری مفاد کیا ہے؟ اس کے اشارات سے کیا باتیں نکلتی ہیں اور اس کے معنوی تقاضے کن حقائق کی رہبری کر رہے ہیں؟ اس طرح کی باریکیاں ہر زبا ن میں ہوتی ہیں اور قانون میں ان باریکیوں کو ہر شخص جانتا ہے کہ بڑی اہمیت ہے۔ میں کومے اور ڈیش کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے؛ چنانچہ اسلامی قانون کے اجتہادات پر جب آپ نظر ڈالیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بعض معاملات میں اہل اجتہاد کے اجتہادات صرف اس وجہ سے مختلف ہوگئے کہ بعض اہل اجتہاد قرآن مجید کے کسی لفظ پر وقف یا ٹھہراؤ کے قائل ہیں، دوسروں کے نزدیک وہ ٹھہراؤ معتبر نہیں ہے۔ زبان کی انہی مشکلات اور نزاکتوں کی وجہ سے اسلامی اصول قانون (اصول فقہ) میں ایک طویل بحث الفاظ و اسالیب کے تقاضوں کی وضاحت کیلئے بھی ہوتی ہے اور آپ اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس بحث کا بہت بڑا حصہ اسلامی قانون سے براہ راست تعلق رکھنے والا ہوتا ہے، اس کو سمجھے بغیر کوئی شخص اسلامی قانون میں اجتہاد کے لوازم نہیں پورے کرسکتا۔ اب غور کیجئے کہ جب صورت حال یہ ہے تو کوئی شخص اسلامی قانون کی اصل زبان میں مہارت کا درجہ رکھتا ہو وہ یہ مشکل کام کس طرح انجام دے سکتا ہے؟
جامع نگاہ: دوسری چیز جو ا س کیلئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اصل قانون کے ماخذ، اس کے تدریجی ارتقاء، اس کے نظام و ترتیب، ا س کی ترمیمات و تخفیفات اور اس کے اجتہادی ذخائر پر نگاہ رکھتا ہو۔ اسلامی قانون پر عمل اور اجتہاد کی صدیاں گزری ہیں۔ اس کے اصول اجتہاد کے مختلف اسکول بن چکے ہیں اور یہ اصول اجتہاد ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں موجود ہے۔ جب تک کوئی شخص ان ساری چیزوں پر گہری نظر نہ رکھتا ہو اس کیلئے نہ سابق اجتہادات کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ممکن ہے اور نہ کسی نئے اجتہاد کیلئے صحیح فکری مواد فراہم کرنا ممکن ہے۔
انہی اسباب سے اجتہاد کے کام کو ایک مشکل کام بتایا گیا ہے اور اسلام میں اس کیلئے وہی شخص اہل قرار دیا گیا ہے جو اسلامی قانون، اصل زبان اور ساتھ ہی اسلامی قانون میں مہارت رکھتا ہو۔ یہ مہارت جس مسلمان کو حاصل ہو وہ اسلام میں اجتہاد کا مجاز ہے، عام اس سے کہ وہ شخص آزاد ہے یا غلام، مرد ہے یا عورت، عجمی ہے یا عربی۔ اس وجہ سے یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد پر اپنا اجارہ قائم کر رکھا ہے۔ اجتہاد پر کسی طبقہ یا گروہ کا اجارہ نہیں ہے بلکہ قانون اسلامی کے ماہرین کا اجارہ ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی شخص یہ مہارت بہم پہنچالے تو اس کو اس حق اجتہاد سے کوئی شخص محروم نہیں کرسکتا۔ برعکس اس کے اگر ایک علماء ہی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والا ہو لیکن اسلامی قانون میں اس کو مہارت حاصل نہ ہو تو اسلام کے شرائط اجتہاد کی رو سے اسے بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اجتہاد کرے۔
