دعوت یا میت

مصباحیؔ شبیر

 یہ ان دنو ں کی بات ہے جب میری ڈیوٹی لداخ کے ایک دور دراز علاقہ فرید پورہ میں لگی تھی۔ مجھے بہت ڈر لگا کہ اب کیا ہوگا،لوگ کیسے ہوں گے ،اسکول کیسا ہوگا ،کیونکہ ایک تو میں نیا نیا نوکری میں لگا تھا دوسرا مجھے اپنی سروس لداخ جیسے دور افتاد علاقے میں انجام دینی تھی۔ ا س وقت لداخ میں سروس کو لے کر لوگ طرح طرح کی افسانہ صفت باتیں کیا کرتے تھے۔پہاڑ ہی پہاڑ ہیں، برف ہی برف ہوتی ہے ، زوجیلہ کا سفر بہت خطرناک ہوتا ہے بازار نہیں ہیں ،ٹیلیفون کا بندوبست نہیں ہے اس لئے گھر الوں سے رابطہ نہیں ہوتا ہے صرف دیہات ہی دیہات ہیں ۔ لوگ بڑے خطر ناک قسم کے ہیں۔

 ایسی کہانیاں سن سن کر میری تو حالت ہی خراب ہوگئی ساتھ ہی گھر والے بھی بہت زیادہ پریشان تھے۔کیونکہ اس وقت ہمارے یہاں لداخ کا سفر کرنا موت کو گلے لگانے کے مترادف مانا جاتا تھا۔ مائیں سفر سے دو روز پہلے روزہ رکھ کر اپنے بچوں کی سلامتی سے گھر واپسی کی دعائیں مانگتی تھیں۔ سوگھر کی معاشی مجبوریا ں نہ ہوتیں تو میں بھی کبھی لداخ نہ آتا۔ میرے آنے سے دو دن پہلے میری شادی شدہ بہنیں بھی مجھے الوداع کہنے کے لئے آچکی تھیں ۔ میرے گھر میں اس معاملے کو لے کر سبھی دکھی تھے ،میری بیوی کی آنکھیں نم تھیں ۔ والدہ کا رو رو کر برا حال تھا،والد صاحب گر چہ ظاہر نہیں کرتے تھے مگر پریشان تھے۔

 میرے چھوٹے بھائی اور چھوٹی بہن بھی بہت دکھی تھے۔ میرے خود کے بچے چونکہ بہت چھوٹے تھے اس لئے انہیں احساس بھی نہ تھا یہ سب کیا چل رہا ہے۔ چاچا جی بھی دکھی تھے۔ خاندان کے تمام افراد بہت ہی مایوس تھے۔بہر حال ہم نے کوشش بھی کیا اس فیصلے کو ٹالنے کے لئے والد صاحب اور چاچا جی دو بار سی او آفیس بھی گئے لیکن وہاں سے بھی کچھ نہیں ہوا ۔بلا آخر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے نکلنا پڑا مجھے جس دن لداخ کے لئے نکلنا تھا اس دن تمام گائو ں والے آئے اور مجھے دعائیں دے رہے تھے میرے دوستوں کا دل دکھی تھا گائو ں کے ایک بزرگ شفیع دادا نے مجھے چند انمول نصیحتیں کی بیٹا سب کے ساتھ پیار سے رہنا کسی کے ساتھ جگڑا مت کرنا کوئی پریشانی ہو تو آفیسر سے کہہ کر تار دینا اور گائوں میں کسی کی بہن ،بیٹی کے ساتھ مت چھیڑنا ۔سب لوگ مجھے الوداع کہنے تقریبًا دو کلو میٹر تک آئے اور وہاں کے بعد میں سب سے گلے مل کر ان تمام لوگوں کو ہاتھ لہراتا سرینگر کی بس پر سوار ہوا۔

