غزوہ خندق: مدینہ منورہ پر متحدہ عرب کا حملہ

محمد صابر حسین ندوی

مخالیفین وحریفیین کی اسلام اور مسلمان دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھی، اور اس تعلق سے اپنے ناپاک منصوبوں کے بروئے کار لانے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور پھر غزوۂ احد کی شکست کے بعد ان کے حوصلے آسمانوں پر تھے، رہ رہ کر مسلمانوں کی بڑھتی تعداد اور آپؐ کو ختم کر دینے کی راہیں دھونڈتے تھے اور ہر ممکن صحابہ کرام کو تکلیف پہونچانے اور اپنے اس ناپاک ارادے میں ہر ایک قبیلہ، علاقہ اور حلیف کو شامل کر نے کوشش رہتی تھی،چنانچہ اس دفعہ بنوثعلبہ نے قریش اوردوسرے حلیف قبائل کی معیت میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی منشا ظاہر کی؛لیکن اتفاق کہ آپؐ کو خبر ہو گئی، آپ ؐ اس بغاوت کو کچلنے کے لئے ۱۰؍محرم سنہ ۵ہجری کو ۴۰۰ صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے، ابھی قافلہ ذات الرقاع تک پہونچا ہی تھا کہ ؛آپؐ کی آمد کی خبر سن کر وہ پہاڑی میں بھاگ گئے، اسی طرح سنہ ۵ ہجری میں خبر آئی کہ دومۃ الجندل میں کفار کی ایک عظیم الشان فوج جمع ہورہی ہے، آپؐ ۱۰۰۰ کی جمعیت لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے لیکن آپؐ کی آمد کی خبرسنتے ہی وہ بھی ڈر کر بھاگ گئے۔

اس سلسلہ میں ایک اور غزوہ پیش آیا جسے غزوۂ مریسیع یا غزوۂ بنی مصطلق بھی کہتے ہیں ، جس کا واقعہ یہ ہے کہ شعبان سنہ ۵ ہجری میں فزارہ کا ایک خاندان جو بنو مصطلق کہلاتا تھا، یہ مدینہ منورہ سے ۹؍ میل کی دوری پر واقع تھا، اس قبیلہ کے رئیس حارث بن ضرار کے متعلق یہ خبر ملی کہ ؛ قریش  کے اشارے پر یا خود ہی مدینہ پر حملہ کر نے کی تیاری کر رہا ہے، آپؐ نے تحقیق کے بعد دو شعبان کو فوجیں لے کر مدینہ منورہ نکلے، مگر مریسیع میں خبر پہونچی کہ اکثر لوگ بھاگ گئے ہیں ؛لیکن مریسیع میں جو لوگ آباد تھے انہوں نے خوب تیر برسائے، ایسے میں مسلمانوں نے بھی یک بارگی حملہ کر دیا جس میں ان کے دس آدمی مارے گئے اور تقریباً ۶۰۰ کی تعداد میں گرفتار ہوئے اور مال غنیمت کے طورپر دوہزار اونٹ، پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں ، یہی وہ غزوہ ہے جس کی واپسی میں واقعۂ افک پیش آیا یعنی حضرت عائشہؓ پر منافقین نے تہمت لگائی جس میں بعض مسلمان بھی شریک ہوگئے، جنہیں قرآن کے اعلان کے بعد سزا بھی دی گئی، چونکہ حضرت عائشہؓ کی پاکدامنی پر گواہ خود قرآن کریم ہے، اسی لئے اس پر بھلا کیا خامہ فرسائی کی جائے!۔

  دراصل یہ تمام لڑائیاں اس عام جنگ کا پیش خیمہ تھی جو تمام عرب اور یہود متحدہ قوت سے کرنا چاہتے تھے، جسے خندق یا احزاب کہتے ہیں ، یہ بات معلوم ہے کہ بنو نظیر اور قینقاع مدینہ سے نکل کر خیبر میں قیام پذیر ہوگئے تھے، انہیں زعماء نے مکہ معظمہ میں جا کر اور قریش سے مل کر کہا کہ؛اگر ہمارا ساتھ دو تو اسلام کا استیصال کیا جا سکتا ہے، پھر قریش کو آمادہ کر کے بنو غطفان کے پاس گئے، انہیں لالچ دی کہ اگر ان کا ساتھ دیں تو خیبر کا نصف محاصل ان کو ہمیشہ دیا کرینگے، بنو اسد نے بھی ان کا ساتھ دیا ؛کیونکہ وہ غطفان کے حلیف تھے، اسی طرح قبیلہ بنو سلیم نے بھی قریش کا ساتھ دیا ؛کیونکہ قریش سے ان کی قرابت تھی، بنو سعد کا قبیلہ یہود کا حلیف تھا اس لئے انہیں بھی آمادہ کیا اور اس طرح تمام قبائل عرب سے لشکر تیار ہو کردس ہزار کی تعداد میں مدینہ کی طرف بڑھا،یہ لشکر تین مستقل فوجوں میں تقسیم تھا، غطفان کی فوجیں عرب کے مشہور شہ سواراور سردار عیینہ بن حصن فزاری کی کمان میں تھی، بنو اسد طلیحہ کی افسری میں تھے اور ابو سفیان بن حرب تمام فوج کا سپہ سالار تھا۔

