فرقہ وارانہ ذہنیت کو ہوادینے کا مقصد کیاہے؟

یہ عجب اتفاق ہے کہ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں، ایسے میں ملک میں ایک فساد برپاہے۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کو سامنے رکھ کر یکے بعد دیگرے فتنوں کو ہوادی جارہی ہے۔ کبھی مسلم پرسنل لاءکا مسئلہ تھا اور تین طلاق کو بہانہ بنایا گیاتھا۔ مسلم خواتین کے حقوق کو لے کرفرقہ وارانہ ذہنیت کی حامل پارٹیاں واویلا مچارہی تھیں۔ ذرائع ابلاغ کو مسالہ مل گیا تھا اور خوب خوب ہنگامہ برپا کیا۔ چند زرخرید مسلم خواتین یا ماڈرن مسلم خواتین جن کو اسلام کی معلومات تو درکنار سے اسلام سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے، جو یہ بھی نہیں جانتیں کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کا پیغام کیاہے؟

اسلام نے خواتین کو حق دینے میں کیسا کردار ادا کیا ہے۔ اسلام سے قبل خواتین کی حالت کیا تھی ؟ ایسی خواتین کو سامنے لاکر مسلم معاشرہ میں خواتین کے ظلم کے بے جا الزامات عائد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، مسلم پرسنل لاءمیں باربار تبدیلی کا مطالبہ اور اسلام میں رائج چار شادیوں پر پابندی جیسے مسائل کھڑے کئے گئے اور یہ آواز لگائی گئی کہ مسلم معاشرہ میں سدھار کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن اول تو یہ نظریہ ہی سرے غلط ہے ، پھر بھی ہمارا سوال یہ ہے کہ اسلام یا مسلمانوں میں سدھار، اصلاح کے لئے کوئی دوسری قوم، دوسرا مذہب، دوسرے وہ افراد جن کو اسلام کے بارے بالکل ہی معلوما ت نہیں ہیں یا بہت کم ہیں، وہ کیوں آگے آرہے ہیں، ان کو اسلام اور مسلمانوں کی کیوں فکر ستارہی ہے اور ہمارے چند دانشور حضرات اس کی تائید میں بول رہے ہیں۔

جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ماضی اور حال کے واقعات ان کی نگاہوں میں ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ جتنا ان سے بن سکتا تھا اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ (شاید ان دشمنان اسلام کی تائید میں بکنے والے ان کے زر خرید غلام ہیں؟ لیکن جب سپریم کورٹ نے پرسنل لاءمیں دخل دینے سے انکار کردیا اور یہ معاملہ پرانا ہوگیا اس سے ملک کے حالات پر اور قومی عصبیت اور فرقہ واریت پر زیادہ کچھ اثر نہیں ہوسکا۔ گزشتہ برسوں انتخابات میں ہندوتوا اور رام مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس سے خوب سے خوب تر فائدہ بھی اٹھایا گیا اور حالیہ انتخابات میں اس کا بھی کہیں کہیں سہارا لیا جارہاہے۔ کیوں کہ وہ پرانا فرسودہ ہوچکا ہے ۔ اس لئے اس سے کام نہیں چل پارہاہے۔ ایسے میں ہندوستان کی متحدہ قوت، یہاں کی قومی یکجہتی، مختلف مذاہب واقوام کا ایک معاشرہ میں ساتھ ساتھ رہنے کی بہترین مثال کو ختم کرنے اور (Divide and rule) بانٹو اور حکومت کرو کی پالیسی جو کبھی انگریزوں نے اپنائی تھی کو برسرپیکار لایا گیاہے، جس کے لئے پاکستان کے ایک بھگوڑے طارق فتح کو اس کا مہرہ بنایا گیاہے۔

