غربت سے پست ہند و پاک کی جنگ کس سے …

رویش کمار

سب نے وزیر اعظم کی اس تقریر کی تعریف کی تھی لیکن جلد ہی وہ تاریخی تقریر بھلا دی گئی- سرجیکل اسٹرائک کو لے کر دونوں طرف حب الوطنی اور حب الوطنی کے نام پر دہشت کی ایسی ہوا باندھی گئی کہ سوال کرنے والوں کو براہ راست غدار قرار دیا جانے لگا ہے-

 کئی مقامات پر اسٹرائک کی کامیابی کے سیاسی تیوروں والے پوسٹر لگائے گئے ہیں- ان پوسٹروں کے حوالے سے اسٹرائک کے سیاسی استعمال پر بحث ہونے لگی ہے- ہمارے ساتھی اکھلیش شرما کے مطابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جو مجاز ہیں وہی سرجیکل اسٹرائک معاملے سے متعلق بیان دیں اور فالتو بیان بازی نہ ہو- اکھلیش کی ہی خبر ہے کہ سرجیکل اسٹرائک  کی کامیابی پر وزیر دفاع منوہر پاریکر کا آگرہ اور لکھنؤ میں  استقبال و احترام کیا جائے گا- فیصلے کے لئے پی ایم اور فوج کو مبارک باد دی جائے گی. دونوں طرح کی خبریں ساتھ ساتھ آتی ہیں. کمال خان نے بتایا ہے کہ اس بار لکھنؤ میں دہشت کا راون بنے گا جس کی آتش زنی وزیر اعظم کرنے والے ہیں-

 وزیر اعظم مودی نے کیرالہ کی تقریر میں پاکستان کی عوام سے بھی غربت کے خلاف جنگ میں آگے آنے کے لئےکیا تھا- میڈیا نے دو چار پاکستانی فنکاروں کو لے کر بحث پورے ملک پر تھوپ دی- ادھر سے آرٹسٹ ادھر بھگانے کی بات پر ہنگامہ ہونے لگا اور ادھر سے ٹی وی کے خانوں میں پاکستانی  فوجی سربراہ بحث کے لئے بلائے جاتے رہے-  زمانے سے جے جوان جے کسان کی جوڑی میں ہی ہم کسان اور فوج کو دیکھتے رہتے ہیں-

 پنجاب کے صاحبان گاؤں کے جسونت سنگھ منگل کو اپنے پانچ سالہ بیٹے جسكرن کو باںہوں میں بھر کر نہر میں کود گئے- عینی شاہدین نے ایسا کہا ہے- انہیں جے کسانوں کے گھر سے آپ کے جے جوان آتے ہیں لیکن 10 لاکھ کے قرض تلے دبا یہ کسان اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے نہر میں کود گیا. لاکھوں کروڑ کا قرض سرمایہ داروں پر ہے، کیا آپ نے کبھی سنا کہ ان میں سے کوئی اپنے بیٹے کو لے کر نہر میں کود گیا ہو- وہ بھاگتے بھی ہیں تو لندن چلے جاتے ہیں- جسونت کی ایک بیٹی ہے جو اسکول جاتی ہے اور بیوی ہے. ڈیڑھ ایکڑ زمین ہے- جے جوان کا ساتھی جے کسان خود کشی کر رہا ہے. ٹی وی حب الوطنی پیدا کرنے کے نام پر کچھ لوگوں کو دشمن بنا رہا ہے اور کچھ لوگوں کو محب وطن. اسے روکنا نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں ہے. ٹی وی اب پروپیگنڈہ مشین ہے اور آپ اس کے چارہ-

