فرض کیجئے ایسا ہو تو کیا ہو!

عالم نقوی 

 جیسا کہ ہم سب کی دلی خواہش ہے ،بی جے پی کو پانچوں اسمبلی انتخابات میں شکست فاش ہو جائے اور یوپی سمیت ہر جگہ غیر بی جے پی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے تو کیا سارے مسائل بیک بینی و دو گوش حل ہو جائیں گے ؟ اور فرض کیجئے کہ ہماری خواہشات اور اندازوں کے بر خلاف بی جے پی ہی سب جگہ یا اکثر مقامات پر جیت جائے اور حکومت بنائے تو کیا ایک خوش گوار اور پر امن زندگی کے تمام امکانات مفقود ہو جائیں گے؟ اور با لفرض بی جے پی پانچ میں سے چار جگہ ہار جائے لیکن یو پی میں جیت سے ہمکنار ہو تو کیا ہم تمام انسان ، انسانیت ،غریب اور عوام دوستوں اور بنیادی ا نسانی و شہری حقوق اور آزادی رائے کی بحالی کے علم برداروں کو مایوس ہو کے بیٹھ جا چاہیے ؟ مذکورہ بالا دونوں سوالوں کا ہم ایک ہی جواب دیں گے ::۔۔ نہیں ۔۔ !عمل کا دروازہ تو قیامت پر بند ہوگا ۔اس سے پہلے دفع شر و فساد اور قیام عدل و انصاف کے ا ِمکانات ہمیشہ موجود و بر قرار رہتے ہیں خلوص نیت اور منصفانہ جد و جہد کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے !

 موجودہ ناگوار سماجی و معاشی حالات یا دوسرے لفظوں میں ’فساد فی ا لا رض ‘  ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہی تو ہے’’انسانوں کے اپنے کرتوتوں کی بدولت خشکی و تری میں فساد پھیل گیا ہے (سورہ روم آیت 41 ) فساد کیا ہے ؟اللہ سبحانہ تعالیٰ یہ بتاتے ہوئے کہ’ فاسقین‘  سے کون مراد ہیں ،فرماتا ہے کہ ’’(یہ وہ لوگ ہیں جو)اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں اور ’زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ‘یہی لوگ حقیقت میں نقصان اٹھانے والے ہیں (سورہ بقرہ آیت27) صاحب تفہیم لکھتے ہیں کہ ’’ان تین جملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کردی گئی ہے (کہ فسق کیا ہے اور فاسق کون ہے ) اللہ اور بندے کے تعلق اور۔ اِنسان اَور اِنسان کے تعلق ۔کو کاٹنے ،توڑنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ ’فساد فی ا لارض ‘ ہے اور جو ’فسادی ‘ یہ فساد برپا کرتا ہے وہی ’فاسق ‘ اور ’خاسر ‘ ( گھاٹا ۔نقصان اُٹھانے والا ) ہے (تلخیص ِ تفہیم ص 29) فساد اور فسادیوں کی متعدد تصاویر قرآن کریم میں موجود ہیں ۔

مثلاً اسی سورہ بقرہ کی آیات دو سو چار اور پانچ میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ۔۔’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے  ٍمگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں فساد پھیلائے ،کھیتی (فصلوں ) کو غارت کرے اورنسلوں کو تباہ کرے جبکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘‘یعنی دعویٰ اس کا یہی ہوتا ہے کہ اللہ شاہد ہے کہ میں تو محض سب کا بھلا (سب کا ساتھ اور سب کا وکاس )چاہتا ہوں اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ صرف عوام کی بھلائی کے لیے سارے کام کر رہا ہوں ۔ قرآن کریم نے ’بدترین دشمن ‘کے لیے جو لفظ اسستعمال کی ہے وہ ’اَلَدُ ا لخصام ‘ ہے جس کے معنی ہیں وہ دشمن جو تمام دشمنوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھا ہو یعنی جو حق کی مخالفت میں ہر ممکن حربے حربے (سام دام دنڈ بھید ) سے کام لے کسی جھوٹ ،کسی بے ایمانی ،کسی بد عہدی اور وعدہ خلافی سے گریز نہ کرے اور کسی ما ورائے قانون و عدالت کام کسی ٹیڑھی سے ٹیڑھی چال کو بھی استعمال کرنے میں ذرا تا مل نہ کرے ۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ حد سے گزر جانے والوں ’معتدین ‘ کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔وہ فرماتا ہے کہ ’’اپنے رب کو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو !وہ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور زمین میں فساد نہ بر پا کرو جب کہ اس کی اصلاح کی جا چکی ہے اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ  اور بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں ’محسنین ‘ کے قریب ہے (الاعراف آیت 55۔56) جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے (یعنی صلہ رحمی کے بجائے قطع رحمی کرتے ہیں )اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہ سب لعنتی ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ بہت ہی برا ہے (الرعد آیت 25)اللہ نے صاحبان عقل(اُولوا لا َلباب) کی نشانی ہی یہ بیان کی ہے کہ یہ’’ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے (یعنی بد عہدی اور وعدہ خلافی نہیں کرتے ) اور ان کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں ناتوں اور رابطوں کو باندھے رکھنے باقی رکھنے اور برقرار رکھنے  کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں (یعنی قطع رحمی نہیں کرتے ہمیشہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں ) کیونکہ انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے (الرعد 20۔21)

 اللہ اور اس کی نعمتوں کا انکار (کفران نعمت)فساد ہے ،ناپ تول میں کمی کرنا اور خرید و فروخت میں ڈنڈی مارنا اور بے ایمانی فساد ہے ،ہر طرح کے فحش کاموں کا ارتکاب فساد ہے ،چوری ،ڈکیتی اور رہزنی فساد ہے ،رشوت لینا اور دینا فساد ہے ،دولت سمیٹنا اور اسے روک رکھنا فساد ہے ،با اختیار لوگوں کا کمزوروں کو دبانا فساد ہے ،ہر طرح کے ناروا ہتھ کنڈوں سے ناجائز مقاصد پورے کرنا فساد ہے ،حکومت اور اقتدار پاکر مخلوق پر ظلم فساد ہے ،بے جا ملک گیری اور مفتوح قوموں میں ذلیل اخلاق پیدا کرنا فساد ہے ، رعایا کو  مختلف طبقوں میں تقسیم کرنا ،اور بعض کو بے انصافی سے اُٹھانا اور بعض کو بہ ظلم و طاقت  دبانا فساد ہے ۔

 اور یہ تو اس رحیم و کریم آقا کا اپنے بندوں پر فضل ِ عمیم اور اِحسان ِعظیم ہے کہ جب اُس کی کمزور مخلوق از خود دفع شر و فسادپر قادر نہیں ہوتی تو وہ رحیم و کریم آقا خود ہی بعض کے ذریعے بعض کا دفیعہ کرتا اور کراتا رہتا ہے ’’اور اگر اللہ اس طرح انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہے تو زمین کا نظام با لکل ہی بگڑ جائے لیکن دنیا کے لوگوں پر یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے (بقرہ آیت 251)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