طارق فتح کون ہے؟ طارق فتح کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ پاکستان میں 1949ءمیں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ۔ ابتدا ہی سے کمیونسٹ ذہنیت کا حامل رہا۔پاکستان میں کمیونسٹ ذہنیت کو ہوادینے کی کوشش لیکن پاکستان میں 1977ءکو کمیونسٹ ذہنیت اور کمیونزم کو بڑھاوا دینے کے جرم میں جیل کی سزا ہوئی، اور جرنلزم کا لائسنس مسترد کیاگیا۔ اس کے بعد اس نے وہاں اپنا کام بنانے اور پاکستان میں رہنے کے جواز کے طورپر پاکستان قومی اتحاد تحریک (جو مولاناسید اابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریک ہے) کی رکنیت حاصل کی اور حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ کمیونسٹ نہیں بلکہ اسلامسٹ ہے۔ اسی بنیاد پر اس کو سعودی عربیہ جانے کا موقع فراہم ہوا اور وہاں اس نے بن لادن کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 10برسوں تک اس کمپنی میں ملازم رہا، خوب پیسے بناتا رہا اور مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتارہا۔ ان دس برسوں کے بعد جب پیسے سے جیب اور تجوری بھر لیا تو اس نے کینیڈا کا رخ کیا جو ایک کپیلسٹ ملک ہے۔ وہاں اس نے کمیونسٹ ذہنیت کو سکون پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا موقع نہیں مل سکا تو اس نے وہاں کی ایک سوشلسٹ پارٹی بنام این ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ، بعد ازاں اس کو بھی خیرباد کہہ کر اس نے لیبرل پارٹی میں جاگھسا۔

1995ءمیں اس نے اسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ لیکن بری طرح ناکام ہوا۔ اس دوران ایک لمبی داستان ہے جس میں اس کو کبھی کہیں شہرت ملی تو کہیں پیسہ، کہیں سزا تو کہیں کچھ اور آخر کار 9/11میں امریکہ میں ایک بدقسمت واقعہ پیش آیا، جس کے بعد تو جیسے طارق فتح کو میدان فتح کرنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا۔ اب تک وہ صرف مسلک، پارٹی ، چوغے بدلتا رہا تھا۔ لیکن اس منحوس واقعہ کے بعد اس نے مذہب بھی بدل دیا اور اپنی پوری ذہانت، دانشوری، انٹلکچویلیٹی کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف کردی اور یکے بعد دیگر مسلمانوں کو اور اسلام پر حملے کرنے شروع کردیئے۔ کیوں کہ 9/11 کے بعد ایسے لوگوں کے لئے شہرت ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں پر کیچڑ اچھالے۔ یہی کیا اس سے قبل اس کے استاد ملعون سلمان رشدی نے بھی اپنی شہرت کی منزل اسلام کے خلاف کتاب لکھ کر ہی طے کی تھی۔

