فرقہ واریت اور سیاست کا گرتا معیار

اترپردیش کی آبادی پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ آزادی کے بعد سے لگاتار یہ آواز سنائی دیتی رہی ہے کہ اترپردیش جیت لیا تو ملک جیت لیا۔ بی جے پی اور کانگریس اتحاد میں جس کا پلڑا وزنی ہوگا، 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں اس پارٹی کے لیے جیت کے راستے آسان ہوجائیں گے۔ آزادی کے بعد اس ریاست نے ملک کوکئی وزیر اعظم دیئے۔ وزیر اعظم مودی کی نگاہ دوسرے انتخابات سے کہیں زیادہ اترپردیش میں الجھی ہوئی ہے۔ وہ اترپردیش میں جیت کے معنی بھی جانتے ہیں اورشکست کے بھی۔ شکست کا مطلب مودی کا گرتا ہوا گراف ہے، شکست کا مطلب ہوگا کہ عام ووٹرس نے مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے کو جھٹک دیا ہے۔

بہار کی شکست کے بعد بوکھلائی بی جے پی کے لیے یہ آر پار کی لڑائی ہے۔ کانگریس نے بہار انتخابات میں اتحاد کے سہارے کامیابی کی تاریخ لکھی۔ مسلسل شکست سے گھبرائی کانگریس کے لیے بہار کی جیت امید کی کرن لے کر آئی تھی۔ مودی کے کانگریس مکت بھارت کی مہم کمزور ہوئی۔ اوراگر اب کانگریس اترپردیش میں جیت کی تاریخ دہراتی ہے تو 2019 کے لیے اس کا دعویٰ مضبوط ہوجائے گا۔ یہ بات بی جے پی اور مودی بھی جانتے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد انتہا پسند طاقتوں کے درمیان بھی ان کا گراف گرا ہے۔ نوٹ بندی کا جواب نہ مودی دے سکے نہ آربی ائی کے ارجت پٹیل۔ ارجیت پٹیل تومودی کے پسندیدہ صحافیوں سے بھی سوالوں کا جواب دینے میں بچتے رہے۔ اس لیے پہلی بار ایسا بھی ہوا جب اترپردیش میں مودی کے جلسوں میں مودی مردہ باد کے نعرے بھی لگے ۔

نوٹ بندی سے دامن بچانے کی کوشش بھی رائیگاں گئی۔ کیونکہ اترپردیش کے بنکر، کسان اور غریب آدمی آج بھی نوٹ بندی کے عذاب سے نکل نہیں سکا ہے۔ اس لیے مودی نوازوں کی الٹی سیدھی منطق عوام سے ہضم نہیں ہوئی۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ مودی اور بی جے پی کے پاس بچا تھا۔ فرقہ واریت کی آنچ تیز کرو۔ انتہا پسند ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائو۔ سیکولر سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے میں الجھا دو۔ امت شاہ فرقہ وارانہ فسادات کے مثبت کردار پر پہلے بھی اپنا بیان دے چکے ہیں ۔ اس بار ان کے قصاب کہنے پر بھی کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے بیانات سے نہ انتہا پسندوں کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ امت شاہ اور مودی کو۔ بی جے پی کے بڑھتے گراف میں رتھ یاترا، بابری مسجد شہادت، گجرات قتل عام اوراشتعال انگیز بیانات کا ہاتھ رہا ہے۔ آزادی کے بعد بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنا بی جے پی سے زیادہ مودی کا کرشمہ ہے۔ یہ کرشمہ اترپردیش میں کامیاب ہوتا ہے تو ہندوستان میں کم از کم تین برسوں کے لیے سیکولرزم کی موت ہوجائے گی۔

ملائم سنگھ یادو کے ڈرامے کا ایک حصہ بی جے پی اور مودی کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھا۔ اب تو امر سنگھ تک یہ اقرار کررہے ہیں کہ پوری اسکرپٹ ملائم سنگھ یادو نے لکھی۔ لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ ابھی حال میں ایک ٹی وی چینل پر امر سنگھ نے رجت شرما کو دیے گئے انٹرویو میں جس طرح مودی اور بی جے پی کی وکالت کی، اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ کیا بی جے پی اورمودی سے قربت کا عمل سماج وادی سے نکالا جانا ہے؟ یا اب اس بات کو طئے سمجھا جائے کہ بی جے پی یا امت شاہ کے اشاروں پر ہی امر سنگھ، ملائم کے ساتھ سیاسی ڈرامے کی ریہرسل کرنے آئے تھے۔؟ میں اس اسکرپٹ کو ملائم سنگھ کی اسکرپٹ تصور نہیں کرتی۔