 ایسا نہیں ہے کہ میڈیا میں کسانوں کی خود کشی کی خبریں نہیں آتی ہیں. آتی رہتی ہیں. لیکن جب ضرورت سے زیادہ ٹی وی پر گولی بندوق چلانے کی پرانی ریکارڈنگ چلنے لگے تو مسئلہ ہے. اس مسئلے کا احساس تب ہوگا جب آپ کسی مسئلہ سے گھرے ہوں گے، آواز لگا رہے ہوں گے کہ میڈیا آئے ، مگر ٹی وی کھولیں گے تو وہی گولی بندوق چلانے کی پرانی ریکارڈنگ چل رہی ہوگی- گاؤں کے ہی لوگ شہید ہو رہے ہیں، گاؤں کے ہی لوگ خود کشی کر رہے ہیں- شہر کے لوگ جنگ کے نام پر ویڈیو گیمز کھیل رہے ہیں- بہر حال وزیر اعظم مودی کی اس بات کو بحث کے مرکزی حصہ کے طور پر کس طرح لایا جائے کہ غربت-غذائی قلت کے خلاف جنگ ہو-

 پاکستان کے اخبار ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر ہے 21 جون 2016 کی- تب پاکستان کی غربت پر کثیر جہتی رپورٹ شائع ہوئی تھی- اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ 2004 میں 55 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے تھے لیکن 2015 میں 29.5 فیصد غریب رہ گئے. 10 میں سے چار پاکستانی انتہائی غربت میں رہتے ہیں یعنی چالیس فیصد پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں- بلوچستان میں سب سے زیادہ لوگ غریب ہیں. اس کا ایک ضلع ہے قلعہ عبداللہ جہاں 97 فیصد لوگ غریب ہیں. فاٹا کے علاقے میں چار میں تین لوگ غریب ہیں- سندھ کی 43 فیصد آبادی انتہائی غریب ہے. رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60.6 فیصد آبادی کے پاس رسوئی گیس نہیں ہے. 48. 5 فیصد بچے اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے ہیں- 38 فیصد آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے-

 پاکستان کی آبادی19-18 کروڑ ہے- چھ کروڑ لوگ غریب ہیں. عالمی بینک کی بالکل حال فی الحال کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان  اور پاکستان دونوں کے لئے غربت کو مٹانا ایک چیلنج بھرا کام ہے- عالمی بینک کے مطابق پاکستان ان ممالک میں ہے جہاں غریبوں کی آمدنی کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے- ہندوستان ان ممالک میں جہاں غریبوں کی آمدنی اوسط سے کم رفتار پر بڑھ رہی ہے- جبکہ بھارت دنیا کی سب سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے- یہ سب عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے- اس رپورٹ کے مطابق کچھ علاقوں میں ہندوستان پاکستان سے آگے ہے تو کچھ میں پاکستان ہندوستان سے آگے ہے- بھارت میں 21.9 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے- پاکستان کی 29.5 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے-

 عالمی بینک کا اپنا پیمانہ ہے، ہندوستان کا اپنا پیمانہ ہے پھر بھی غربت حقیقت تو ہے ہی- ایک عجیب بات ہے کہ لیڈر اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے لئے ہمیشہ غربت کی بات کرتا ہے، میڈیا لیڈر کو بچانے کے لئے ہمیشہ غربت کی بات نہیں کرتا- عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں امید ظاہر کی ہے کہ بنگلہ دیش اگر اسی طرح سے اقتصادی بہتری کرتا رہا تو 2030 تک غربت سے آزاد ہو جائے گا- ویسے غربت سے نہ تو امریکہ آزاد ہوا ہے اور نہ برطانیہ-

 متوقع  زندگی یعنی ہندوستان میں اوسطا لوگ 68 سال تک جیتے ہیں جبکہ پاکستان میں 66 سال تک- سال 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں فی ایک ہزار میں 37.9 نوزائیدہ بچوں کی موت ہو جاتی ہے- پاکستان میں 1000 میں سے 65.8 نوزائیدہ بچوں کی موت ہو جاتی ہے- غذائی قلت کے معاملے میں ہندوستان پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہے لیکن ہندوستان میں بھی 15.2 فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں-

