ایک شام حکیم مومن خاں مومنؔ کے نام

رپورٹ: فیاض بخاری کمالؔ

نائب سکریٹری بزمِ اردو قطر

اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے جذبے سے معمور، با کمال شاعروں اور ادیبوں کی منفرد تنظیم، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ 1959ء) کی جانب سے "ایک شام بیادِ حکیم مومن خاں مومنؔ، دہلوی(1800-1851ء ‘‘( کا انعقاد بروز جمعہ، بتاریخ 5 اگست 2016، بمطابق 2 ذی القائدہ، 1437ھ ، بمقام مازا، المطار القدیم میں ہوا۔ اس پروگرام میں پر تکلف عشائیے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ شعرائے کرام اور سخن فہم سامعین کی ایک بڑی تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔
بزمِ اردو قطر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے کارگر اقدامات اٹھائے جائیں؛ یہ پروگرام بھی اسی جدوجہد کا ایک عملی نمونہ ہے۔ در اصل گزشتہ دنوں بزمِ اردو قطر کی کمیٹی کے جلسہ میں اتّفاقِ رائے سے یہ بات طے پائی تھی کہ مشاعروں اور دیگر نوعیت کے ادبی پروگراموں کے علاوہ کچھ ایسے پروگرام بھی منعقد ہونے چاہئیں جس سے اردو ادب کے اثاثہ جات کا درجہ رکھنے والے شعراء و ادباء کے حالاتِ زندگی اور ان کے فنونِ ادب پر بھر پور روشنی ڈالی جاسکے، جن سے ان شعرائے کرام اور ادیبان عظام کی یاد بھی تازہ ہو بلکہ ان کے فنونِ ادب سے بھی بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔ اس نوعیت کے پروگراموں کی کڑی کے لئے پہلا نام حکیم مومن خاں مومنؔ کا تجویز پایا۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز پر تکلف عشا ئیہ کے بعد جناب حافظ اسامہ صاحب کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ اس مشاعرے کی صدارت جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت کی حامل ہے۔ آپ ایک اچھے ادیب اور خاکہ نگار ہیں – اللہ تعالی نے آپ کو شیریں گفتاری کی بیش بہا صلاحیت سے سرفراز فرمایا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بزم اردو، قطر کے چیئرمین بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کئی اور ادبی کارناموں کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہے جن میں گزرگاہِ خیال فورم، اردو ٹوسٹ ماسٹرز اور اقبال اکادمی سرِ فہرست ہیں۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شاعرِ خلیج، فخر المتغزلین جناب جلیلؔ احمد نظامی کا انتخاب کیا گیا اور آپ نے بزم اردو قطرکی دعوت کو قبول فرمایا اور مسند پر جلوہ افروز ہوکر اس پروگرام کے وقار کو بلند کیا۔ دوحہ قطر میں شاید ہی کوئی اردو دوست ہو جو جلیلؔ احمد نظامی صاحب کو نہ پہچانتا ہو۔ آپ خلیجی ممالک کے علاوہ ہندوستان کے بڑے مشاعروں میں کامیابی کی ضمانت مانے جاتے ہیں۔ آپ انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی و صدر بھی ہیں۔ دورِ رفتہ میں کلام کی جامعیت، معنویت، سلاست، اور حسنِ بیان کے اعتبار سے آپ اپنی مثال ہیں۔ آپ اردو ہی نہیں بلکہ عربی اور فارسی زبانوں پر بھی کافی مہارت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف (فیاضؔ بخاری کمالؔ) کو مہمانِ اعزازی کے اعزاز سے نوازا گیا۔ گوکہ ہرچند نا چیز اس قابل نہیں تھا مگر بزمِ اردو قطر کی انتظامیہ کمیٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے اراکینِ بزم کی آراء کا احترام بھی مجھ پر لازم تھا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مسندِ اعزازی کو قبول کرنا پڑا۔ مشاعرہ کی نظامت، محمد رفیق شادؔ آکولوی صاحب نے فرمائی. شادؔ اکولوی صاحب بزم اردو، قطر کے صدر ہیں۔ آپ باکمال ادیب اور شاعر ہیں. اللہ تعالٰی نے آپ کو میٹھی زبان و بیان کے ملکہ سے نوازا ہے۔ شاید آپ کی انہیں خصوصیات کی وجہ سے کئی اور ادبی تنظیموں کی سربراہی بھی آپ کے ذمّہ ہے۔ آپ دوحہ قطر ہی نہیں بلکہ بھارت کی چند ادبی تنظیموں کی ذمّہ داریوں کو بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