ایک غلط فہمی: بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اجتہاد کے معنی کسی قانونی مسئلہ پر آزادانہ اظہار رائے کے ہیں۔ ان لوگوں کا غالباً یہ خیال ہے کہ جس چیز کے بارے میں کتاب و سنت کے اندر کوئی حکم موجود نہ ہو ا س میں ہر شخص مجرد اپنی عقل کی رہنمائی میں اظہار رائے کرسکتا ہے اور یہی چیز ہے جس کو اسلام نے اجتہاد کہا ہے بلکہ بعض لوگوں کے بیانات سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود اسلامی قانون کو بدل دینے کا نام اجتہاد رکھتے ہیں۔ جو لوگ اجتہاد کے یہ من مانے مفہوم کو سمجھتے ہیں قدرتی طور پر ان کو یہ بات کچھ گراں سی گزرتی ہے کہ اسلام میں یہ تصرف کرنے کا حق علماء کو تو حاصل ہو، لیکن ہم نے آپ کے سامنے اجتہاد کا جو مفہوم واضح کیا ہے اس سے آپ کو یہ اندازہ بخوبی ہوگیا ہوگا کہ اس اجتہاد کے معنی نہ تو کسی قانونی مسئلہ پر مجرد اظہار رائے کے ہیں اور نہ اسلامی قانون کو بدل دینے کے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں کتاب و سنت کے واضح نصوص کی رہنمائی موجود نہ ہو وہاں ان کے اشارات اور تقاضوں سے رہنمائی حاصل کرنا۔
اجتہاد کی ا ہمیت: اجتہاد کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد اب آئیے اس کی اہمیت کے پہلو پر غور کیجئے۔
ایک آزاد معاشرہ کے اسلام پر قائم رہنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے دیئے ہوئے احکام و قوانین پر عمل کرے۔ اگر کسی معاملہ میں اس کو خدا اور رسولؐ کی تعلیمات میں کوئی واضح حکم نہ ملے تو پھر ان کے اشارات و مقتضیات کی روشنی میں اجتہاد کرکے خدا اور رسول کے احکام سے قریب تر حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اجتہاد غلط بھی ہوسکتا ہے، صحیح بھی ہوسکتا ہے ، لیکن مسلمان کیلئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی صورتوں میں خدا اور رسول کی رہنمائی کی طلب سے بے نیاز ہوجائے تو اس کی پوری زندگی غیر اسلامی ہوجائے گی، اگر چہ وہ اپنی زندگی کے بعض گوشوں میں اسلامی احکام و قوانین پر ہی چل رہا ہو۔
اس وجہ سے خدا اور رسول کے ساتھ اپنے رشتہ کو استوار رکھنے کیلئے ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ جن معاملات میں ہماری رہنمائی کیلئے خدا اور رسول کے واضح احکام نہیں ان میں یا تو ہم دوسرے مجتہدین کے اجتہادات کو اختیار کریں یا اجتہاد کے شرعی اصولوں پر اجتہاد کرکے ان کے بارے میں احکام متعین کریں۔ بغیر اس کے اسلام کے ساتھ ہمارا تعلق باقی نہیں رہ سکتا، اس وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہم اپنی مادی زندگی کی بقا کیلئے جتنے محتاج ہوا اور پانی کے ہیں اس سے زیادہ محتاج ہم اپنی روحانی زندگی کی بقا کیلئے اجتہاد کے ہیں ، تو اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔
اجتہاد کی یہ اہمیت کل بھی تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جو معاشرہ خدا اور رسولؐ کے احکام و قوانین کے تحت زندگی بسر کرنا چاہے گا اس کیلئے اجتہاد سے مفر نہیں ہے لیکن اس دور میں اس کی ا ہمیت کے بعض نئے پہلو بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ ان کی طرف بھی اجمال کے ساتھ اشارہ کردیں۔
ایک جامع اسلامی ضابطہ قوانین کی تدوین کی خواہش: اس وقت کے لوگوں کے اندر یہ عام خواہش پائی جاتی ہے کہ اسلامی قانون کو جدید طرز پر ایک ضابطہ قوانین کی شکل میں مرتب کر دیا جائے تاکہ حکومت اور عدالتوں کیلئے اس کی مراجعت آسان ہوجائے۔ یہ خواہش ہمارے معاشرے کی ایک اہم ضرورت کے احساس سے پیدا ہوئی ہے۔ اس ضرورت ہی کے تحت اسلامی قانون کی تدوین کیلئے ایک کمیشن بھی ایک زمانہ میںمقرر ہوا تھا۔ ہمارے معاشرہ کی یہ ضرورت اور خواہش جب بھی پوری ہوگی، اس کے پورے ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک فقہ کی تقلید کے بجائے اس مقصد کیلئے پوری اسلامی فقہ کو اچھی طرح کھنگال کر ایک جامع ضابطہ قوانین ضروریات زمانہ کے مطابق بنایا جائے۔ مختلف اسلامی فقہوں کو اس نگاہ سے دیکھنا اور ان کے مختلف اقوال و مذاہب میں سے کسی ایک قول و مسلک کو دلائل کی کسوٹی پر پرکھ کر اختیار کرنا، یہ بھی اجتہاد ہے۔ اس اجتہاد کے بغیر آپ اپنے معاشرہ کی یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔ اگر کسی ایک ہی فقہ کی تقلید پر اس کام کی بنیاد رکھی گئی تو ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس صورت میں موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق کوئی ضابطہ قوانین مرتب کرنا مشکل ہے۔
سائنس کی ترقیوں کے پیدا کردہ مسائل: اسی طرح سائنس کی غیر معمولی ترقیوں نے بھی اس دور میں بہت سے نئے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل پیدا کر دیئے ہیں جو اگلے مجتہدین کے زمانوں میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ان مسائل پر اسلام کی روشنی میں غور کرکے اگر اس دور کے اصحاب اجتہاد نے کوئی رہنمائی نہ دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ان مسائل میں من مانے طور پر رائیں قائم کریں گے اور اسلام کے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوں گے کہ وہ اس سائنٹفک دور کے حالات و مسائل کیلئے اپنے اندر کوئی رہنمائی نہیں رکھتا۔ ہم اس موقع پر اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل پر انفرادی طور پر جو رائیں ظاہر کی جارہی ہیں، خواہ علمائے دین کی طرف سے یا غیر علمائے دین کی طرف سے، ان سے ایک ذہنی انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح کے مسائل پر صحیح رائے قائم کرنے کیلئے مذہب کے گہرے مطالعہ کی بھی ضرورت ہے اور ان سوالات کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے جو فی الواقع سائنس کی ترقیوں نے پیدا کر دیئے ہیں۔ اس وجہ سے علماء اور غیر علماء دونوں ہی گروہوں کیلئے ہمارا ناچیز مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل پر اپنے اپنے طور پر اظہار رائے کے بجائے اجتماعی طور پر غور کرنے اور رائے قائم کرنے کی کوئی شکل اختیار کریں تاکہ وہ اپنے معاشرے کو صحیح رہنمائی دے سکیں۔
اجتہاد کیلئے دو باتوں کا اہتمام: بہر حال جہاں تک اجتہاد کی اہمیت و ضرورت کا تعلق ہے تو ا س کی اہمیت و ضرورت جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں، نہ پہلے کم تھی نہ اب کم ہے۔ البتہ اس اجتہاد کو عنداللہ مقبول اور عندالناس بنانے کیلئے ضروری ہے کہ یہ کام وہ لوگ کریں جو علمی اور اخلاقی دونوں ہی اعتبارات سے اس کیلئے اہل اور موزوں ہوں۔
تقلید کی راہ اختیار کرنے کے اسباب: ہم اس موقع پر ایک ضروری بات آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ مسلمانوں میں اجتہاد کو چھوڑ کر تقلید کی راہ اختیار کرنے کا جو میلان پیدا ہوا تو وہ یونہی اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا بلکہ اس کے دو بڑے سبب ہوئے ہیں۔
