غریبِ شہر تو فاقے سے مرگیا

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

    چند دن قبل یہ دلخراش خبر عام ہوئی کہ مراد آباد کی رہنے والی غریب خاتون امیر جہاں بھوک اور فاقہ کی وجہ سے انتقال کرگئی، اخباری اطلاع کے مطابق امیر جہاں اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ مرادآباد میں ایک کرائے کے مکان میں رہتی تھی،تقریبا 15 دنوں سے فاقہ کشی کی حالت سے یہ گھر گذرہا تھا،25جنوری جمعرات کو امیر جہاں کے ایک پڑوسی نے انہیں کھانے کے لئے6 روٹیاں دی،جسے امیر جہاں نے اپنی بیٹیوں کو کھلادیا اور ایک مرتبہ پھر بھوکے پیٹ سوگئیں، جمعہ کی صبح کو وہ بیدار نہیں ہوئی بلکہ بھوکی سوئی ہوئی امیر جہاں موت کی آغوش میں جاچکی تھی۔ امیر جہاں کی بیٹی ریحانہ کے بقول گزشتہ15دنوں سے ہمارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا،کچھ دن تو ہم نے پانی پی کرگذاراکیا،ہماری حالت پر ترس کھاکر ہمارے پڑوسی جو کچھ ہمیں دیتے اسی پر ہمارا گذاراہوتا،والدہ سے چھوٹی بہنوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی، وہ بھوک سے تڑپتی تھیں تووالدہ بھی بے چین ہوجاتی، اسی لئے ہمارے منع کرنے کے باوجود ماں یہ کہہ کر پوراکھانا ہمیں دیتی تھی کہ وہ ہم سے زیادہ مضبوط ہے اور آسانی سے خالی پیٹ گذاراکرسکتی ہے، انہوں نے پچھلے چار دنوں سے کچھ نہیں کھایاتھا،اسی حالت میں ان کی موت واقع ہوگئی۔

    اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد یقینا ہر انسانی ہمدردی رکھنے والادل تڑپ اٹھے گا کہ آج کی چکاچوندترقی، اسباب وسائل کی بہتات، متاعِ عیش وعشرت کی فراوانی،مال ودولت کی کثرت اور غذائی اشیاء و سامان ِخوردونوش کی متنوع چیزوں کے باوجود کتنے گھرانے فاقہ وبھکمری کی حالت میں جی رہے ہیں، جنہیں ایک وقت کا کھانابھی نصیب نہیں ہے اور قوت لایموت جتنی مقدار بھی فراہم نہیں ہورہی ہے، تنگدستی، کس مپرسی،بے چارگی، فاقہ کشی کی حالت میں زندگی گزارتے ہوئے وہ اس دنیا سے چلے جارہے ہیں ۔ بچوں کی بھوک مٹانے اور انہیں راحت پہنچانے کے لئے غریب اور پریشان حال ماں باپ کے پاس کچھ نہیں ہے، بلکہ اگر کسی کا باپ نہیں صرف ماں ہے اور وہ ماں بھی پردہ دار، خوددار اورغیرت مند کہ جسے دست ِ سوال درازکرنے اور اپنی محتاجی کا ڈھنڈوراپیٹنے میں شرم وحیا روک دیتی ہے وہ کس طرح اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتی ہے۔اور دوسری طرف دیکھیں تو جن کو اللہ تعالی نے وسعت اور فراوانی عطاکی ہے اور غلہ واجناس کے ڈھیر گھر میں پڑے ہوئے ہیں، قسم قسم کے کھانے صبح وشام بن رہے ہیں، دسترخوان عمدہ اور مزہ دار کھانے سے سجا ہوا ہے،معمولی معمولی تقریبا ت اور چھوٹی چھوٹی دعوتوں میں انواع واقسام کے کھانے تیارکئے جارہے ہیں، اورپھر بڑی بے دردی کے ساتھ کھانے کو نالیوں میں، کوڑاکرکٹ میں پھینک بھی دیا جاتا ہے، بچے کچے کھانے کو ضائع کردیا جاتا ہے، جنہیں رمق برابراحساس تک نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے کتنی عظیم نعمت سے نوازا ہے؟جاننا چاہیے کہ اس ترقی یافتہ دور میں دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کروڑوں لوگ بھوک اور فاقہ کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں، خود ہمارے ملک میں ہرسال لاکھوں لوگ بھوک کی وجہ سے اور غذائی اشیاء کی عدم ِ دستیابی کی بناء پر موت کے گھاٹ اتررہے ہیں، ایک طرف ملک کی ترقی کے بلند بانگ دعوے ہیں اور دوسری طرف غربت،فاقہ کشی، مجبوری ولاچاری سے دوچار ان گنت افراد چند لقموں کے محتاج بنے موت وحیات کی کشمکش سے گزررہے ہیں ۔

