غرور اور تکبر کا انجام ندامت ہے

حفیظ نعمانی

صحافت کی چوٹی پر پہونچنے والے ایم جے اکبر شوقین تو بہت تھے لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ کھلاڑی نہیں ہیں۔ پروردگار نے انہیں جتنا علم اور شعور دیا تھا اتنا ہی مردانگی کا خزانہ بھی دیا تھا۔ وہ اگر مذہب کی پابندیوں کا خیال کرتے تو ایک یا دو شادیاں اور کرلیتے اتنا نیچے نہ گرتے کہ ان سے صحافت کی تربیت پانے والی 20 لڑکیاں ایک دوسرے کی کمر پکڑکر کھڑی ہوگئیں اور وہ جو 97 وکیلوں کی فوج لے کر عدالت گئے تھے انہیں شکست تسلیم کرنے میں ہی عافیت نظر آئی اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

اکبر صاحب جس وقت نائیجیریا سے واپس آئے تھے تو شہرت ہوئی تھی کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ آج کی خبروں میں بھی اس کا ذکر ہے کہ انہوں نے استعفیٰ بھیج دیا تھا مگر اسے دبا لیا گیا۔ اب اکبر صاحب کے لئے زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ وہ بیان دیتے کہ میں تو استعفیٰ دے چکا ہوں اس کا منظور کرنا نہ کرنا وزیراعظم کا کام ہے تو یہ تعداد 20 نہ ہوتی۔

ہم ملک کے گنے چنے جن بڑے صحافیوں سے واقف ہیں ان میں ایک چیلاپتی راؤ تھے جو نیشنل ہیرالڈ کے بانی ایڈیٹر تھے اور پنڈت نہرو سے اگر کوئی ہیرالڈ کے بارے میں کچھ کہتا تھا تو وہ کہہ دیا کرتے تھے کہ اخبار چیلاپتی راؤ کا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1967 ء میں اندرا گاندھی نے لکھنؤ سے وی آر موہن کو ٹکٹ دے دیا جو شراب کی اس بہت بڑی فیکٹری کے مالک تھے جو ’’ڈائرمیکن‘‘ ہوا کرتی تھی اور کانگریس کا اُمیدوار بننے کے لئے اسے موہن میکن کا نام دے دیا تھا۔ اس فیصلہ سے ہر مخلص کانگریسی ناراض تھا۔ اندراجی نے پورے صفحہ کا ایک اشتہار ہیرالڈ قومی آواز اور نوجیون کا ایک تھا اس کے منیجر چیلاپتی راؤ سے واقف تھے انہوں نے وہ اشتہار اندراجی کے حکم کے ساتھ راؤ صاحب کی میز پر لے جاکر رکھ دیا۔ راؤ صاحب نے اسے اٹھایا اور مسل کر اس کی گولی بنائی اور ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اور دوسرے دن پورے صفحہ کا اشتہار صرف قومی آواز اور نوجیون میں چھپا ہیرالڈ میں نہیں چھپا۔

ایک روپ ہم نے خود یکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب شاید تینوں اخباروں کا دس سالہ جشن منایا جارہا تھا یا کوئی اور تقریب تھی بارہ دری قیصر باغ کے برابر والے پارک میں کھانے کا انتظام تھا پنڈت جی اور دوسرے وزیر بھی دہلی سے آئے تھے مہمانوں کے لئے الگ الگ انتظام تھا ہیرالڈ نوجیون قومی آواز کے اسٹاف کے لوگ ایک لائن میں تھے ان میں نہ قومی آواز کے ایڈیٹر تھے نہ نوجیون کے لیکن ہیرالڈ کے ایڈیٹر چیلاپتی راؤ اپنے ساتھیوں کے پاس بیٹھتے تھے۔

کھانا شروع ہوگیا تو چند منٹ کے بعد دو کانگریسی آئے اور چیلاپتی سے کہا کہ پنڈت جی یاد کررہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جاؤ کہہ دو آرہے ہیں۔ پھر کھانے اور باتوں میں مصروف ہوگئے پنڈت جی نے کھانے کے درمیان پھر معلوم کرلیا کہ ارے وہ چیلا پتی کہاں ہیں؟ پھر دو نیتا دوڑے کہ ہم بلاکر لاتے ہیں۔ وہ جب آئے تو چیلاپتی کے ہاتھ میں مرغ کی ٹانگ تھی وہ کھانے ہی جارہے تھے کہ دونوں نے کہا کہ وہ آپ کو پنڈت جی یاد کررہے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ وزیراعظم کا نام سن کر وہ دوڑے آئیں گے مگر وہ خود قلم کے بادشاہ تھے انہوں نے کہا کہ میں مرغے کی ٹانگ نوچ نوچ کر کھا رہا ہوں کیا ایسے پنڈت جی کے سامنے کھاسکوں گا؟ ہمیں یہاں کھانے کے لئے بلایا گیا ہے وزیراعظم کی دربارداری کیلئے نہیں جاؤ کہہ دو آرہے ہیں۔ یہ ایک صحافی کے قلم کی طاقت تھی کہ پوری مرکزی حکومت کو وہ ٹھوکر پر مارتے تھے۔ ایم جے اکبر کے پاس بھی قلم ہی تھا اگر مودی جی نے انہیں لیا تو صرف قلم اور ان کی انگریزی کی وجہ سے انہیں اسٹریٹ گرلز کہی جانے والی لڑکیوں نے دبا لیا اور چیلاپتی کا کردار تھا کہ وزیراعظم کا حکم کوڑے کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