سری نگر سے سرکاری بس کے ذریعہ میں میں لداخ پہنچا ۔دوسرے دن زونل ایجوکیشن آفیسرسے گائوں و سکول کا پتہ لے کر میں اپنے اسکول پہنچا ۔ اسکول کیا تھا بس پرائمری اسکول کے برابر تھا گائوں تھوڑا بڑا تھا تو اسے ایک ہائی اسکول کا درجہ ملا ہوا تھا۔ لیکن جیسا مجھے کہانیاں سنائی گئی تھیں، لداخی ویسے نہیں تھے ،لوگ پڑھے لکھے کم ضرور تھے ،مگر تھے بہت ملن ساز و مہمان نواز تھے ۔میں نے ان سے ایک کمرہ کرائے میں مانگا جیسا کہ مجھے آگے سے بتایا گیا تھا تو گائوں والوں نے مل کر مجھے بتایا کہ مہمان کو کرایہ کے مکان میں نہیں ٹھہرایا جاتا ۔ بس مجھے گائوں کے نمبردار کے یہاں ٹھہرایا گیا اور وہیں ان کے پریوار کے ساتھ کھانا پینا تھا۔روز دعوت ہوتی کبھی اس گھر میں تو کبھی اس گھر میں ۔مجھے صبح و شام پینے کے لئے دودھ حاضر کیا جاتا تھا۔ گائوں کے سارے لوگ میری عزت کرتے کبھی کسی کا خط لکھتا تو کبھی کسی کا خط پڑھ کر سناتا گویا مجھے احساس بھی نہیں ہوا کہ میں اپنے گائوں سے دور ہوں۔

کبھی کبھی سنڈے کو کپڑے دھوتا تو گائو ں والے میرے اس کام میں بھی مدد کی پیش کش کرتے مگر یہ مجھے مناسب نہیں لگتا اس لئے میں نے سختی سے منع کردیا تھا۔ میں گائوں کے بزرگوں سے بھی گل مل گیاتھا گائوں کی بوڑھی عورتوں سے بھی آدھی اُردو آدھی ان کی اپنی زبان جو میں نے رہتے رہتے سیکھ لی تھی بات کر لیتا تھا ۔نمبردار کے گھر فوج نے ایک ٹیلیفون رکھا ہوا تھا اس کے ذریعہ اپنے گھر بھی بات کرتا تھا۔ مجھے گھر سے فون آتا یا میں گھر بات کرتا تو سب لوگ سنتے تھے اور خوش ہوتے گر چہ میں کشمیری زبان میں بات کرتا تھا پھر بھی گائوں والے سنتے تھے۔ مجھے ان کا اس طرح میری باتیں سننا برا نہیں لگتا تھا ۔اور اپنی گفتگو کے بعد میں ان کو اُردو میں ساری کہانی بتاتا تھا ۔ایک دن مجھے گھر سے خبر ملی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ایک اور لڑکا عطاکیا ہے یہ خبر جب ان لوگوں نے سنی تو نمبردار کی بیوی حمیدن نے صبح اُٹھ کر ستو کاکھانا بنا کر اس میں ارد گرد ایک چھوٹا سا دائرہ بنایا اوراس میں دیسی گھی کو پگلا کر ڈالا اور پورے گائو ں والوں کو بلا کر نیاز کی اور گائوں والوں کو میرے یہاں ایک بچہ ہونے کی خبر دی ،پھر کیا تھا پورے دو دن تک تمام گائوں والے میرے پاس مبارک بادی دینے آتے رہے ۔ اب مجھے ان کی عادت لگ گئی تھی میں ان کے ہر لمحے چاہے خوشی کا ہو یا غم میں ساتھ تھا ۔ مجھے اپنی ہر بات میں شامل رکھتے تھے۔

 ایک دن اچانک گائوں کے ایک بہت عمر رسیدہ شخص کا انتقال ہوا میں بھی اس کے جنازے میں شریک ہوا ۔ کسی خاص رشتہ دار کے نہ پہنچنے کی وجہ سے تھوڑی رات ہوئی تو کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے ماسٹرجی آپ جا کر سوجائو ہم ہیں نا ۔میں ان کو اس حال میں چھوڑ کر کیسے جاسکتا تھا ،میں نے صاف انکار کیا اور ان کو بتایا کہ جتنا آپ لوگوں کا حق ہے اتنا اس میت پر میرا بھی فرض ہے۔ مجھے کھانے کی پیش کش کی گئی میں نے اس سے بھی انکار کیا ۔اور باقی لوگوں نے جو کھایا وہ میں نے بھی کھایا وہیں قبر ستان میں ستو کا کھانا اور قہوہ۔۔۔ اس کے بعد کا ماحول بہت عجیب تھا،میت کے دن سے ایک ایک کرکے تین سے چار خاندان والے اپنے گھر کھانا پکاتے تھے اور ختم شریف پڑھتے اور سارے گائوں والے مل کر چھوٹے بڑے ،عورتیں بچے سب مل کر وہ کھانا کھاتے مجھے بھی مخصوص دعوت ملتی تھی۔ مجھے تو آخون ( وہاں قرآن پڑھانے والے یا ختم شریف یا دینی علم رکھنے والے کو کہتے ہیں ) کی بگل میں ہی جگہ دی جاتی تھی۔

