غالب انسٹی ٹیوٹ میں انشا اللہ خاں انشا پر سمینار کا انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’انشا اللہ خاں انشا اورہندوستانی روایت‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سمینارکاانعقادکیا گیا۔ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پروفیسرقاضی جمال حسین نے پیش کیاجلسہ کی صدارت نامور نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے کی، مہمانانِ خصوصی کے طورپر وی۔این۔رائے اور پروفیسر ارتضیٰ کریم نے شرکت کی۔غ

انشا اللہ خاں انشا اردو اورہندی کے لسانی رشتوں کی ایک بڑی علامت ہیں : وی۔این۔رائے

الب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی بھی اس افتتاحی اجلاس میں موجود تھے۔جلسہ کی نظامت ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے کی، ابتدا میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے سمینار کے سلسلے میں تفصیلات پیش کیں اور مہمانوں کااستقبال کیا۔پروفیسر قاضی جمال حسین نے انشا کے مطالعے کی دشواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ انشا کو توجہ کوساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ سرکاراور دربارسے وابستگی نے انشا کی شخصیت کومجروح کیاوہ جن صلاحیتوں کے مالک تھے اس کااظہارشعرونثر دونوں میں ہوا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اگر انشا کووہ ماحول نہ ملا ہوتاجس نے انشا کی شخصیت کوایک دوسری راہ پر لگا دیا تھاتو یقیناًانشا کی اور صلاحیتیں بھی سامنے آجاتیں۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے انشا کی معروف تصنیف دریائے لطافت اور رانی کیتکی کی کہانی کا بطور خاص ذکر کیاانہوں نے اس بات پر زور بھی دیا کہ دریائے لطافت کاجوقلمی نسخہ ہے اسے ہمیں دیکھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اس پر کیا صرف انشا کا نام ہے یامرزاقتیل اور انشا دونوں کاہے۔

انشاؔ نے اردو شعروادب میں ایک نئی انشا کی بنیاد رکھی:پروفیسر ارتضیٰ کریم

ارتضیٰ کریم نے انشا کے کچھ ایسے اشعار بھی سنائے جن میں انگریزی الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔مہاتماگاندھی انتر راشٹریہ وشوودھالیہ کے سابق وائس چانسلر اور ہندی کے معروف ادیب وی۔این۔رائے نے اس موقع پراردو اور ہندی کے لسانی رشتوں پرپُرمغز گفتگو کی ان کی تقریرمیں کچھ تاریخی اور تہذیبی حوالے بھی آئے۔ وی۔این رائے کازور اس بات پر تھاکہ اردو اور ہندی الگ تو ہوگئی مگراسے فطری طورپر الگ نہیں کیا جاسکتا دونوں کامزاج بہت حد تک ایک ہے اور اگر ہم انشا کو پڑھیں تواس سچائی کوتسلیم کرنا پڑے گاکہ ہمارا بنیادی مزاج تو ہندوستانی ہے۔

پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی صدارتی تقریر میں اردو اور ہندی کے رشتے پرانشا کے حوالے سے گفتگو کی۔انہوں نے فرمایاکہ بہت پہلے انشا نے اپنی تحریروں کے ذریعے ایک نمونہ پیش کردیاہے کہ ہماری نسل اور شاعری کو کیساہونا چاہیے لیکن ہم نے انشا کویادتوکیامگر ان کے اصل سبق کوفراموش کردیا۔ پروفیسرشمیم حنفی کایہ بھی خیال تھاکہ فارسی شعروادب سے اردو شعروادب کا سرمایہ مالامال ہوامگر دیکھنا یہ چاہیے کہ اس ثروت مندی کے نتیجے میں کیا کچھ ہماری گرفت سے باہر ہوگیا۔پروفیسر شمیم حنفی نے مزیدفرمایاکہ انشاایک مجمع الکمال شخصیت کے مالک تھے۔جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے اپنی گفتگو میں انشا اللہ خاں انشا کی زندگی اور ان کے ادبی کارنامے پرتفصیلی روشنی ڈالی۔

افتتاحی جلسہ کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تمام شرکاء کاشکریہ ادا کیا اور یہ فرمایاکہ اس افتتاحی جلسہ میں جوفضابنی ہے اس سے لگتا ہے کہ انشا پرہونے والایہ سمیناربہت بامعنی اور دلچسپ ہوگا۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے انشا کی ایک غزل کے اشعار بھی سنائے اور یہ بھی فرمایاکہ ہم انشاکی یہ غزل فراموش نہیں کرسکے۔افتتاحی اجلاس کے بعد سمینار کاپہلا اجلاس منعقد ہواجس میں معاذاحمد،ڈاکٹرمحضر رضا،ڈاکٹرشاذیہ عمیر،احسن ایوبی اورشمس بدایونی نے اپنے مقالات پیش کیے۔

اس جلسہ کی نظامت اور صدارت کے فرائض معروف تاریخ داں پروفیسر عزیزالدین حسین نے ادا کیے۔ پروفیسر عزیز الدین حسین نے اپنی صدارتی تقریر میں تمام مقالوں پر اظہار خیال کیا۔انہوں نے انشا کے عہد کی تاریخی اور تہذیبی صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور یہ بتایاکہ انشا کے عہدنے انشا کوکس طرح متاثر کیا۔ اس جلسے میں بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔

تصویر میں مائک پر: وین۔ این۔رائے،ڈاکٹر سرورالہدیٰ،پروفیسر قاضی جمال حسین،پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،پروفیسر ارتضیٰ کریم، ڈاکٹر سیدرضا حیدر

تبصرے بند ہیں۔