چیلاپتی راؤ نے اپنی زندگی صحافت میں ہی گذار دی اور بہت قریبی جاننے والے ہی جانتے ہوں گے کہ ان کی خانگی زندگی میں کون کون ہے؟ اس لئے کہ انہوں نے شاید اتنا قریب کسی کو نہیں آنے دیا جو گھر میں جھانک سکے۔ اکبر صاحب کی بھی اپنے میدان میں اتنی ہی عظمت تھی لیکن انہوں نے جو کیا اور جس جس کے ساتھ کیا اس بھروسہ کے ساتھ کیا کہ وہ اس پر فخر کیا کریں گی کہ ایم جے اکبر نے ہمیں پیار کیا تھا یہی ان کی بھول ہے وہ اگر اتنے ہی اتاولے ہورہے تھے تو ہندوستان میں عصمت کی کیا کمی جیب میں پیسے ہوں تو ہر رات بستر کی چادر بدلنے کے ساتھ جسے ہم بستری کے لئے بلایا ہے اسے بھی بدل دیجئے قانون جیسا ہے وہ ان کو معلوم ہے اور دھرم میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، بابا رام رحیم ہوں یا بابا آسارام آج وہ جیل سے باہر آجائیں تو پھر ان کے دربار میں اتنی ہی گوپیاں آجائیں گی جتنی پہلے تھیں۔

ایم جے اکبر نے ہتک عزت کا دعویٰ کرکے بہت بڑی غلطی کی وہ جو بھی کہتے تو اس کا کوئی ریکارڈ نہٰں تھا اگر اخبار میٰں چھپا ہوتا تو فائل نکال کر دیکھا جاسکتا تھا اور اگر ٹی وی پر کہا تو ٹیپ کو سنا جاسکتا تھا۔ اگر ایک لڑکی کہے کہ میرے 18 سالہ حلق میں اکبر صاحب نے اپنی 55 سالہ زبان گھسیڑ دی یا دوسری کہے کہ پانچ ستارہ ہوٹل میں ملنے کے لئے بلایا اور میں نے جب جاکر دروازہ کی گھنٹی بجائی تو اکبر صاحب صرف انڈر ویئر پہنے کھڑے تھے کیا ایک مہمان لڑکی کا اس طرح استقبال کیا جاتا ہے؟ تو اگر کوئی حکومت کے جوتے کے نیچے دبا ہوا جج ہوتا یا خریدا ہوا ہوتا تو کچھ بھی کرتا ورنہ ہر جج ان لڑکیوں کی حمایت میں فیصلہ دیتا۔

آزادی کے بعد سے سیاست کی دنیا میں تو لڑکیوں کا عمل دخل ہوگیا تھا۔ صحافت کی دنیا میں وہ اس وقت سے آنا شروع ہوئیں جب سے ٹی وی کے پردہ پر اچھی آواز کے ساتھ اچھی صورت کی بھی مانگ ہونے لگی اور جو اُن دونوں میں سے کسی چیزمیں فیل ہوئی تو وہ پرنٹ میڈیا میں قسمت آزمانے کے لئے آگئی۔ اخبارات کی دنیا میں مالکوں کے بعد سب سے اہم عہدہ ایڈیٹر کا ہوتا ہے۔ اب اگر ایڈیٹر حیات اللہ انصاری جیسا گاندھیائی یا چیلا پتی راؤ جیسا اصول پسند ہو تو صرف لڑکی کا کام دیکھا جائے گا اور ایسے نام سنے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے کرسی پر رہی اور عزت کے ساتھ رخصت ہوئی ورنہ ایسی کہانیاں تو نہ جانے کتنی ہیں کہ نوکری کیلئے نام کام اور عزت سب کچھ قربان کردیا۔ اس لئے کہ یہ اب فخر کی بات ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کما رہے ہیں اور شان و شوکت کی ہر چیز گھر میں ہے۔

ایم جے اکبر کے استعفے کے بعد اس کہانی کا ایک باب ختم ہوگیا انہوں نے منھ پھٹ لڑکی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جس کے مشورہ سے بھی دائر کیا ہو وہ فیصلہ غلط تھا مقدمہ کا جو موضوع ہے اس میں کوئی ان کے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتا تھا انہیں مقدمہ دائر کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس لڑکی یا دوسری لڑکیوں سے اگر کوئی اختلاف ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اب تک جتنی باتیں سامنے آئی ہیں ان سے ثابت ہوا ہے کہ اکبر صاحب جنسی بھوک کے مریض ہیں اور بوٹی دیکھتے ہی ان کے دانت بجنے لگتے ہیں اور پھر وہ کچھ بھی سوچے بغیر منھ مار دیتے ہیں۔ ایسے آدمی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کس کو دیکھ کر کیا ہوا تھا ایسے مریض کو مقابلہ کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