صبح سات روز تک میت کے قبرستان میں جا کر فاتحہ پڑھی جاتی تھی جو کہ مجھے بہت اچھا لگا کہ یہ لوگ میت کیلئے اتنا کرتے ہیں ۔پھر دن و رات بھی فاتحہ کرتے ہیں مگر جس طرح سب لوگوں کو بلاتے تھے اور ایک بھیڑئو ذبح کرکے دعوت کرتے تھے پھر سب لوگ بلا تمیز امیر غریب کھاتے تھے یہ تھوڑا مناسب نہیں لگا کیونکہ جس گھر کے افراد یا اس رشتہ دار کو اس غم کی گھڑی میں تمام گائوں والوں کی خدمت میں لگنا وہ بھی اس غم کی گھڑی میں یہ مجھے بہت برا لگا۔دوسری بات اس ماحول نے ایک تو رواج کی صورت حاصل کر لیاتھا دوسرا عالم دین کہتے ہیں کہ اس کھانے میں فقط غرباء کا حق ہے۔ ہاں فاتحہ یا ختم وغیرہ بغیر دعوت بھی پڑھی جاسکتی ہے جیسے یہ لوگ صبح بھی تو پڑھتے ہیں اس فاتحہ کے لئے کسی کو بلایا نہیں جاتا ہے۔

بہرحال ایک ہفتے کی بھاگ دوڑ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو ا۔ تو دوسرے ہفتے میں گائوں کے ہی ایک ماسٹر نسیم کی شادی تھی اس میں بھی اسی میت کی طرح حل چل تھی ۔ اس دن کی طرح گائوں کے تمام لوگ نسیم سر کی شادی میں بھی جمع تھے اور میں بھی اس دن کی طرح خاص طورمدعو تھا ۔ بس وقت الگ الگ تھا وہاں دکھ کی گھڑی تھی تو یہاں خوشی تھی۔ میں چونکہ کوئی عالم دین تو تھا نہیں بس اپنے گائوں کے ماحول و عالموں سے اتنا سن رکھا تھاکہ دعوت تو خوشی کے وقتوں میں ہوتی ہے غمی کے وقت میں نہیں ہوتی بس جتنی دعائیں کرنی ہیں میت کے حق میں سب بے معاوضہ وبغیر کسی خرچے میں ہونی چائیے اگر چہ کوئی ساتھ دے نہ دے ۔ہاں میت کے نام سے مدارس میں کوئی کمرہ بنائو ،مدرسے کے بچوں کو کھانا کھلائو یا مدرسے اگرقریب میں نہیںہیں تو اپنے گائوں کے قریبی غریب کو پس پردہ کچھ دے دو ضروری نہیں اعلان کر کے دے دیا جائے۔ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی گائوںوالوں کے ساتھ ان کے ان کاموں میں بھی شامل تھا ۔میں بھی تھوڑا بہت کھا لیتا تھا چونکہ یہ وہاں کا رواج تھا اور وہ بھی مذہبی تو میری ہمت نہیں ہوئی کہ کچھ کہہ پاتا لیکن دوسرے سال جب میرا لداخ کا ٹرم ختم ہونے میں بس ایک ماہ تھے تو میں نے ہمت کر کے وہاں کے آخون صاحب سے کہہ ہی دیا کہ یہ بات ایسی ہے ،ہمیں اور آپ کو خوشی کی دعوت اور غمی کی دعوت میں فرق کرنا پڑے گا ۔