جناب آصف حسین صاحب جو اردو دوست ہی نہیں بلکہ بزمِ اردو قطر کے مستقل سامعین میں سے بھی ہیں، نے مولانہ محمد حسین آزادؔ کی کتاب ’آبِ حیات‘ سے اقتباس ات پیش کیے جس میں حکیم مومن خاں مومنؔ کے متعلق ضروری معلومات پیش کی گئی۔ جس کی چند جھلکیاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش کی جارہی ہیں:
"ان کی ولادت 1215ھ میں واقع ہوئی۔۔۔ ان کے والد کو شاہ صاحب (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی) سے کمال عقیدت تھی۔ جب یہ پیدا ہوئے تو حضرت ہی نے آکر ان کے کان میں اذان دی اور مومن خاں نام رکھا۔۔۔جب ذرا ہوش سنبھالا تو شاہ عبدالقادر کی قدمت میں پہنچایا۔ ان سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے رہے۔ حافظے کا یہ حال تھا کہ جو بات شاہ صاحب سے سنتے تھے فوراً یاد کرلیتے تھے۔۔۔ والد اور چچا حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلام حسن سے طب کی کتابیں پڑھتے رہے اور انہی کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے۔۔۔۔شاعری کے علاوہ نجوم کا خیال آیا۔۔۔۔ علمِ نجوم سے قدرتی مناسبت تھی۔ ایسا ملکہ بہم پہنچا تھا کہ احکام سن کر بڑے بڑے منجم حیران رہ جاتے تھے۔۔۔۔شطرنج سے بھی ان کو کمال مناسبت تھی۔ جب کھیلنے بیٹھتے تھے تو دنیا و مافییہا کی خبر نہ رہتی تھی۔ اور گھر کے نہایت ضروری کام بھی بھول جاتے تھے۔ شعر و سخن سے انہیں طبعی مناسبت تھی۔ اور عاشق مزاجی نے اسے اور بھی چمکا دیا تھا۔ انہوں نے ابتدا میں شاہ نصیر مرحوم کو اپنا کلام دکھایا۔ مگر چند روز کے بعد ان سے اصلاح لینی چھوڑدی۔ اور پھر کسی کو استاد نہیں بنایا۔ ”
"رنگیں طبع رنگیں مزاج، خوش وضع، خوش لباس، کشادہ قامت۔۔۔۔ سر پر لمبے لمبے گھنگھریالے بال اور ہر وقت ان میں کنگھی کرتے رہتے تھے۔ ململ کا انگرکھا، ڈھیلے ڈھیلے پائنچے اور ان میں لال نیفہ بھی ہوتا تھا۔ ایسی درد ناک آواز سے دل پزیر ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے کہ مشاعرہ وجد کرتا۔۔۔۔ جس طرح شاعری کے ذریعہ سے انہوں نے روپیہ نہیں پیدا کیا اسی طرح نجوم، رمل اور طبابت کو بھی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا۔۔۔۔ ان کے خیالات نہایت نازک اور مضامین بھاری ہیں۔ اور استعارات اور تشبیہ کے زور نے اور بھی اعلی درجہ پر پہنچادیا:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
اڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں
اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا
جناب آصف حسین کے بعد جناب قاضی عبدالملک کو دعوت دی گئی کہ وہ حکیم مومن خاں مومنؔ کی ایک غزل سنائیں۔ سر زمینِ قطر میں جناب قاضی عبدالملک صاحب اپنی آواز کے ذریعہ گلوکار مرحوم محمد رفیع کی یاد کو تازہ کرتے رہتے ہیں. آپ نے اپنی پیاری آواز اور دلکش انداز میں مومن خاں مومنؔ کی ایک غزل پیش کی اور خوب داد حاصل کی۔ آپ کی پیش کردہ غزل کے چند اشعارملاحظہ فرمائیں:
ٹھانی تھی دل میں اب نہ کسی سے ملیں گے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کردیا
لو بندگی کو چھوٹ گئے بندگی سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
جناب قاضی عبدالملک صاحب کے بعد جناب راشد عالم راشدؔ کا مضمون پیش کرنے کے لیے ناظمِ مشاعرہ نے جناب نثار احمد کو دعوت دی۔ جناب راشد عالم راشدؔ صاحب کا شمار قطر کے ابھرتے ہوئے شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مضمون نگار بھی ہیں۔ آپ اس پروگرام کے وقوع پذیر ہونے کے وقت قطر میں موجود نہ ہونے کے باوجود بزم اردو قطر کی گزارش پر آپ نے ایک مضمون ” حکیم مومن خاں مومنؔ: آبروئے اردو اور غزل کا شہنشاہ” کے نام سے ارسال کیا۔ چند اقتیاسات درجہ ذیل ہیں:
"۔۔ بلبلِ گلستاں شیریں بیانی، اور طوطیِ بوستانِ سخن دانی حکیم مومن خاں مومنؔ کی غزلوں میں سب سے زیادہ تغزل کا رنگ ملے گا۔ دیگر شعراء کی غزلوں میں فلسفہ بھی ہے اور تصوف بھی، حیات و کائنات کے مسائل بھی، لیکن مومنؔ معاملاتِ عشق کے علاوہ غزل میں کچھ اور کہنا حدودِ تغزّل کے باہر سمجھتے تھے۔ اس لئے ان کے کلام میں فلسفہ، تصوّف، اور حتی کہ عشقِ حقیقی کا رنگ مطلق نہیں ملے گا۔۔۔ وہ کسی کی بھی تقلید کرنا مطلق پسند نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے شروع میں شاہ نصیر کی تقلید شروع کی۔۔۔۔پھر جب ناسخ کا دیوان لکھنوء سے دلّی پہنچا تو مومنؔ و غالبؔ دونوں نے ان کا تتبّع کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ لیکن یہ ان کی استادانہ طبیعت کے خلاف تھا۔ پھر ان کے دل میں عشقِ مجازی کی آگ بھی بھڑک اٹھی۔ اور ایک پردہ نشین نے ان کو ایسا گھائل کیا کہ اس کا اظہار انہوں نے ایک شعر میں یوں کیا ہے کہ:
ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردہ در نہ ہوجائے
نازک خیالی اور مضمون آفرینی مومنؔ کے یہاں بکثرت ملے گی۔ مثلاً:
واعظ بتوں کو خلد میں لے جائیں گے کہیں
ہے وعدہ کافروں سے عذابِ الیم کا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس ندرت کے ساتھ ساتھ شوخی بھی کہیں کہیں جھلکتی ہے- کہا جاتا ہے کہ اساتذۂ اردو میں مومنؔ سے زیادہ طنز کا استعمال کسی نے نہیں کیا- مومنؔ بعض اوقات مکرِ شاعرانہ سے بھی خوب کام لیتے ہیں-
جناب راشد عالم راشدؔ کے مضمون کے بعد بزم اردو قطر کے رکن جناب ارشاد احمد کو مومن خاں مومنؔ کی غزل سنانے کے لیے دعوت دی گئی۔ جناب ارشاد احمد صاحب نے پہلی مرتبہ بزم کے پروگرام میں مومنؔ کی غزل سے شرکت کی۔ آپ نے غزل بہت ہی اچھے انداز میں پڑھی اور خوب داد حاصل کی۔ آپ کی پیش کردہ غزل کے چند اشعارملاحظہ فرمائیں:
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
جناب غلام مصطفٰی انجم بزمِ اردو قطر کے خزانچی ہیں اور بڑے عرصے سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں۔ اردو زبان و ادب سے بڑی محبت رکھتے ہیں۔ آپ نے مومن خاں مومنؔ کی ایک غزل پیش کی جس کے چند اشعار درجِ ذیل ہیں:
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو
چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرتِ ناصح
طرزِ نگہ چشمِ فسوں ساز تو دیکھو
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامیِ عشاق کا اعزاز تو دیکھو
جناب وصی الحق وصیؔ کو مومنؔ کی ایک غزل پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ وصیْ الحق وصیؔ صاحب دوحہ کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ نے مومن خاں مومنؔ کی جو غزل بڑے اچھے ترنّم میں پیش کی اور ڈھیروں داد حاصل کی، اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
