غلامانہ ذہنیت!

محمد خان مصباح الدین

زبان وادب ہی انسان کی ایسی شعوری اور نیم شعوری کوشش ہے جو اسکا مشترک سرمایہ اور میراث بھی ہے۔ یہ شخصیت و ذہنیت کے اظہار کا آلہ ہی نہیں ، ایک قوم کی تمدنی و مزاجی کیفیات کا آئینہ، اسکی تہذیبی سرگرمیوں کے ارتقاء اور انحطاط کا پیمانہ، اسکو صحیح یا غلط راہوں پر چلانے والی موثر ترین طاقت بھی ہے۔

یہی وہ محافظ خانہ ہے جس میں ماضی کی تمام روایات اور یاد داشتیں محفوظ ہوتی ہیں ,جن سے قوم طاقت اور تحریک پاتی اور اپبے عمل کا احتساب کرتی ہے ,اور یہی وہ مقیاس ہے جو آئندہ کوئی راہ متعین کرنے میں اسکا سب سے بڑا معین ہوتا ہے۔

مگر اتنا سب کچھ سمجھنے کے باوجود آج ملک کا اکثر باشندہ اپنے ملک کی زبان کو چھوڑ کر انگریزی بولنا اور اسپر فخر کرنا اپنے لیے زیادہ مناسب اور ضروری سمجھتا ہے اور یہی سب کی زندگی کا مقصد بنا ہوا ہے۔  مگر آپ برطانیہ کے علاوہ کسی بھی ملک میں چلے جائیں تو وہاں کے لوگ نہ صرف انگریزی نہیں سمجھتے بلکہ اسکو خارج کرکے حاشیہ میں رکھتے ہیں اور لوگ انگریزی بولنا اور سیکھنا ضروری بھی نہیں سمجھتے اور اسکی جگہ اپنی ہی زبان کا استعمال کرتے ہیں اور اسپر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ انکے یہاں کسی بھی خطے کا باشندہ آجائےجسے انگریزی زبان پر مکمل عبور ہو مگر وہ اپنی ہی زبان میں اس سےبات کرینگے اتنا ہی نہیں اگر آپ انکے سامنے انگریزی کے اچھے اور خوبصورت جملے استعمال کرکے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرینگے تو اسکے بدلے وہ لوگ آپ کو بڑی ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔

 یہ تو ہمارے ایشیائی ممالک اور افریقی ممالک کی بدقسمتی اور غلامانہ ذہنیت ہیکہ ہم نے انگریزوں کی تہذیب کو ترقی اور انکی زبان کو اپنے لیے آئیڈیل اور نمونہ مان کر علم وکمال کا معیار سمجھ لیا ہےاور ہم انکی زبان بول کر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ یہ ہماری بدقسمتی ہیکہ ہم نے اپنی میراث کو فراموش کر دیا ستم بالائے ستم تو یہ کہ ہم نے اپنی اچھی خاصی زبانوں کے اندر بغیر معقول ضرورت کے انگریزوں کی زبان کو ملا کر اسکے حسن اور اسکی مٹھاس کو ختم کر دیا ہے۔

ہمارے آباءواجداد نے ہمیں وہ زبان و ادب دیا ہے جسکی نظیر دنیا میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ایسی زبان جو لوگوں کے دلوں پے دستک دیکر لوگوں کے احساسات و جذبات پر حکمرانی کرنا سکھاتی ہو,جسکے اندر مٹھاس اور لوگوں کو مائل کرنے فلسفہ ہو وہ آج ہم سے مفقود ہوتا چلا گیا جس زبان کی طاقت نے ہندوستان کی سرمین سے انگریزوں کی 190 سالہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا آج اسکے نشانات خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ۔

 لہذا آج ضرورت ہیکہ ہمیں اپنی تہذیب اور زبان وادب سے محبت کے ساتھ ساتھ اس پر فخر ہونا چاہیے اور اسکی بقاءوتحفظ کے لیے قدم اٹھانا چاہیے اور اس پر عبور حاصل کرکے لوگوں کو اس سے آشنا کرانا چاہیے تب ہمیں سراٹھا کر کہنے کا پورا حق ہوگا کہ ہمیں ہندوستانی پونے پر فخر ہے ورنہ دوسروں کی زبان و ادب سے محبت کرکے ملک کی محبت کا دم بھرنا بیجا اور فضول ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