غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا انعقاد

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ماہانہ نشست کا اہتما م کیا گیا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔ اس موقع پر زاہد علی خاں اثر کی کتاب شعلہ آرزو پر گفتگو بھی ہوئی۔ ابرار کرت پوری نے کتاب پر اظہار خیال مکرتے ہوئے کہا کہ شعلہ آرزو ان کی زود گوئی اور تخلیقات کاغماز ہے۔ زاہد علی خاں اثر عروض کے ماہر نہیں ہیں وہ طبعیت اور سرشت میں موجودمو زونیت اور موسیقیت کی بدولت اچھے شعر کہتے ہیں جن میں محبوب کے سراپا سے لے کر معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں کی بھی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔

ڈاکٹر جی آرکنول نے کہا کہ شعلہ آرزو زندگی کے آخری لمحے تک موجود رہتا ہے۔ آج کے مقابلہ جاتی دور میں شعلہ آرزو ضروری ہے۔ نشست میں چشمہ فاروقی نے اپنا افسانہ آنکھوں، ترنم جہاں نے اپنا افسانچہ گمشدہ سورج پیش کیا۔ محمد خلیل نے قدرتی گھڑی کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون پڑھا۔ اس موقع پر موجود شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا.

شریک راہ سب اپنے تھے کوئی غیر نہ تھا

کیا ہے کسی نے میرا خون مجھے نہیں معلوم

ظہیر برنی

اوقات تبادے گا اسے اس کی زمانہ 

طاقت کا نشہ سرسے اتر جائے تو اچھا    

احمد علی برقی اعظمی

چھوڑ کر اپنا گھر کہاں جاتے

ہم کسی اور گھر کے تھے ہی نہیں

جی آر کنول

بزم جاں میں بکھر کے دیکھتے ہیں

آج حد سے گزر کے دیکھتے ہیں  

ابرار کرت پوری

قریب دل کے جو آیا ہے اس کو پیار کرو  

تم ایک بار نہیں، یہ ہزار بار کرو  

زاہد علی خاں اثر

اس گھٹن سے کوئی دے مجھ کو رہائی اسے کاش!

جاں لبوں پر ہے مری تازہ ہوا چاہتا ہوں

ایم آر قاسمی

میں سب کو بھول کر بس اس کو ہی یاد رکھوں   

اذاں کے بعد دعا کو جو ہاتھ اٹھائوں میں  

نگار بانو ناز

زندگی بھر یونہی گر گر کے سنبھلتے تھے عزیز

اس نے نظروں سے گرایا تو سنبھلنے نہ دیا      

افروز علی

سیکڑوں سال سے جاری ہے سخن کی محفل

دوسرا پیدا ہوا پھر بھی کوئی میسر نہیں   

فرمان چودھری

سستا نہیں ہے سر میرا جھک جائے جابجا

مجھ کوجھکانا ضد ہے تو خود کو  خدا کرو      

کملا سنگھ زینت

مانگو نہ دعا شاہد، گردش سے نکلنے کی

حالات بدلتے ہی احباب بھی بدلیں گے     

شاہد انور

کبھی صبح سے کبھی شام سے

ہمیں پیار تھا ترے  نام سے 

عزیزہ مرزا

ہزاروں سال کی بوڑھی یہ دنیا     

ابھی بھی خوبصورت نوجواں ہے  

عمران عاکف خان

اس موقع پر پنکھڑی سنہا نے اپنی کئی نظمیں پیش کیں۔ نشست میں سجاد رضوی، مظہر محمود، انور خاں غوری موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