آفتِ جاں ہے کوئی پردہ نشیں
کہ مرے دل میں آ چھپا ہے عشق
دیکھئے کس جگہ ڈبودے گا
میری کشتی کا ناخدا ہے عشق
وصی الحق وصیؔ صاحب کے بعد ناظم مشاعرہ نے ایک اور مضمون پیش کرنے کے لئے جناب رمیض احمد تقی صاحب کو دعوت دی۔ رمیض احمد تقی صاحب نے پہلی مرتبہ بزمِ اردو قطر یا قطر کے کسی بھی پروگرام میں بحیثیتِ مضمون نگار حصہ لیا۔ آپ نے ایک عمدہ مضمون بعنوان "مومن خاں مومنؔ – شاعرانہ امتیاز کی چند جھلکیاں” کے نام سے پیش کیا، جس کی چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:
"اردو شاعری میں جس طرح اقبالؔ و غالبؔ آفتاب و ماہتاب سمجھے جاتے ہیں اسی طرح مومن خاں مومنؔ بھی وہ نیّرِ تاباں تھے جس کی روشنی سے اردو شاعری آج بھی روشن و منور ہے۔۔۔۔۔ شاعری، ہر چند کہ ایک بہت بڑا فن ہے مگر اس میں لیاقت سے کہیں زیادہ ذوقِ سلیم اور جذبات و احساسات کا دخل ہوتا ہے، اور مومنؔ اس سمندر کے ماہر غوطہ خور تھے بلکہ ان کی زیست، عجائب فطرت کی ہر طرح کی رنگینیوں سے لبریز تھی۔۔۔۔ ان کی شاعری میں کبھی عشق و مستی سے لبالب جام ملے گا تو کبھی قوس قزح کے ہفت رنگوں جیسا حسن و شباب کا دلکش نظارہ، کبھی سادگی تو کبھی مذہب و عقیدہ کے روحانی جذبات سے معمور مظاہر، البتہ مومنؔ اپنا کلام اپنے حقیقی پیرائے میں پیش کرتے تھے۔ اپنی ندرتِ کلام میں وہ منفرد تھے۔ اور بڑی سے بڑی طلق بات کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے پیش کردیتے تھے:
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا
مومنؔ کا یہ کمالِ فن اور شاعرانہ عظمت ہے کہ ان کی زباں و قلم سے بعض ایسے اشعار نکلے جو دوسرے شاعروں کیمکمل دیوان کے ہم پلّہ تھے۔ وہ ایک شعر میں بھی معنی و مفاہیم کی ایسی رنگارنگ کائنات بسادیتے تھے کہ ان کی تشریح میں مکمل کتاب لکھنی پڑ جائے۔ ایسے ان کے کئی اشعار ہیں۔ لیکن ایک شعر:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
جناب تقی صاحب کے مضمون کے بعد جناب وزیر احمد وزی?ر صاحب کو موم?ن کی ایک غزل پیش کرنے کی دعوت دی گئی ، جناب وزیر احمد وزیرؔ ، بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری ہیں اور مترنّم شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی آواز بڑی دلکش و دلپذیر ہے۔ آپ نے مومنؔ کی غزل کو بڑے ہی اچھے انداز میں پیش کیا اور سامعینِ سے خوب داد حاصل کی۔ آپ کی پیش کردہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
مرچک کہیں کہ تو غمِ ہجراں سے چھوٹ جائے
کہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح
نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں
کم بخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح
جناب مقصود انور مقصودؔ ، بزمِ اردو قطر کے نائب صدر ہیں اور آپ اپنی بے باک نظامت اور اپنے کلام کو پر اثر انداز میں پیش کرنے کے لئے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ قطر اور بیرونِ قطر قومی اورعالمی سطح کے مشاعروں میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کے سر، بھارت کے کچھ اردو ادبی تنظیموں کی ذمہ داری بھی ہے۔ آپ نے اس پروگرام میں ایک مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا "اردو ادب اور حکیم مومن خاں مومنؔ کی شاعری”۔ مضمون کی چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:
"اردو زبان و ادب کا وہ درخشندہ ستارہ، غالبؔ و ذوقؔ کا ہم عصر شاعر، طب، نجوم، رمل، موسیقی، شطرنج جیسے علم و فن میں منفرد مقام رکھنے والا، رنگا رنگی شخصیت کا حامل، جنھیں ہم مومن خاں مومنؔ کے نام سے جانتے ہیں، جن کے بغیر اردو زبان و ادب کی تاریخ نامکمل سمجھی جاتی ہے۔۔۔ مومنؔ کا مزاج عاشقانہ رہاہے۔ صاحب جی سے ان کا عشق کافی مشہور ہوا لیکن اس کے علاوہ بھی نصف درجن سے زیادہ ان کے معاشقے ثابت ہوئے ہیں، اور مومنؔ نے اپنے ہر عشق پر ایک مثنوی بھی لکھی ہے۔ مومنؔ کہتے ہیں:
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
مومنؔ کا کمال یہ تھا کہ وہ اپنے محبوب سے کوئی بات اس طرح کہتے جیسے اس کے بھلے کے لیے کہہ رہے ہوں لیکن فائدہ اپنا مقصود ہوتا تھا:
محفل میں تم اغیار کو دزدیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خوابِ ناز میں
ہم نہیں چاہتے کمی اپنی شبِ دراز میں
مومنؔ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ غالبؔ کی طرح نا قدری زمانہ ان کے ذہن کی الجھن نہ بنی۔ بلکہ خود غالبؔ ان کے مداحوں میں سرِ فہرست تھے۔”
جناب مقصود انور مقصودؔ کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے جناب افتخار راغبؔ کو مومنؔ کی ایک غزل پیش کرنے کی دعوت دی۔آپ کی شخصیّت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک با کمال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی سرگرم اردو دوست کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ یوں تو آپ کو اس بات کا علم ہوگا کہ آپ بھارت اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی شاعری کے حوالے سے دوحہ قطر کی نمائندگی کرتے رہتے ہیں اور آپ کے تین شعری مجموعۂ کلام مقبولِ خاص و عام ہوئے ہیں۔ آپ کئی برسوں سے بزمِ اردو قطر کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ آپ نے مومن خاں مومنؔ کی جس غزل کو اپنے شاعرانہ ترنّم میں پیش کیا اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا
الجھا ہے پانوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومنؔ میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا
جناب عتیق انظرؔ کا شمار دوحہ قطر کے قدیم اور مشہور و معروف شعراء میں کیا جاتا ہے۔ عتیق انظرؔ صاحب کا تعلق کئی ادبی تنظیموں سے رہا ہے۔ آپ ایک سینیئر شاعرکی حیثیت سے کء بڑے مشاروں کی زینت بن چکے ہیں۔ آپ کا ایک شعری مجموعہ بھی مقبولِ خاص و عام ہوچکا ہے جوکہ تقریباً بیس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ جناب عتیق انظرؔ نے مومن خاں مومنؔ کے متعلق اپنے خیالات کو پیش کیا، جس کے کچھ پہلو درجِ ذیل پیش کئے گئے ہیں:
"۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مومنؔ جیسا عظیم شاعر جو اپنے ہم عصروں میں کئی اعتبار سے ممتاز تھا۔ یہاں تک کہ بعض چیزوں میں غالبؔ سے بھی، بعض چیزوں میں ذوقؔ سے بھی، لیکن مومنؔ کا ذکر "آب حیات” میں نہیں ملتا، ۔۔اسے چھوڑ دیا گیا، بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ جان بوجھ کرکے چھوڑا گیا، اور اس کی وجوہات ہوں گی،۔۔ کچھ چیزیں آئی بھی ہیں۔۔ کتابوں میں۔۔۔ جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے ، لیکن مومنؔ کا ذکر اس میں (آبِ حیات میں) نہیں ہوا۔۔۔۔۔ پہلے اڈیشن میں،۔۔ پہلی اشاعت میں، اور اس کے بعد، اس وقت کے شعراء و ادباء نے کافی احتجاج کیا۔۔ اور اس میں پیش پیش رہے حالیؔ صاحب۔۔ تو دوسرے اڈیشن میں خود حالیؔ سے کہا گیا کہ آپ لکھ کر دیجئے – دوسرے ایڈیشن میں اس کو شامل کیا گیا۔”