 اگر آپ جی ڈی پی کی بنیاد پر موازنہ کریں گے تو ہندوستان کا جی ڈی پی 2.07 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی 270 بلین ہے- ہم کھربوں میں ہیں اور وہ اربوں میں ہیں- پرچیزنگ پاور یعنی خریداری کی طاقت کے معاملے میں دونوں ملک آس پاس ہی ہیں- پاکستان کی فی کس آمدنی 4,450.00 امریکی ڈالر ہے- بہندوستان کی فی کس آمدنی 4,735.00 امریکی ڈالر ہے- ہندوستان میں سو میں سے 74 افراد کے پاس موبائل فون ہیں، پاکستان میں 73 افراد کے پاس ہیں- کس بنیاد پر موبائل فون انڈیکس بنتا جا رہا ہے مجھے نہیں پتہ، لیکن تذکرہ  کرنے میں کیا حرج ہے- ہندوستان  اور پاکستان جب غربت سے جنگ کریں گے تب انہیں فوج پر خرچ ہونے والے بجٹ پر بھی غور کرنا ہوگا. بھارت جی ڈی پی کا 2.42٪ سیکوریٹی پر خرچ کرتا ہے تو پاکستان – جی ڈی پی کا 3.57٪-

 بدھ کو سوراج مہم کی درخواست پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں غذائی قلت سے ہونے والی اموات کے معاملے میں کافی سخت تبصرہ کیا ہے- کورٹ نے کہا ہے کہ آپ کو کیا لگتا ہے ہم یہاں مزے لینے کے لئے بیٹھے ہیں- کورٹ کا یہ تبصرہ بتا رہا ہے کہ مایوسی کتنی گہری ہوتی جا رہی ہے- اچھا ہے غذائی قلت کے شکار لوگ ٹوئٹر کے ٹائم لائن پر نہیں ہیں ورنہ روز منفی باتوں سے ملک کا مزاج خراب ہو رہا ہوتا- سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے میڈیا رپورٹ دیکھی ہے کہ مہاراشٹر میں 600-500 بچوں کی غذائی قلت سے موت ہوئی ہے. آپ کو لگتا ہے کہ بڑی آبادی والے ملک میں کچھ لوگوں کے غذائی قلت سے مرنے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے-

 پاکستان کے ڈان اخبار کی اکتوبر 2015 کی خبر ہے کہ صوبہ سندھ کے ایک ضلع میں 143 بچے غذائی قلت سے مر گئے تھے- اسی اخبار کی فروری 2016 کی ایک خبر کے مطابق اسی ضلع میں چارماہ کے اندر اندر غذائی قلت کے شکار 2599 بچے ہسپتا لوں میں داخل کئے گئے ہیں-

 پاکستان میں غریبوں کے تئیں اپنی زندگی وقف کرنے والے عبد الستار يدھي کا جب انتقال ہوا تو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان کے آخری دیدار کے لئے ہزاروں لوگ امڈ پڑے- جس پاکستان کو ہم دہشت گردی کا گڑھ سمجھتے ہیں وہاں ایک ہیرو ایسا بھی تھا جو غربت کے خلاف لڑتا ہوا ہیرو بنا تھا- الجزیرہ نے لکھا ہے کہ جولائی میں جب ايدھي صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں لاکھوں لوگ آئے- ان کا قومی اعزاز کے ساتھ آخری رسم ادا کیا گیا. فوج نے بھی سلامی دی- ايدھي صاحب گجرات کے رہنے والے تھے اور 1947 میں پاکستان چلے گئے تھے-

 اگر ہندوستان اور پاکستان کو غربت سے جنگ لڑنی ہے تو اس کی شكل و صورت کیا ہو سکتی ہے- اس کے ہیرو کون ہو سکتے ہیں. پوری دنیا میں اقتصادی فرق بڑھ رہا ہے- ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں آدھی دنیا کے برابر کی ملکیت آ گئی ہے- غربت سے حقیقی لڑائی تو ان ایک فیصد امیروں سے ہونی چاہئے لیکن پھر بھی جب بات ہو گئی ہے تو اس ہنگامے میں کیا خطرہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ ہندوستاناور پاکستان مل کر غربت سے جنگ کا اعلان کر دیں-

مترجم: شاہد جمال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