    ہمارا تعلق سے تو اس اسلام سے ہے جس نے بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ اس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ بھوکوں کو کھاناکھلائے،محتاجوں کی ضرورت کو پورا کرے،پریشان حالوں کے کام آئے،اوراپنے گردوپیش سے بے خبر نہ رہے،اس کے پڑوس میں کوئی بھوکا رہنے نہ پائے۔اس سلسلہ میں قرآن وحدیث میں جو اہمیت بیان کی گئی ہے اور کھاناکھلانے کی ترغیب اور اس عمل کو انجام دینے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے اس کو مختصرملاحظہ کریں ۔ قرآن کریم میں طعم اور طعام کے مصدر سے 48الفاظ آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی یعنی 16الفاظ کھاناکھلانے کی تاکید اور فضیلت کے بارے میں یاکسی دوسرے صاحب ِ حیثیت کو کھاناکھلانے کی ترغیب وتحریض دلانے کے بارے میں ہیں ۔ ( اسلام میں رفاہ عام کا تصور:86) چناں چہ قرآن کریم میں نیک بندوں کی صفات کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیماواسیرا انما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزاء ولاشکورا۔ ( الدھر:8،9)اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اورقیدیوں کو کھاناکھلاتے ہیں، (اوراُن سے کہتے ہیں کہ:)ہم توصرف اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کھلارہے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں، اورنہ کوئی شکریہ!۔جو لوگ بھوکوں کو کھاناکھلانے سے اعراض کرتے ہیں اور صاحب ِ حیثیت ہونے کے باجود کھانانہیں کھلاتے ان کے بارے میں سخت مذمت بھی آئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:انہ کان لایؤمن باللہ العظیم  ولایحض علی طعام المسکین۔ ( الحاقہ :33،34)یہ نہ تو خدائے بزرگ وبرترپر ایمان لاتا ہے اور نہ غریب کوکھاناکھلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ نیک لوگ جہنمیوں سے پوچھیں گے کن کاموں کی وجہ سے تم جہنم میں ڈالے گئے ؟تو جہنمی جہاں اپنے کرتوں کو بیان کریں گے وہیں یہ بھی کہیں گے:ولم نک نطعم المسکین۔ ( المدثر:44) اورہم مسکین کو کھانانہیں کھلاتے تھے۔

مسکینوں اور بھوکوں کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاگیا:فکلوامنھا اطعموالبائس الفقیر۔( الحج:28)چناں چہ ( مسلمانو!) اُن جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اورتنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو بھوکوں کو کھاناکھلانے کی ترغیب دی اور اس عظیم خدمت کی فضلیت اتنی بیان کی کہ ان حضرات کا معمول بن گیا تھا کہ خود بھوکے رہتے لیکن کسی کو بھوکا رہنے نہیں دیتے، خود فاقہ برادشت کرلیتے لیکن کسی پڑوسی کو فاقوں میں رکھنا ان کے لئے مشکل تھا،ایثاروقربانی ان کے رگ وپے میں سرایت کرگئی تھی اور وہ مسافروں، مسکینوں، محتاجوں اوربھوکوں کو کھلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، اُ ن کی اِن ہی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن میں فرمایاگیا:ولایجدون فی صدورھم حاجۃ ممااوتوا ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ۔ ( الحشر:9) اورجو کچھ اُن ( مہاجرین) کو دیاجاتا ہے،یہ اپنے سینون میں اُس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اوران کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزررہی ہو۔

     نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:ماامن بی من بات شبعان وجارہ جائع الی جنبہ وھو یعلم بہ۔ (طبرانی:)کہ وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا جو ایسی حالت میں اپناپیٹ بھرکے رات کو بے فکری سے سوجائے کہ اس کے برابر رہنے والا پڑوسی بھوکا ہواور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا:اطمعوالجائع۔ (بخاری:4979)کہ بھوکوں کو کھاناکھلاؤ۔ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:ایما مؤمن اطعم مؤمناعلی جوع اطعمہ اللہ یوم القیامۃمن ثمار الجنۃ۔( ابوداؤد:1434)کہ جو کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا:ای الاسلام خیر؟کہ بہترین اسلام کیا ہے؟نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے ان کو جواب ارشاد فرمایا:تعطم الطعام وتقری السلام علی من عرفت ومن لم تعرف۔(بخاری:۱۱)کہ تم کھاناکھلاؤ اورجاننے اورنہ جاننے والوں دونوں کو سلام کرو۔اس طرح کے بہت سے ارشادات ہیں جن میں نبی کریمﷺ نے بھوکوں کوکھاناکھلانے کی فضیلت بیان کی اور عملی طور پر بھوکوں کو کھاناکھلاکر بتلایااور صحابہ کرام کو اس عمل پر ابھارا۔