جناب قاضی عبدالملک نے اپنی پیاری آواز میں حکیم مومن خاں مومنؔ کی ایک اور مشہورِ زمانہ غزل کو پیش کیا جس کے چند اشعار یوں ہیں:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ناظمِ مشاعرہ نے راقم الحروف (سید فیاض بخاری کمالؔ) جو کہ اس پروگرام میں مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے شامل تھا، کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ راقم الحروف کی تقریر کا کچھ اقتباس آپ کے تجسس کو کم کرنے لئے پیش کیا جارہا ہے:
"۔۔۔۔ وہ رندِ غزل خواں بھی ہیں، جہاد کے علمبردار بھی؛ وہ مثنوی ِجہادیہ بھی لکھتے ہیں اور مثنویِ قولِ غمیں بھی؛ مومنؔ کی آسودہ حالی اور مذہبیت نے ان کے اندر خود داری اور استشنائی شان پیدا کردی تھی۔ ان کو درباری قصیدہ گوئی سے قطعی نفرت تھی۔ انہوں نے شاعری اور طبابت کو کبھی ذریعہء معاش نہیں بنایا۔ وہ خوبصورت، جامہ زیب، خوش گلو، خوش وضع، خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شاعری میں طبیعت کی مناسبت سے دو پہلو نظر آتے ہیں، ایک پیچیدہ کلامی تو دوسری سادہ زبانی۔ سادہ زبانی کی مثال آپ نے ملاحظہ فرمائی:
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
” مومن نے بڑے جتن کئے، الفاظ کا جامہ پہنایا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے محبوب کو چھپا نہ سکے۔ ان کی شاعری سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا محبوب عام انسان ہے، فرضی اور خیالی نہیں۔ ان کا عاشق مجازی اور انسانی ہے، خانقاہی اور سماوی نہیں”
"نہوں نے مختلف رنگوں کی آمیزش سے ایک حسین نقش بنایا ہے؛ مومنؔ کی زندگی میں رند و زہد کی آمیزش کی یہ جھلک نمایاں ہے۔ یہاں نظارۂ جمال بھی ہے اور شوقِ وصال بھی؛ غرفہ و بام بھی ہے اور کوچۂ رقیب بھی؛ رشکِ غیر بھی ہے اور ہجرِ پردہ نشین بھی؛ پاسِ وضع بھی ہے اور نگاہِ شرم بھی؛ ‘شب بتکدے میں گزرے ہے اور دن خانقاہ میں’۔۔ مومن کی زندگی اور شاعری میں مختلف اور متضاد عناصر کی جھلک نظر آتی ہے اور ان کی شخصیت کعبہ و بت خانے کے درمیان معلق معلوم ہوتی ہے، ان کو اپنے شعلۂ دل کی تابش پر بھی ناز ہے اور معشوق سے بھی برابری کا جذبہ رکھتے ہیں اور معشوق کی برابری بھی کرتے ہیں۔
وہی حال ان کی خانگی زندگی میں بھی تھا۔ کہیں سسرال والوں سے سجادہ نشینی کے مقدمے لڑتے ہیں اور کہیں تقلید سے بیزار نظر آتے ہیں۔ کہیں استغاثہ کے اشعار کہتے ہیں کہیں شرک و بدعت کی بوچھاڑ کرتے ہیں، لیکن ایک چیز ان کی طبیعت میں مستقل رہی وہ میرے خیال سے اہلِ بیت کی محبت ہے جس کا وہ گاہے بگاہے ہروقت اظہار کرتے رہے ہیں۔بلا تفریق انہوں نے اردو ادب میں چار چاند لگانے کی کوشش کی ہے اور چار چاند لگائے ہیں۔ چاہے وہ غزل ہو مثنوی ہو یا حمد ہو یا نعت ہو اپنے فن میں اپنی مثال آپ ہیں۔۔۔۔”
اس ناچیزکے بعد ناظمِ مشاعرہ نے اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی، شاعرِ خلیج، فخر المتغزلین، جناب جلیلؔ احمد نظامی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی؛ آپ نے اپنے خیالات کا اظہارکچھ یوں فرمایا:
” کم و بیش سات یا آٹھ مضامین پڑھے گئے، اور میں سمجھتا ہوں کہ بزمِ اردو قطر کی جانب سے مومنؔ کی یاد میں یہ جلسہ یقینًا ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے کچھ مضامین میں یہ بات آئی کہ بعض موقعوں پر مومنؔ کا کلام غالبؔ سے بھی بہتر ہے۔۔ ظاہر ہے کہ مومنؔ، غالبؔ کے ہم عصر تھے، ذوقؔ کے بھی ہم عصر تھے، جہاں غالبؔ موجود ہوں وہاں مومنؔ کا ایک شعر بھی غالبؔ پر بھاری پڑجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس شاعر کو آبِ حیات میں ہونا چاہئے تھا بلکہ جہاں جہاں جب تلک غالبؔ کا ذکر ہوگا وہاں مومن کا ذکر ہونا چاہئے -غالبؔ کے تقابلی مطالعے کے لئے ایک شعر مجھے یاد آرہا ہے:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا (غالبؔ)
مومنؔ نے اسی خیال کو کس بلندی تک پہنچایا ہے دیکھیں:
پریشاں لاش پر آئے وہ میرے
تجھے اے زندگی لائوں کہاں سے (مومنؔ)
اس کے بعد جناب جلیلؔ احمد نظامی نے اپنے منفرد ترنّم میں مومن خاں مومنؔ کی ایک غزل پیش کی جس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہونگے
نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہونگے
تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہونگے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کرلے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہونگے
جناب جلیلؔ احمد نظامی کے بعد صدرِ جلسہ و بزم اردو، قطر کے چیئرمن،جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بطورِ صدر آپ نے جوتجزیہ پیش کیا اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
"۔۔۔جنابِ ناظم نے اپنی بات ختم کی اس شعر سے کہ:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اور اس محفل میں کئی بار اس کا ذکر آیا کہ یہ شعر سنتے ہی غالبؔ نے یہ کہا تھا میں مومنؔ کو آدھا دیوان دیتا ہوں، اس شعر کے بدلے میں۔۔ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہ بات غالب ؔنے اس وقت کہی ہوگی، جب یہ سودا چکانے کے لئے مومن خاں مومنؔ زندہ نہیں تھے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کہ وہ آدھا دیوان وہ ہو، (غالبؔ بہترین اڈیٹر بھی تھے، انہون نے اپنے دیوان کا خوب انتخاب کیا ہے) جو وہ نہ رکھنا چاہتے ہوں۔”
"نازک خیالی میں مومنؔ، غالبؔ سے بڑھ کر تھے۔۔۔۔۔ غالبؔ کا ایک شعر ہے کہ:
گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پاجائے ہے (غالبؔ)
شب تم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پاگئے (مومنؔ)
حالیؔ کے بقول بھی اس شعر میں محاورے کی نشست اور روزمرہ کی صفائی غالبؔ کے اس شعر سے بڑھ کرہے۔
اور غالبؔ کا ایک شعر ہے کہ:
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے (غالب)
مومنؔ کا یہ شعر ہے کہ:
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ (مومنؔ)
ایک شعر خاص طور سے، جہاں پہ مومنؔ غالبؔ سے بہت بڑھ گئے ییں۔غالبؔ کا یہ مشہور شعر ہے کہ:
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
مومنؔ کا شعر ہے کہ:
لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی
قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح
‘پھر مجھے کہہ لے اسی طرح’ نے شعر کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے”
جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے کئی اور اہم نکات کا ذکر کیا جس کا احاطہ کرنا اس تحریر میں پیش کرنے کی وقت اجازت نہیں دیتا۔
ناظمِ مشاعرہ، جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے اظہارِ تشکر کے بعد اس پروگرام کا آئنیدہ پروگرام تک ملتوی ہونے کا اعلان کیا۔

تبصرے بند ہیں۔