فرضی انکاؤنٹر اور مسلمان

مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکرفرضی انکاؤنٹر کرنے کے لیے اب کسی آئین،کسی قانون کی ضرورت نہیں —

تبسم فاطمہ

ان لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے جو سوشل ویب سائٹس ، بلاگس، ٹی وی چینلس پر اور اپنی تحریروں میں، اس پر آشوب ماحول میں بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ملک میں اس وقت مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور حکومت سے لے کر میڈیا تک اس مہم میں کامیاب اس لیے ہے کہ اندھے بھکتوں کی بڑی حمایت اسے حاصل ہے۔ یہ بھکت مودی کے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ سوشل ویب سائٹس پر ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اگر آپ مودی کے کاموں میں دخل دیتے ہیں تو آپ غدار ہیں۔ پچھلے تین برسوں کی تاریخ میں، حکومت نے صرف مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی کارروائی نہیں کی بلکہ انتہائی دانشمندی سے مسلمانوں کو غدار ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کوشش میں کامیابی سر جیکل آپریشن سے بھی ملی۔ جبکہ حکومت کے سرجیکل آپریشن کے بعد بھی پاکستان کی، دخل اندازی کی کوششیں مسلسل جاری ہیں اور ہندوستانی فوج کے کئی جوان اب تک شہید ہوچکے ہیں۔ یہ بتانے کی کوشش بھی کی گئی کہ مسلمان فوج کے ساتھ نہیں ہیں۔ سوشل ویب سائٹس پر نفرت آمیز تحریروں میں اس بات کی نشاندہی آسانی سے ہوسکتی ہے۔
کالم لکھنے سے قبل میںنے الگ الگ کئی لوگوں سے مودی کے بارے میں عام رائے لینے کی کوشش کی۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ مودی ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہیں ملک کی چنتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ ’عوام کی؟‘ ہندی کے ایک صحافی نے کہا۔ عوام پہلے ہے یا ملک؟ اب اس بات پر آئیے جو میں بتانا چاہتی ہوں۔ دو ڈھائی برس کے عرصہ میں مودی عام اذہان میں یہ تاثر پیداکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ پہلے وزیراعظم ہیں جو ملک کے بارے میں، ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اور اس لیے وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ جب میں نے ان لوگوں سے ملک کے حالات کے بارے میں جاننا چاہا کہ تو مشترکہ ملی جلی رائے تھی کہ مودی کے اقدام نے دہشت گردوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔ آپ غور کریں کہ پچھلے دو برس میں عدم تحمل اور عدم برداشت سے وابستہ ہر معاملے پر مودی بھکت بھاری پڑے۔ عام سیکولر ہندوستانی کی رائے میڈیا سے سوشل ویب سائٹس تک پر دبا دی گئی۔ جس نے بھی برے حالات کا رونا رویا، اسے ٹی وی چینلس سے لے کر عام لوگون تک زبردست ناراضگی اور پھٹکار کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد اخلاق کے فریج میں رکھے گوشت کو لے کر جب ملک کے تمام دانشور اور صحافی متحد ہوئے تو کچھ دیر کے لیے ایسا ضرور احساس ہوا تھا کہ حالات بہتر ہوں گے، مگر حالات بہتر نہیں ہوئے۔ ساہتیہ اکادمی کا ہی معاملہ لیجئے تو سیکولر ادیبوں کے ساتھ ادیبوں کا ایک دوسرا بڑا گروپ کھڑا کردیا گیا جو مودی کی حمایت میں کھڑے تھے۔ مودی بنیادی طور پر بزنس مین ہیں۔ وہ کہتے بھی ہیں کہ عام گجراتی بھی تجارت کی اچھی سمجھ رکھتا ہے۔ وہ صحیح کہتے ہیں۔ اور اسی لیے انہوں نے شروع سے ہی میڈیا پر بھرسہ جتایا۔ اور میڈیا کے سہارے وہ سچ، بولنے والوں اورمخالفت کرنے والوں کو خاموش کرتے چلے گئے۔ مودی کا بھروسہ اور ہتھیار انتہاپسندہندو ہیں۔ اورآج کی تاریخ میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ انتہا پسند اور کٹر ہندوئوں کو اپنی حمایت میں، جمع کرنے میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اس کامیابی کا سب سے بڑا نقصان دلتوں سے زیادہ مسلمانوں کو ہوا ہے۔
سیمی کے 8 قیدیوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ حکومت کی منشا کیا ہے اور حکومت مسلمانوں کو غدار وطن ثابت کرتے ہوئے کس طرح کا ماحول ملک میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دلچسپ یہ کہ اس فرضی انکائونٹر کو سچ ثابت کرنے کے لیے حکومت جو ثبوت فراہم کررہی ہے، اس میں نہ صرف سو چھید ہیں بلکہ بھوپال پولس، وزیراعلیٰ شیوراج پال کے بیانات اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ بچوں کے گلے سے بھی نہیں اتر رہے۔ اب نئی بات سامنے آئی کہ چالیس چادریں برآمد کی گئیں۔ کیا چالیس چادروں کو چرانا آسان ہے؟ چالیس چادروں کی رسی بنا کر35 فٹ کی دیوار پر چڑھنے تک ان قیدیوں پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ کیا یہ آٹھوں قیدی سپرمین تھے جو اتنی بلند دیوار سے کود گئے جبکہ دیواروں پر بجلی کے تار بھی لگے ہوئے تھے۔ ان قیدیوں نے ٹوتھ برش اور لکڑی سے چابی تیار کی ۔ اور عالمی معیار کی بھوپال سینٹرل جیل کا تالہ معمولی لکڑی کی چابی سے کھل گیا اور پولس نے ایسی بارہ زائد چابیاں برآمد کرلیں۔ اب ذرا اس مضحکہ خیز کہانی پر ایک نظر ڈالیں۔ قیدیوں کو تین الگ الگ بیرکوں میں رکھا گیا۔ 2005 میں مونیکا بیدی کے باتھ روم میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کو لے کر کانگریس نے سوال اٹھایا تھا اورہنگامہ کیا تھا۔ اس بار جیل کے سارے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے۔ ایک پولس والا ملا۔ جس پر کھانے کے برتن اور چھری کانٹوں سے حملہ کیاگیا۔ اس نے نہ چیخ پکار مچائی نہ ہنگامہ کیا۔ آسانی سے مر گیا۔ قیدی آرام سے باہر نکلے۔35فٹ اونچی دیوار پر چڑھے۔ سپرمین کی طرح کود گئے۔ پھر شاید مال گئے ہوں گے۔ وہاں سے برانڈیڈ جنس، جوتے، گھڑی اور ٹی شرٹ خریدا ہوگا اورآرام سے پہاڑی پر چڑھ گئے۔ انکائونٹر میں مرنے کے لیے۔ یہ قصہ دنیا میں جس کسی کو بھی سنایا جائے گا وہ ہنسے گا۔ مگر حکومت جانتی ہے کہ دیش بھکتی کی آڑ میں اس نے اندھے بھکتوں کی ایسی فوج تیار کرلی ہے جو اس کے ہر مضحکہ خیز ڈرامے پر بھی سجدہ کرنے کو تیار ہیں۔ جمہوریت کے قتل کی ایک تازہ مثال اور لیجئے۔ 2 نومبر ایک سابق فوجی ون رینک ون پینشن معاملے کو لے کر خود کشی کرتا ہے۔ اور دلی پولس کانگریسی ورکر کے ساتھ راہل گاندھی اور عآپ کے تمام بڑے لیڈران کو حراست میں لے لیتی ہے۔ راہل کو دو بار حراست میں لیا جاتا ہے۔ ایک جگہ وہ خودکشی کرنے والے کے خاندان کے ساتھ ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ایک بیٹے نے خودکشی کرلی اور آپ نے اس کے باپ اور خاندان کے لوگوں کو بندی، بنالیا ہے تو پولس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ جواب مرکزی حکومت اور دلی پولس کے پاس بھی نہیں ہے۔ کیونکہ مرکزی حکومت اب جھوٹ کو سچ بنانے کی ہر ظالم پالیسی کو لے کر سامنے آچکی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر میڈیا اس کے ساتھ ہے تو کوئی بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ حکومت کی یہ پالیسی تاریخ کے ان جابر وظالم حکمرانوں کی یاد تازہ کراتی ہے جو اقتدار کے لیے ہر حد سے گزر گئے تھے۔ یہ کہنا مشکل نہیں کہ مودی حکومت آج تمام تر حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کرسی اور اقتدار کے لیے وہی کھیل ، کھیل رہی ہے، جہاں نہ کوئی دلیل کام آتی ہے اور نہ ہی کسی اخلاقیات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اب اس کھیل میں مسلمان قوم مودی کے ٹارگیٹ کا حصہ ہے۔ اور مودی جانتے ہیں کہ ملک کے سیکولر اور لبرل ڈھانچے کو کمزور کردیا جائے، مسلمانوں کو ظالم حکمراں کے طور پر پیش کیا جائے، مسلمانوں کی حب الوطنی کو نشانہ بنایا جائے تو یہ جھوٹ نہ صرف آہستہ آہستہ سچ لگنے لگے گا بلکہ اکثریت کی حمایت بھی انہیں حاصل ہونے لگے گی۔ بہت آسانی سے ایک ایک کمزور کڑی کو جوڑتے ہوئے مودی حکومت اب اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اب اس کڑی میں ۸مسلم قیدیوں کے انکائونٹر کا صفحہ بھی شامل ہوچکا ہے۔مقصد پوری طرح صاف ہے کہ دہشت گردوں کو جیل میں بریانی کھلانے سے بہتر ہے کہ آئین اور قانون کو درگزر کرتے ہوئے کھلے عام انکانٹر کردیاجائے۔ سابق فوجی کے خود کشی کے معاملے میںبھی قانون اور آئین کو طاق پر رکھ دیا۔ حکومت اب کھلاکھیل، کھیلناچاہتی ہے اور صاف کردیاہے کہ کو ئی اسے روک نہیں سکتا۔ اب ایک چھوٹی سی خبر پر اور غور کرلیجئے جس کا دانستہ تعلق اس معاملے سے نہیں ہے مگر آپ غور کریں گے تو یہ خبر بھی اسی کڑی سے جڑی ہوئی ہے۔ ابھی حال میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے مودی سے تیسری بار درخواست کی کہ حکومت ججوں کی تقرری کے معاملے پر توجہ دے اور خالی عہدوں کو پر کیا جائے۔ ٹھاکر کے مطابق عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ انکا نمٹارہ کرنا مشکل، ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ حکومت اب انصاف اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہے اور تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آر ایس ایس خیالات کے لوگوں کی فہرست سازی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہو۔ مسلمانوں کے حالات سنگین ہیں۔ اور مسلمانوں کے پاس آج کی تاریخ میں کوئی لائحہ عمل بھی نہیں کہ حکومت کا مقابلہ کرسکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