آخون صاحب نے میری باتوں کو برا نہیں مانا لیکن یہ کہہ کر یہ ہمارے یہاں آنے والے پیروں نے بتایا اور سکھایا ہے ،ہم کیسے اس کو ختم کرسکتے ہیں ۔؟کہہ کر خاموشی اختیار کی۔ پھر میں نے سمجھایا کہ آخون صاحب آپ میرے یہاں چلیں وہاں بھی پہلے لوگ ایسا کرتے تھے لیکن اس طرح بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں اس لئے جن عالموں نے دین کا علم سکھا ہے وہ اس سے منع کرتے ہیں ۔ آخون صاحب نے تعجب خیز انداز میں سوال کیا کہ تو کیا آپ کے یہاں ختمات نہیں پڑھے جاتے ہیں ؟میں نے ان کو پھر سمجھایا ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم بھی ختمات پڑھتے ہیں دھوم دھام سے پڑھتے ہیں خوشی کے موقعوں میں بھی پڑھتے ہیں اور غمی کے دنوں میں تو زیادہ پڑھتے ہیں مگر فرق ہے بس ہم غمی میں بلاتے نہیں ہیں گائوں کی ایک کمیٹی بنی ہے وہ سارے انتظامات کرتی ہے وہی تھوڑی بہت ختم شریف کے لئے مٹھائی تو ایک ایک کپ قہوہ کا بس ہوگیا اورلوگوں کو بتایا ہوا ہے کہ میت کے دنوں میں وقت مقررہ میں وہاں جمع ہوکر دعائیں وغیرہ کرتے ہیں اس لئے سبھی لوگ موجود بھی ہوتے ہیں اور خوب ختمات و دعائے مغفرت ہوتی ہے ۔ یہ سن کر آخون صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا یہ تو اچھی بات ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کیسے ہوگا؟۔میں نے آخون صاحب کو سمجھا یا اسے ایسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے اپنے علاقے کے مولوی حضرات کو عوام الناس سے اسے بیاں کر نے کو کہو ،یہ سن کر آخون صاحب نے ایک آہ بھری اور اور بہت ہی مایوس کن لہجے میں کہا کہ ہمارے علاقے میں عالم تو نہیں ہیںنا یہ ہماری بہت بڑی محرومی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اب ہم اپنے بچوں کو دینی علم پڑھنے بھیجیں گے۔

پھر ہماری ملاقات ختم ہوئی تو آخون صاحب نے مجھے اس نیک بات کو پھیلانے کیلئے شکریہ ادا کیا۔ اس کے ٹھیک پانچ روز بعد میں ہمیشہ کے لئے ان شریف ،نیک و ایماندار و مخلص لوگوں کا ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر آیا مجھے ان میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی لیکن میت کے دنوں کا ان کا سسٹم تھوڑا غیر مناسب لگا وہ بھی ان کی دینی مسائل میں کم علمی و عالموں کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔۔۔۔ وہ دن ہے اور آج ٹھیک ۲۵ سال میں پھر لداخ آیا ہوں لیکن اس بار ڈیوٹی سے نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کی یاد نے مجھے لایا ہے ۔

 میں ان نیک لوگوں کا دیدار کرنا چاہتا تھا،میں ان گلیوں ،ان پہاڑوں و ندیوں کو پھر سے دیکھنے کا ارداہ کرکے آیا ہوں ۔میں اپنے ان دنوں کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہوں جو میں نے کچھ غریب ، کم پڑھے لکھے مگر مخلص ،انسانیت دوست و ایماندار لوگوں میں گزارے تھے۔ میں یہ دیکھنے بھی آیا تھا کہ اب ان میں کتنی بیداری آئی ہے۔ کیا وہ اب بھی میت میں دعوت کرتے ہیں ۔ یہ سب خیالات لے کر میں ایک بار پھر لداخ پہنچا تو حالات کافی بدلے ہیں بازار کافی بڑا ہوا ہے،لوگ جدید خیالات میں ڈھل چکے ہیں ،لوگ تعلیمی اعتبار سے کافی ترقی حاصل کئے ہیں ٹھیک شہروں کی طرح ان کے یہاں بھی موبائل و نیٹ ورک سسٹم ہیں اسکول کی عمارتیں بڑی بڑی ہیں ،گائو ںکو بھی سڑکیں بنیں ہیں ،لوگوں نے بڑی بڑی گاڑیاں بھی خریدی ہیں ۔ کپڑے بھی نئے فیشن کے مطابق ہیں مجھے اس مخلص علاقے میں یہ بدلائو دیکھ کافی خوشی محسوس ہوئی ۔ میں چونکہ فرید پور والوں سے ملنے آیا تھا میں ان کے لئے بہت سارے آخروٹ و سیب کی دو پیٹیاں بھی لائی تھیں ۔میں نے ایک گاڑی بک کی اور سید ھے فرید پور ہ روانہ ہواجیسے ہی فریدپورہ پہنچا تو وہاں بھی اچھی خاصی ترقی ہوئی تھی نمبردار سمیت سارے گائوں والے اپنے سمنٹ کے مکان بنا لئے تھے۔

