غزل

رہے گا حرفِ دعا یوں ہی بے اثر کب تک

وفا کی آس میں زندہ  رہوں مگر کب تک

 کسی کے عشق میں کب تک مجھے سلگنا ہے

رہے گی  شدتِ جذبات  اس قدر  کب تک

 کوئی تو  نغمہٴ  پُر حوصلہ سنانے آئے

کہ اہلِ دل کو رلائیں گے نوحہ گر کب تک

 میں کیا کروں کہ طبیعت ہی ہے عجیب مِری

خفا رہے گا کسی سے  کوئی شجر کب تک

 کبھی تو  ہمتِ اظہارِ  آرزو  ہو  جائے

اس اہتمام سے رکھّوں میں دل میں ڈر کب تک

 نہ جانے کب مِرے شعروں میں لائیں وہ تشریف

سجاﺅں قصرِ غزل کے  میں بام و در کب تک

 عجیب حشر ہے برپا  درونِ  دشتِ بدن

رہے گا آہوِ وحشت کا  شور و شر کب تک

 کبھی تو ان کو لبھائے مِری غزل راغبؔ

نہاں رہے گا مِرا جوہرِ ہنر کب تک

تبصرے بند ہیں۔