ہندوستان آمداور زی نیوز سے وابستگی:۔ یہ اس سے بھی عجب بات ہے کہ طارق فتح تاریک الدین، ،ملحد اچانک ہندوستان آتاہے زی نیوز اس کو پراجیکٹ کرتاہے۔ کیوں کہ زی نیوز فسطائی ذہنیت کو ہوا دینے میں اپنی مثال آپ ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی اس نے بے شمار ایسے شوز کا اہتمام کیاہے جس سے فرقہ واریت کو ہوا دی گئی ہے اور شاید وہ اسی انتظار میں تھا ہی۔ کیوں کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے سابقہ سارے ایجنڈے ناکام اور فیل ہوچکے ہیں۔ اس لئے کوئی نیا ایجنڈا ہونا چاہئے تھا یا کوئی ایسا ایشو ہونا چاہئے تھا جس سے مسلمانوں اور ہندوو ¿ں کے مابین ہندوستانی معاشرہ میں جو باہمی یکجہتی کی فضا قائم اور اس کو مسموم کیا جاسکے۔ اس نے فوراً طارق فتح کو پناہ دی اور اپنے ٹی وی شوز کا اہتمام کیا۔ یہ کتنا عجب ہے کہ وہ لفظ جس سے میڈیا ہمیشہ خوف زدہ رہاہے، اسی کو اپنے شو کا ٹائل بنایا، یعنی ”فتح کا فتویٰ“ فتویٰ ایک ایسا لفظ ہے جس سے میڈیا ہمیشہ خوف زدہ رہاہے۔ بہر حال زی نیوز نے طارق فتح کے لئے ”فتح کا فتویٰ“ شو شروع کیااور فرقہ واریت کو بھڑکانے اور ہندووں، مسلمانوں میں نفرت پھیلانے کے لئے اپنے شو میں چند تصاویر کا سہارالیاجو اس کی پست ذہنی اور انتہائی فتنہ پروری کی عکاس ہے۔ اس شو کی پہلی نشست میں اس نے 4مسلمانوں کو مدعو کیا اور ایسے لوگوں کو منتخب کیا گیا جس کو اسلام کی ابتدائی معلومات بھی نہیں تھیں ۔ نیز یہ کہ اس میں ایک ایسا شخص جس کو ملک عارف محمد خان کے نام سے جانتی ہے جس کی ذہنیت تقریباً وہی ہے جو طارق فتح کی ہے، جس نے غالباً 2007 ءمیں ٹائمز آف انڈیا میں مدرسہ کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے من گھڑت،من مانی کرتے ہوئے مدرسہ پر یہ الزام عائد کیاتھاکہ مدرسہ ایک ایسی کتاب پڑھائی جاتی ہے جس میں لکھا ہواہے۔ ”کافر کو جہاں کہیں دیکھو اس کو ماردو“ ۔ لیکن اس نے کسی کتاب کا نام نہیں لیا۔ اس لئے کہ ایسی کوئی کتاب نصاب تعلیم ہے ہی نہیں جس کا وہ نام لے سکتاتھا۔

وہی مضمون پھر اس نے اس ڈیبیٹ میں دہرایا۔ اس ڈیبیٹ میں طارق فتح نے ترکی میں ہوئے حالیہ واقعہ جس میں ایک ترکی شخص نے روسی سفیر کو قتل کردیا تھا اس کا حوالہ دیا۔ حالانکہ اس واقعہ کے تعلق سے ترکی اور روس کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ کیوں کہ دونوں کو یہ معلوم ہے کہ قاتل (جس کو بعد میں قتل کردیاگیا) وہ فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ تھا اور یہ ایک دہشت گردانہ واقعہ تھا۔ اس لئے دونوں ممالک میں کوئی ان بن نہیں ہوئی۔ لیکن طارق فتح کو اعتراض ہے۔ یہ اعتراض اس لئے ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو اپنا آئیڈیل مانتاہے ۔ روسی سفیر کے قتل کی دہائی دینے والوں کو شاید نہیں معلوم کہ سفیر کے قتل کا واقعہ سب سے پہلے پرشین ایمپائر کے دور میں نبی اکرم کے سفیر کو قتل کردینے سے پیش آیا اور اسی طرح ملک کی آزادی کی جنگ کے دوران جب راجا مہندر پرتاپ کے زمانہ جب اس نے اپنے سفیروں کو جاپان بھیجا تھا تو برطانوی سامراج نے جہازہی سے ان کا اغوا کیا اور قتل کردیا تھا۔ روہت سردنا جو زی نیوز کے ڈائرکٹر ہیں اس نے دہشت گردانہ واقعات کو مسلمانوں سے جوڑتے ہوئے جھوٹی کہانی بنائی اور کہاکہ شام، لیبیا وغیرہ میں قاتل بھی مسلمان اور مقتول بھی مسلمان تو پھر کیوں نہیں ہم اس ڈینائل موڈ سے باہر آکر معاملہ کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید اس کو معلوم نہیں یا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی اس نے ٹھان لی ۔ جبکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق راونڈن کے واقعہ میں 10ہزار لوگوں کا قتل عام ہوا جس میں نہ قاتل مسلمان تھا، نہ کوئی مقتول مسلمان۔

