فراقِ یار

آج اپنے محترم و مکرم دوست اور رفیقِ کار ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی کی وفات کی خبر ملی تو میرے اوپر سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی _ کسی طرح یقین کرنے کو جی نہیں  چاہ رہا تھا _ دماغ بالکل ماؤف ہوگیا _ ٹھیک اسی کیفیت سے تقریباً 20 برس قبل برادر مکرم منوّر حسین فلاحی کی اچانک وفات کے وقت دوچار ہوا تھا _

 آج صبح 10 بجے مرکز جماعت اسلامی ہند نئی دہلی میں  ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کی مجلس منتظمہ کی میٹنگ تھی اس میں  شرکت کے لیے ڈاکٹر صفدر صاحب اور ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی کار سے تشریف لا رہے تھے _11 بجے تک یہ لوگ نہیں  پہنچے تو ان کے موبائل پر فون کیا گیا رابطہ نہیں  ہوپایا تو علی گڑھ ان کے گھر فون کیا گیا_ وہاں  سے معلوم ہوا کہ وہ تو صبح ہی نکل گئے تھے _ پھر خبر ملی کہ دہلی سے قریب جمنا ایکسپریس وے پر نویڈا میں  گاڑی حادثہ کا شکار ہو گئی ہے اور انھیں  ایک ہاسپٹل میں  ایڈمٹ کیا گیا ہے _ پھر خبر ملی کہ بھائی صفدر اللہ کو پیارے ہوگئے _ خبر پھیلی تو دہلی، علی گڑھ اور دوسرے مقامات سے احباب کے فون آنے لگے _ مجھے ضبط کا یارا نہ رہا _ مجبوراً میں  نے موبائل آف کردیا _

علی گڑھ میں  میرا اور بھائی صفدر صاحب کا زمانہ طالب علمی ایک ہے_میں  نے طبیہ کالج سے BUMS اور MD کیا اور انھوں  نے عربی شعبہ سے PhD, MPhil, MA _ میں  نے تعلیم پوری کرتے ہی ادارہ تحقیق جوائن کرلیا اور وہ کچھ دن اقرا پبلک اسکول علی گڑھ اور درس گاہ اسلامی رام پور میں  پرائیویٹ سروس کرنے کے بعد طبیہ کالج، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں  عربی کے استاذ ہوگئے،پھر ترقی کرتے ہوئے ابھی چند ماہ قبل پروفیسر ہوگئے تھے _طلبہ تحریکوں  سے بھی ہماری وابستگی رہی، بس فرق یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی ہند کی طلبہ تنظیم SIO سے وابستہ تھے اور میری وابستگی دوسری آزاد تنظیم سے تھی _ وہ SIO میں  مختلف عہدوں  پر فائز رہے، یہاں  تک کہ اس کے آل انڈیا جنرل سکریٹری منتخب ہوئے _طلبہ تنظیموں  سے وابستگی کی مقررہ عمر کو تجاوز کرنے کے بعد ہم دونوں  نے جماعت اسلامی ہند کی رکنیت اختیار کر لی _

 بھائی صفدر سے میری قربت کا آغاز اس وقت ہوا جب انھیں  مسلم یونی ورسٹی کی مقامی جماعت کا امیر بنایا گیا ان کے دور میں  جماعت کا کام خوب بڑھا وابستگان کی تعداد میں  اضافہ ہوا _ علی گڑھ میں  60 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جماعت کا کوئی دفتر نہ تھا،  ان کے زمانے میں  نہ صرف زمین خریدی گئی،  بلکہ اس پر دو منزلہ دفتر کی بھی تعمیر ہوگئی _ میری ان سے قربت میں  اضافہ ہوتا گیا،  یہاں  تک کہ میں  ان کا دستِ راست بن گیا _ وہ کوئی بھی کام میرے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتے تھے کہ یہ تو ہوکر رہے گا _ میں  ایک ٹوٹی پھوٹی سائیکل کا مالک تھا _ ایک بار انھیں  میرے اوپر اتنا ترس آیا کہ جماعت کی مقامی شوری میں  یہ تجویز منظور کرالی کہ مجھے جماعت کی طرف سے ایک بایک خرید کر دے دی جائے _میں  نے سخت احتجاج کیا کہ جب میں  نے کبھی تکان کا احساس نہیں  دلایا تو کسی کو میرے اوپر ترس کھانے کا کیا حق پہنچتا ہے،  تب جاکر اس تجویز پر عمل موقوف ہوا _