 دوسری طرف جب آپؐ کو خبر ہوئی تو فوراً صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ فرمایا ؛جن میں حضرت سلمان فارسی ؓ نے مدینہ منورہ سے باہر خندق کھودنے کا مشورہ دیا سبھوں نے اس رائے کو پسند کیا اور خندق کھودنے کے آلات مہیاکئے گئے ؛چونکہ مدینہ منورہ کے تین جانب مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا، جو شہر کو پناہ کا کام دیتا تھا، صرف شامی رخ کھلا ہوا تھا چنانچہ حضورﷺ نے تین ہزارصحابہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل کر اس مقام میں خندق کی تیاری شروع کردی، یہ ذی القعدہ کی پانچ یا آٹھ کا واقعہ ہے ؛دس، دس صحابہ کرام کے درمیان دس،دس گز کی زمین تقسیم ہوئی، خندق کی گہرائی پانچ گز رکھی گئی اور بیس دنوں میں تین ہزار متبرک ہاتھوں سے خندق کھودی گئی، سرور عالم ؐ پھر سے مزدوری کے لباس میں تھے اور مزدوروں کے ساتھ کاندھوں سے کاندھا ملا کر کام کر رہے تھے اور ان کے ساتھ رجزیہ اشعار بھی گنگناتے تھے بلکہ کوئی چٹان اگر سامنے آجاتی تو اسے آپؐ ہی ریزہ ریزہ کرتے۔

 اب حضور ﷺ نے صف بندی شروع کی اور سلعہ پہاڑی کو پشت پر رکھ کے صف بنائی، چونکہ بنو قریظہ کے حملہ کا خدشہ تھا اس لئے مستورات کو شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دیا گیا، اور حضرت سلمہ بن اسلم کو دو سو آدمیوں کے ساتھ ان پر متعین کردیا گیا ؛لیکن یہود خباثت اور شرانگیز فطرت نے پھر اپنا رنگ دکھایا اور حیی بن اخطب نے قریظہ کے سردار کعب کواسلام کے خاتمہ پر بھڑکانا شروع کیا،ابتدائً وہ راضی نہ تھا ؛مگر اصرار کے بعد مان گیا اور عہد شکنی کر دی، آپؐ نے اس کی تحقیق سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ سے کروائی اور انہیں تلقین کی کہ خبر کی تصدیق کی صورت میں مخلوط بات آکر بیان کریں تاکہ مسلمان اندیشہ اور بے دلی کا شکار نہ ہو جائیں ؛کیونکہ سرد مہر جنگ، خندق کی بے تابی، فاقہ پر فاقہ اور سخت سردی کے ساتھ دشمنوں کی تعداد نے پہلے ہی مسلمانوں کو فکر میں ڈال رکھا تھا ؛قرآن خود اس کی تصویر یوں کھینچتا ہے:اذ جاؤکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذزاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا،ھنالک ابتلی المؤمنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (احزاب:۱۰)،’’جب دشمن تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے آگئے،اور جب نگاہیں کج ہوگئیں ، دل حلق میں آگئے،اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اس وقت مؤمنوں کی آزمائش کی گئی، اور انہیں شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا‘‘،اسی طرح دشمنوں کے لشکر کو دوبالا کرنے میں منافقوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا جو کہ اگرچہ مسلمانوں کے درمیان تھے؛ لیکن اپنی حرکتوں سے بازنہ آتے اور بہانے بہانے سے آپؐ کا ساتھ چھوڑتے جاتے تھے،انہیں لوگوں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے:واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض ماوعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا،واذ قالت طائفۃ منھم یآاھل یثرب لامقام لکم فارجعوا، ویستأذن فریق منھم النبی یقولون ان بیوتنا عورۃ، وماھی بعورۃ، ان یریدون الا فرارا‘‘(احزاب:۱۳)۔