ایک سبب اس کا یہ ہوا کہ جب دین سے بے پروا امراء و سلاطین نے اقتدار حاصل کیا اور دنیا پرست علماء ان کے درباروں سے وابستہ ہوئے تو ان علماء نے ان امراء کے دباؤ سے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے خدا کی شریعت میں بے جا تصرفات کئے اور ایسے فتوے اور احکام لوگوں کے سامنے آئے تو لوگ ان امراء اور علماء سے بدگمان اور متنفر ہوئے اور انھوں نے اپنے دین اور اپنی آخرت کی سلامتی اس چیز میں دیکھی کہ ان دنیا پرست علماء کے اجتہادات پر عمل کرنے کے بجائے اپنے ان اسلاف کے اجتہادات اور فتووں کی تقلید کریں جن کے متعلق وہ جانتے تھے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر تو ان جابر و ظالم امراء و سلاطین کے ہاتھوں سارے مصائب و شدائد جھیل لئے لیکن خدا کے دین میں کسی در انداز کیلئے انھوں نے کوئی راہ کھلنے نہ دی۔
دوسرا سبب اس کا یہ ہوا کہ جب مسلمانوں میں امراء سلاطین کی سرپرستی سے یونانی فلسفہ اور عجمی علوم کا زور ہوا اور یہی علوم سرکاری تقرب کا وسیلہ بنے تو شریعت کے علوم سے لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہوگئی اور اس میں مہارت حاصل کرنے کا ولولہ لوگوں کے اندر سرد پڑگیا جو اجتہاد کا مرتبہ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ یہ چیز بھی من جملہ ان اسباب میں سے ایک ہے جس سے مسلمانوںمیں تقلید کا رجحان ترقی پایا ہے۔ لوگ مجتہد کے اندر امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کا کمال فن ڈھونڈتے تھے۔ جب لوگوں نے بعد والوں کو اس سے خالی پایا تو اس چیز نے ان کے تقلید کے رجحان کو اور زیادہ مستحکم کر دیا۔
اب اگر تقلید کو ختم کرنے اور اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہے تو یہ ایک مبارک کام ہے، اس کو شوق سے کیجئے۔ کوئی آپ کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا، لیکن اجتہاد کے بند دروازے کو کھولنے سے پہلے ان اسباب کو دور کرنا ضروری ہوگا جو اس کے بند ہونے کے باعث ہوئے تھے۔ اگر یہ اسباب دور نہ ہوئے تو یاد رکھئے کہ اجتہاد کا دروازہ کھول دینے کے باوجود بند ہی رہے گا کیونکہ ان لوگوں کے اجتہادات کو قبول کرنے کیلئے مسلمانوں کے دل ہمیشہ بند ہی رہیں گے جو علمی اور اخلاقی اعتبار سے اس کار عظیم کیلئے موزوں نہیں ہوں گے۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو علمی اور اخلاقی دونوں اعتبارات سے اجتہاد کا اہل بنائیے۔ ہماری آرزو ہے کہ ملت اسلامیہ میں قانون کے وہ ماہر پیدا ہوں جو دنیا پر اسلامی قانون کی حجت قائم کرسکیں اور جو اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے اتنے مضبوط اور بے لچک ہوں کہ مسلمان ان پر بھروسہ کرسکیں کہ یہ کسی خوف یا کسی طمع سے مرعوب یا متاثر ہو کر خدا اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی اور چال بازی نہیں کریں گے۔ قانون کے متعلق آپ حضرات جانتے ہیں کہ تمام عدل و انصاف کا انحصار اسی پر ہوتا ہے، اس وجہ سے قانون اور اہل قانون سے متعلق ہر قوم میں ذمہ داری اور احترام کا ایک خاص احساس پایا جاتا ہے۔ اسلام میں یہ چیز دوسروں کی نسبت سے کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے، ا س کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون بادشاہوں، پارلیمانوں اور قانون ساز اداروں کا بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ خدائے احکم الحاکمین کا اتارا ہوا ہے۔ اس میں اجتہاد کا جو حق ملا ہے وہ خدا اور رسولؐ کی طرف سے ایک مقدس امانات ہے۔ ا سکے استعمال کرنے میں اگر ہم ذرا بھی نفس کی جنبہ داری میں مبتلا ہوجائیں تو اس سے ہم اپنی آخرت بھی تباہ کرلیں گے اور دوسرے بندگان خدا کی آخرت بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