 بھائی صفدر صاحب سے میری قربت اس وقت مزید بڑھ گئی جب وہ ادارہ تحقیق کے سکریٹری بنائے گے _ اس وقت تک ادارہ سے میری وابستگی کو دس بارہ برس ہوگئے تھے،  چنانچہ وہ ادارہ کے چھوٹے بڑے ہر معاملے میں  مجھ پر اعتماد کرتے تھے اور مجھے اپنے مشوروں  میں  شریک رکھتے تھے _

فطرت کا اصول ہے کہ کسی چیز کی زیادتی موجب فساد ہوتی ہے _ شاید میرے اور صفدر بھائی کے درمیان قربت مطلوبہ حد سے تجاوز کر گئی تھی _ اس کے نتیجے میں  ہمارے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے _ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اختلافات بہت معمولی باتوں  پر تھے، لیکن وہ بڑھتے لگے _ میرے لیے یہ بات سوہانِ روح تھی کہ میرے انتہائی قریبی اور محترم دوست کا دل میری طرف سے میلا ہوگیا تھا _ میں  نے تحریری طور پر ایک معافی نامہ تیار کیا، جس میں  لکھا کہ "میں  تمام معاملات میں  اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں  اور معافی مانگتا ہوں  _” اس کے باوجود دوریاں  باقی رہیں  _ جماعت کے ذمے داروں  کے علم میں  معاملات آئے تو انھوں  نے مداخلت کی،  لیکن معاملات سلجھتے نہ دیکھ کر انھوں  نے مجھے مرکزِ جماعت میں  بلا لینے کا فیصلہ کرلیا_

 بھائی صفدر کیی میقاتوں  سے جماعت اسلامی ہند کی اعلی اختیاراتی باڈی مجلس نمائندگان اور حلقہ اترپردیش کی مجلس شوری کے رکن تھے _ جب میں  علی گڑھ میں  تھا تو صوبائی مجلس  شوری کا رکن ہونے کی وجہ سے بارہا ان کے ساتھ میٹنگوں  میں  شرکت کا موقع ملا _ ان کی اصابتِ رائے،  معاملہ فہمی،  فکری صلابت اور جماعت سے گہری وابستگی کے تمام ارکانِ شوری معترف رہتے تھے _

بھائی صفدر نے اگرچہ بہت کم لکھا،  لیکن جو کچھ لکھا، خوب لکھا _ ان کی ڈاکٹریٹ عربی زبان کی خود نوشت سوانح عمریوں  پر تھی _ اس کے کچھ اجزا تحقیقات اسلامی میں  مقالات کی شکل میں  شائع ہوئے _ بعد میں  کتابی صورت میں  بھی ان کی اشاعت ہوئی _ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی کی تحریکی خدمات پر ان کے مبسوط مقالے دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں  _ ان کی اشاعت مجلات میں  بھی ہوئی اور ابھی چند ماہ قبل انھوں  نے انھیں  کتابی صورت میں  بھی شائع کروایا تھا _ادھر چند برسوں  سے وہ سیمیناروں  میں  بھی شریک ہونے لگے تھے _

 وہ فوجی کتنا خوش قسمت ہے جو ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردے _صفدر بھائی نے تحریک اسلامی سے جو عہد باندھا تھا اسے آخر دم تک نبھایا  _ادارہ تحقیق کے وہ اعزازی سکریٹری تھے _ آج ادارہ ہی کی میٹنگ میں  شرکت کے لیے آرہے تھے کہ ان کی کار ایک ٹرک کی زد میں  آگئی_ہاسپٹل لے جائے گئے، لیکن وقتِ موعود آپہنچا تھا، چنانچہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی _

 اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم صفدر بھائی کی دینی و تحریکی خدمات کو قبول فرمایے،  ان کی لغزشوں  سے صرفِ نظر کرے،  انھیں  جنۃ الفردوس میں  جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے،  آمین یا رب العالمین!

تبصرے بند ہیں۔