 تقریباً ایک مہینہ تک اس سختی سے محاصرہ قائم رہا کہ بسااوقات تین، تین دن فاقے پر گزرتے، مزید برآں یہ کہ قریش وقتا فوقتا تیروں اور نیزوں کی بوچھار کرتے اور ہر ممکن کوشش کرتے کہ مدینہ منورہ میں داخل ہو جائیں ،لیکن آپؐ نے خندق کے مختلف حصوں پر فوجیں تقسیم کر رکھی تھیں اور آپؐ خود ایک حصہ کو سمبھالے ہوئے تھے، اس کے باوجود قریش نے خندق کی ایک جگہ جہاں اتفاقا چوڑائی کم تھی ؛حملہ کر نے کے لئے انتخاب کیااور عرب کے مشہور بہادروں کی ایک جماعت( عمرو بن عبدود، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطیب وغیرہ )نے خندق کے اس کنارے سے گھوڑے کو مہمیز کیا تو وہ اس پار تھا، ان میں عمرو بن عبدود عرب کا۹۰ سالہ مشہور بہادر جو کہ ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا تھا؛سب سے پہلے آگے بڑھا اور مقابلہ کے لئے للکارا،ہر بار حضرت علی ؓ نے جواب دینا چاہا مگرآپؐ نے انہیں بٹھا دیا لیکن تیسری دفعہ اجازت دی اور عمامہ و تلوار دے کر انہیں بھیجا، حضرت علیؓ نے اس پر تین باتیں پیش کیں ، یا تو اسلام لے آؤ،یا لڑائی سے واپس چلے جاؤیا معرکہ آراء ہو، اس پر عمرو نے ہنسی اڑائی اور ایک وار گھوڑے کی کوچوں پر کیا، اور وہ یک بیک کٹ گئیں ، پھر وہ حضرت علیؓ پر حملہ ور ہوا، آپؓ زخمی ہوئے لیکن ذوالفقار کا ہاتھ آگے بڑھا تو شانہ کاٹ کر تلوار نیچے اتر آئی، اور فتح کے ساتھ اللہ اکبر کانعرہ لگایا یہ دیکھ کر بقیہ بہادر بھاگ پڑے ؛لیکن نوفل خندق میں گر پڑا اور وہ بھی مارا گیا۔

  واقعہ یہ ہے کہ یہ دن حملہ کا اتنا سخت تھا کہ تیر اور نیزوں کی بارش ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رکی ؛یہی وہ دن ہے جس دن حضوراکرمؐ کی مسلسل چار نمازیں قضا ہوئیں ؛ کیونکہ مستقل تیراندازی اور سنگ باری کی بنا پرجگہ سے ہٹنابھی دشوار تھا۔ تو دوسری طرف اسلام دشمنوں کے لئے بھی محاصرہ آسان نہ تھا، محاصرہ جس قدر طول ہوتا جاتا ان کی ہمتیں ٹوٹتی جاتیں ، ظاہر ہے ایک تو دس ہزار کو رسد پہونچانا آسان نہیں تھا، پھر سردی کے موسم کے ساتھ ساتھ اس قدر زوروں کی ہواچلی کہ طوفان آگیا،دشمنوں کے خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں ، کھانے دیگچیاں چولہوں پر الٹ جاتے تھے، اس واقعہ نے تو فوجوں سے بڑھ کر کام کیا، قرآن کریم نے اس باد صرصر کو عسکر الہی سے تعبیر کیا ہے’’یا ایھا الذین آمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جائتکم جنود فأرسلنا علیھم ریحا وجنودا لم تروھا وکان اللہ بما تعملون بصیراً ‘‘ (احزاب:۹)۔

 اسی کے ساتھ ساتھ خدا تعالی کی مدد اس طرح بھی ہوئی کہ نعیم بن مسعود جو غطفانی رئیس تھے، قریش اور یہود دونوں ان کی عزت کرتے تھے، وہ خفیہ طور پر مسلمان ہوگئے اور حضورؐ کی اجازت کے ساتھ ’’الحرب خدعۃ‘‘ کے پیش نظر دشمنوں کے مابین پھوٹ ڈالنے، ان کے شیرازے کو بکھیرنے اور بد اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بھرپور کامیاب ہوئے، ان تمام اسباب نے مشرکین کے پایہ ثبات کو ڈگمگا دیا ابو سفیان نے فوج سے کہا :رسد ختم ہو چکی، موسم کا یہ حال ہے، یہود نے ساتھ چھوڑدیا اب محاصرہ بے کار ہے، یہ کہہ کر اس نے لوٹ جانے کا حکم دیا اور خود بھی گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہاں سے بھاگ نکلا، بنوغطفان بھی اس کے ساتھ روانہ ہوگئے اور بنو قریظہ محاصرہ چھوڑ کر قلعوں میں پناہ گزیں ہو گئے اسی کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے:ورد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالوا خیراً وکفی اللہ المؤمنین القتال وکان اللہ قویا عزیزاً‘‘(احزاب:۲۵)