مکانوں پر برف گرانے کے لئے سرینگر کی طرح شیٹ لگوایا ہے ۔گائوں میں اب گھوڑے دیکھائی نہیں دیتے تھے،کسی کسی گھر کے سامنے میں نے گاڑیاں کھڑی دیکھی۔گائوں کا اسکول بھی اب کافی بڑا بنا تھا اب وہ مکمل ہائی اسکول کا مرتبہ پا چکا تھا۔ یہ سب دیکھ میری حیرت اور خوشی کا تھکانہ تھا۔گائوں کے بہت سارے بزرگ اب انتقال کر چکے تھے،مجھے ملنے جو آئے ان میں بہت سارے اب بزرگ لگ رہے تھے،میرا خاص خیال رکھنے والے نمبردار اور ان کی زوجہ حمیدن بی اب کافی بوڑھے ہوچکے تھے اور مجھے کافی مشکل سے پہچان رہے تھے،بہرحال وہ لوگ بہت خوش ہوئے کہ میں بھولا نہیں ہوں اور پھر سے ایک بار ملنے آیا ہوں۔ دوسرے روز میں آخون صاحب سے ملنے گیا ۔وہ بھی اب کافی ضعیف ہوچکے تھے اب ختمات نہیں پڑھاتے تھے یہ کام اب ان کا بیٹا کرتا ہے۔ لیکن ان کی صحت ٹھیک تھی اس لئے ان کے پاس بہت دیر روکا باتیں کرتے کرتے اچانک وہیںدعوت میت والے سسٹم پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ حالت اب بھی نہیں بدلی ہے بلکہ اب تو اور زیادہ بہتر انداز میں تین چار قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں اور بہت ہی اہتمام کے ساتھ یہ دن منائے جاتے ہیں ۔یکا یک میرے دل کو دھچکہ سا لگا میں نے آخون صاحب سے پوچھا کہ آپ نے آگے بچے پڑھنے نہیں بھیجے ؟ تو آخون صاحب کہنے لگے بات ایسی نہیں ہے اب ہمارے یہاں اپنے بہت سارے عالم پڑھ کر دین کا علم سیکھ کر آئے ہیں ۔ پھر کیوں ایسا ہی ہے؟میں نے درمیاں میں جلدی سے سوال کیا تھا ۔آخون صاحب بتانے لگے بات ایسی نہیں کہ ہمارے عالموں نے تو بتایا ہے لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم لوگ ہی ان کی بات نہیں مانتے اور ہم نے ان کو بھی یہ سب کرنے کے لئے مجبور کیا ہوا ہے۔ اور ہماری قوم اس کو چھوڑنے کے لئے راضی نہیں تو کیا کریں گے؟ عالم صاحبان ۔۔

اب میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ،جیسا آپ کی مرضی آخون صاحب کہہ کر خاموشی اختیار کیا ۔ ٹھیک دس روز بعد میں وہاں سے واپس ہوا تو طرح طرح کے خیالات ذہن میں آرہے تھے کہ ان مخلص لوگوں کو آخر کیا ہوا ہے؟ کہ ایک اچھی بات ان کے ذہن میں نہیں آرہی ہے کہ یہ دعوت کس وقت ہوتی ہے ۔ یہ میت میں یعنی غمی میں نہیں بلکہ دعوت خوشی کے وقتوں میں ہوتی ہے۔ پھر بھی میری زبان و دل سے یہ دعا نکلتی ہے اللہ تو ان نیک و مخلص لوگوں پر رحم کر انہیں علم دے انہیں فکر دے کہ دعوت اور میت میں فرق کریں۔

تبصرے بند ہیں۔