ٹائمزآف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2016ءمیں آسام میں 42لوگوں کا ، 2015ءمیں 10اور 2014 میں 10لوگوں کا قتل ہوا جس میں کوئی مسلمان نہیں تھا نہ قاتل نہ مقتول۔ نکسلائزڈ علاقوں میں گزشتہ 20برسوں میں 12ہزارلوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا، جن میں ایک کوئی مسلمان نہیں تھا۔ اسی طرح ہر سال امریکہ میں وہائٹ پرمیسیس گن وائلنس کے ذریعہ 33ہزار لوگوں کو موت کی نیند سلادیا جاتاہے۔ مرنے والوں میں مختلف مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن مارنے والا صرف وہائٹ پرمیسیسٹ ہوتاہے جو مسلمان نہیں ہے۔ مزید یہ کہ 2008ءمیں ہندوستان کا مشہور دینی ادارہ دارالعلوم دیوبند نے دہشت گردی کے خلاف ایک فتویٰ دیا تھا جس کے ذریعہ پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک زبردست پیغام پہنچا۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیفٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ دہشت گردانہ کارروائیوں پر اس بات کا رونا روتا ہوا نظر آتاہے کہ ہر دہشت گردانہ واقعہ کو مسلمانوں سے جوڑا جاتاہے۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں کہ 1980ءتا 2005ءیونائیٹیڈ اسٹیٹ میں جتنے دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے اس میں مسلمانوں کی شرکت صرف6فیصد ہے جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی حصہ داری 94فیصد ہے۔ اسی طرح یوروپ میں اس دوران ہوئے واقعات میں 98فیصد واقعات غیرمسلموں کے ذریعہ پیش آئے ہیں جبکہ مسلمانوں کی شرکت صرف 2فیصد ہے۔ ایف بی کے مطابق 1970ءسے لے کر رپورٹ کے ترتیب دیتے وقت تک پوری دنیا میں تقریباً 140,000دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی شرکت کو مان بھی لیا جائے جبکہ یہ سرے غلط ہے تب بھی مسلمانوں کی حصہ داری اور شرکت ان واقعات میں صرف 0.00009فیصد ہی ہوتی ہے۔

ان ٹی وی شوز کا مقصد:۔ لیکن اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس طرح کے شوز کا کیا پیغام ہے۔ اس طرح کے شوز پیش کرنے والے کیا چاہتے ہیں، کیوں وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں؟ ہم نے جب حقائق کا جائزہ لیا ہے تو یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہوگئی ہے کہ اس طرح کے شوز اور طارق فتح جیسے ملحد وملعون شخص حمایت کا ایک مطلب ہے کہ لوگوں میں تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو۔ کیوں کہ فسطائی ذہنیت (جہاں انسان کی پیدائش کے ساتھ عزت وذلت کی تقسیم کی گئی تھی کہ انسان 4طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو برہما کے منہ سے پیدا ہوا، دوسرا وہ جو برہما کے سینہ سے پیدا ہوا، تیسرا وہ جو برہما کے کمر سے پیدا ہوا اور چوتھا وہ جو برہما کے پیر سے پیدا ہوا، اس کے ساتھ اس کی پیدائش کے اعتبار سے اس کا مقام ومرتبہ ہے) جس کو اسلام نے سب سے پہلے کمزور کیا اور اس کو یکسر مسترد کردیا، جس کی وجہ سے آمرانہ ذہنیت کو دھچکا لگا ، اس کی بھرپائی کے لئے اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ معاشرہ کو تقسیم کرکے معاشرتی قوت کو کمزور کیا جائے اور اس پر حکومت کی جائے۔

مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟:۔ ہندوستا نی مسلمانوں کا ایسے میں یہ فرض بنتاہے کہ اس شو کے خلاف ریاستی وضلعی سطح پر ایف آئی آر درج کرایا جائے اور متحدہ طورپر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جائے اور ہندوستانی قانون جس میں قانونی چارہ جوئی گنجائشیں رکھی گئیں اس کا ملک وقوانین کے احترام کے ساتھ فائدہ اٹھاکر معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف زہر افشانی ، کسی مذہب کے خلاف ہرجا سرائی ملک کے قانون کے خلاف ہے۔ لہٰذا قانونی جنگ قانون کے دائرہ میں رہ لڑنی ہوگی۔ اللہ ہمارے اندر اتحاد پیدافرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