کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی

عزیز نبیل

Aziz

 

کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی

پھر تیر بنی اور کلیجے میں گڑی تھی

آنکھوں کی فصیلوں سے لہو پھوٹ رہا تھا

خوابوں کے جزیرے میں کوئی لاش پڑی تھی

سب رنگ نکل آئے تھے تصویر سے باہر

تصویر وہی جو مرے چہرے پہ جڑی تھی

میں چاند ہتھیلی پہ لیے جھوم رہا تھا

اور ٹوٹتے تاروں کی ہر اک سمت جھڑی تھی

الفاظ کسی سائے میں دَم لینے لگے تھے

آواز کے صحرا میں ابھی دھوپ کڑی تھی

پھر میں نے اُسے پیار کیا، دل میں اتارا

وہ شکل جو کمرے میں زمانے سے پڑی تھی

ہر شخص کے ہاتھوں میں تھا خود اُس کا گریباں

اک آگ تھی سانسوں میں، اذیّت کی گھڑی تھی

تبصرے بند ہیں۔