مدینہ کاافق اب طویل مدت کے بعد غبار آلود ہو کر صاف ہوا، اس معرکہ میں جانی و مالی نقصان زیادہ نہیں ہوا ؛لیکن حضرت سعد بن معاذ اس میں زخمی ہوئے اور غزوہؐ بنو قریظہ کے بعد شہادت پائی، چونکہ جنگ ختم ہو چکی تھی اور بیرونی دشمن بھاگ چکے تھے؛ مگر داخلی دشمن یعنی بنو قریظہ کا استحصال باقی تھا، حضرت جبرئیل ؑ کے حکم کے مطابق آپؐ نے بنو قریظہ کی جانب پیش قدمی کی ؛اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ :حیی بن اخطب کے بہکاؤ میں غزوۂ احزاب کی ہولناکیوں میں علانیہ شرکت کے باوجود عہد شکنی کی تھی؛حالانکہ حضورﷺ اب بھی یہ چاہتے تھے ؛کہ بنو قریظہ آکر صلح و آشتی سے پیش آئیں اور قابل اطمینان قضیہ کے بعد انہیں امان دی جائے؛ لیکن انہوں نے مقابلہ کو ترجیح دی، چنانچہ حضرت علیؓ جب قلعوں کے پاس پہونچے تو نعوذباللہ انہوں نے حضور کو گالیاں دی، غرض ان کا محاصرہ کیا گیا اور تقریبا ایک مہینہ محاصرہ رہا، بالآخر انہوں نے درخواست کی کہ :اوس کے سردار سعد بن معاذ جو اس قبیلہ کے حلیف اور ہم عہد تھے، اور چونکہ عرب میں یہ تعلق نسبی تعلق سے بڑھ کر ہوتا تھا ؛انہوں نے چاہا کہ آپ کو فیصل بنا دیا جائے،حضورﷺ نے اجازت دی، تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت سعد نے فیصلہ کیا کہ؛لڑنے والے قتل کئے جائیں ، عورتیں ، بچے قیدی بنائے جائیں اور مال و جائیداد غنیمت قرار دیا جائے۔

حضور اکرم ﷺ نے اس فیصلہ کو آسمانی فیصلہ قرار دیا یعنی یہ کہ ؛اللہ نے تورات میں بھی غداروں کے ساتھ ایسا ہی کر نے کا حکم دیا گیاتھا، جس پر حیی بن اخطب کا یہ قول بھی شاہد ہے جو اس نے مرتے وقت کہا تھا؛’’بلا شبہ یہ الہی فیصلہ ہے ‘‘،مقتولین کی تعداد ارباب سیر نے ۶۰۰ بتائی ہے؛ لیکن بعض سیرت نگاروں سے ۴۰۰ منقول ہے، ان میں سے صرف ایک عورت تھی جو مسلمان کو قتل کرنے کے قصاص میں ماری گئی۔ یہی وہ واقعہ ہے جس پر مغربی مؤرخوں نے اسلام کومورد الزام ٹھہرایا اور اس پر ظلم و جور کا طعنہ کسا، لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ :حضورﷺ نے معاشرتی سطح پر جتنا یہودیوں کے ساتھ ہمدردی وروداری اور صلاح کا سلوک کیا اتنا مشرکوں کے ساتھ بھی نہیں کیا، اسلام میں جب کبھی کوئی فیصلہ یا حکم نہ ملتا تو آپؐ انہیں کے مطابق عمل کرتے تھے، مثلاً: قبلہ، نماز،رجم، قصاص وغیرہ وغیرہ،لیکن انہوں نے ہمیشہ دوستانے معاہدے کو عداوت صلح و آشتی کو نفرت اور مقام نبوت کو داغ دار کرنا چاہا، یہی وہ حقیقت جسے مغربی مؤرخین چھپا نے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتاً الزام تراشی، بہتان وافتراء سے کام لیتے ہیں۔ (دیکھئے:بخاری:باب غزوۃ الخندق:۲؍۵۸۸،مسلم مع الشرح النووی :۱؍۲۲۷وغرہا من الصحاح،ابن ہشام:۲؍۲۱۸۔۳؍۲۲۰،مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ :۲۷۸،)۔

تبصرے بند ہیں۔