    ان آیات واحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی بھوکوں کو کھاناکھلانے والے بنیں، اپنے کھانے کو نالیوں میں ضائع ہونے سے بچائیں، اپنی دعوتوں میں، شادیوں میں کھانے کی بربادی ہونے نہ دیں، اپنی گھروں میں کھانے کو پامال ہونے سے بچائیں، گھر پر دستک دینے والے بھوکے فقیر کو ضرور کھلاکر بھیجیں، اپنے پڑوس میں رہنے والے مسلمان وغیر مسلم پڑوسی کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر کوئی پریشان وتنگ دست ہو تو اس کی ضرورت کو پوراکرنے والے بنیں، غریب پڑوسی رہتے ہوں تو ضرور کچھ نہ کچھ ان تک کھانے وغیرہ کو پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم تو اپنے منہ کے مزوں میں لگے رہیں، اعلی سے اعلی کھانے کھاتے رہیں اور ہمارے پڑوس میں، ہمارے محلے میں کوئی مجبور ولاچار بھوک وافلاس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جان دیدے تو یقینا ہم مجرم بن کر خداکے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔

اگر ہماری دعوتوں میں یا ہمارے گھروں میں کھانا بچ رہا ہوتو غریب بستیوں میں اس کو پہنچانے کی فکر کریں، اس کی ایک مثال بطورنمونہ ذکر کی جاتی ہے کہ شہر حیدرآباد میں قائم صفا بیت المال انڈیا کے مرکزی دفتر کی جانب سے جہاں بہت ساری خدمات اس وقت مثالی انداز میں انجام دی جارہی ہے ان ہی میں ایک نئی خدمت کا آغاز بھی ان لوگوں نے حیدرآباد میں کیا ہے، شہر حیدرآباد میں بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں جو دوپہر میں اعلی قسم کا کھانا تیار ہوتا ہے وہ بڑی مقدار میں بچ جاتا ہے، رہنمائی کے بعد یہ کام شروع کیا گیا کہ اس کھانے کو وہاں سے حاصل کرکے سلم بستیوں میں اورغریب محلوں میں اچھے انداز میں پیاک کرکے تقسیم کیاجارہا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں گھرایک وقت پیٹ بھر کے کھانے کی نعمت سے فائدہ اٹھارہے ہیں، اور وہ کھانا جو پہلے پھینک دیا جاتا تھایاضائع ہوجاتاتھا اب کسی غریب کے پیٹ جاکر دعاؤں کے حصول کا ذریعہ بن رہاہے۔تھوڑی سی خدمت اور محنت کے نتیجہ میں بہت سے ضرورت مندوں کا پیٹ بھر رہا ہے۔

ہم کم از کم اپنی دعوتوں میں بچا ہوا کھانا ضائع کرنے کے بجائے غریبوں میں تقسیم کریں، اپنے گھر میں بچاکر سڑادینے یا نالیوں میں پھینک دینے کے بجائے غریبوں تک پہنچائیں، اس کی وجہ سے جہاں ہماراکھاناضائع نہیں ہوگا، ہمیں ثواب ملے گا وہیں کتنے گھروں میں کچھ راحت آئے گی،فاقہ زدہ چہرہ پر زندگی کی بہارآئے گی اوربھوک مٹے گی، بالخصوص ایسے گھروں کو تلاش کریں جہاں مرد نہ ہو اور بیوہ عورت اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں لگی ہو،یا ایسے معذور مرد جو کام کاج سے بالکل محروم ہوں تو یقینا اس سے عظیم خدمت بھی انجام پائے گی،چوں کہ بعض غیرت مندخواتین اورمعذورواپاہج مردایسی بھی ہوتے ہیں جو فاقوں کو برادشت کرلیتے ہیں لیکن کسی سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے،تنگدستی کی زندگی بسرکررہے ہوتے ہیں لیکن اس کا اظہارتک نہیں کرتے،ایک وقت کا کھانابھی انسان کوبہت بڑی راحت پہنچاتا ہے۔ اس میں مسلمان وغیر مسلم کی تفریق نہ کریں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر کھاناکھلانے کا اہتمام کریں ۔ الغرض اس طرح کے واقعات سے ہمیں سبق لینا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی فکر کرنا چاہیے، اللہ نے جن نعمتوں سے نواز ا ہے اس کے شکر گزاری کے ساتھ نعمت کا صحیح استعمال کرنے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