ملائم سنگھ یادو دراصل دو نائو پرسواری کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے امر سنگھ کو ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ اکھیلیش نوجوان ہیں ۔ وہ اس سچ کو جانتے تھے کہ امر سنگھ کی موجودگی کی وجہ سے مسلم ووٹ ان کے پاس سے دور چلے جائیں گے۔ آدھی اسکرپٹ اکھلیش نے لکھی او اس اسکرپٹ میں ملائم کو نگراں (مارگ درشک) کا کردار دیا گیا۔ اورآسانی سے نئی اور مضبوط سماج وادی پر قبضہ کر لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے ایک برس میں اکھیلیش نے اترپردیش اور نوجوانوں کے لیے بہت کچھ کیا۔ اور صرف کیا نہیں بلکہ مسلسل وہ کروڑوں کے اشتہارات کے ذریعہ بھی اترپردیش کے ساتھ ہندوستان کے عوام کو بھی اپنے کارناموں اور ترقی کے کاموں کی تفصیلات سناتے رہے۔

اگراکھیلیش کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا سہرا صرف اکھیلیش کے سر ہوگا۔ اوراس میں کوئی شک نہیں کہ اکھیلیش، راہل گاندھی سے زیادہ طاقتور بن کر ابھریں گے۔ راہل سے اتحاد کا مطلب صاف ہے کہ نتائج میں ووٹ کم آنے پر ایس پی، بی جے پی کا ساتھ نہیں دے گی۔ لیکن یہ بات، مایاوتی کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ مایاوتی اسی لیے بار بار اپنے جلسوں میں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گی۔ ایسا وقت آیا تو وہ حکومت میں بیٹھنا پسند کریں گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اگر برا وقت آیا تو مایاوتی کا یہ بیان وقت کے حساب سے تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔

اترپردیش کے سیاسی پس منظر پر غور کریں تو بی جے پی کو خطرہ ہے تو ایس پی اور کانگریس کے اتحاد سے۔ اس لیے زیادہ تر بیان بازیاں ان دونوں کے خلاف ہی ہورہی ہیں ۔ بیان بازی میں اکھیلیش بھی پیچھے نہیں ۔ جہاں وزیراعظم مودی اخلاقیات کی تمام حدیں توڑتے رہے، وہیں اکھیلیش گجرات کے گدھوں کے بہانے ان کی کلاس لیتے رہے۔ لیکن مودی اور اکھیلیش کے بیان میں کلاس کا فرق ہے۔ اکھلیش پڑھے لکھے ہیں تو انہوں نے گدھے کو علامت کے طور پر استعمال کیا۔ اورآڑے ہاتھوں گجرات کے برانڈ امبیسڈر امیتابھ بچن کی کلاس بھی لے لی۔

گدھے کی سرگزشت اردو ناول نگار کرشن چندر کا مشہورناول ہے۔ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب کرشن چندرپنڈت نہرو سے پہلی بار ملے تو انہوں نے تپاک سے پوچھا۔ وہی گدھے والے کرشن چندر؟ گدھے کے مذاق میں ایک طنز ہے لیکن مودی کے مذاق نے اب وزیر اعظم کے عہدے اور وقار کا خون کردیا ہے۔ وہ زندوں کی سیاست سے ہوکر مسلمانوں کے قبرستان میں داخل ہوگئے۔ طلاق ثلاثہ پر حملہ ہوچکا ہے۔ ’بے نامی‘ جائیداد کے بہانے مسلمانوں کی زمینیں ہڑپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ اوقاف کی زمین پر بھی حکومت کی بری نظر ہے۔

اردو زبان کا سیاسی استعمال بھی زوروں پر ہے۔ مدھیہ پردیش میں گرفتار کیے گئے تیرہ پاکستانی جاسوسوں کی خبروں پر میڈیا نے خاک ڈالنے کا کام کیاہے۔ اوراب میڈیا قبرستان والے بیانات کی لیپا پوتی کا کام انجام دے رہا ہے۔ اسلام پر حملے کے لیے طارق فتح علی، آج مودی کے قریبی ہیں ۔ روزگار کے لیے برسوں پہلے باہر گئے ہندوئوں کے خالی مکانات کو لے کر سنگیت سوم نے الگ زہر پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے۔ کبھی گائے پر حملہ، کبھی پاکستان کا نام لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی قرار دینا، غور کریں تو ہندوستانی تاریخ میں اس طرح کے واقعات پہلے بار سامنے آرہے ہیں ۔ سوشل ویب سائٹس پر میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایسے وی ڈی اوز دیکھے ہیں جس میں پیغمبر اسلامؐ کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ ہندو دیوی دیوتائوں کی علامتی تصور بنانے کے جرم میں ام اف حسین کو ہندوستان سے بھاگنا پڑا تھا۔ کیا مسلمانوں کی اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو مذاق کے نشانہ پر لے سکیں ۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

المیہ یہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اب اس سیاست پر اتر آیا ہے جہاں اسے سوئے ہوئے مردوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں ۔ اسی طرح گھروں کو روشن کرنے والی بجلی کو بھی ہمارے وزیر اعظم نے ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔امت شاہ اور مودی کے علاوہ کانگریس بھی نرم ہندوتو کا کھیل کھیلنے میں پیچھے نہیں ہے۔ ابھی دگ وجے سنگھ کا بیان آیا کہ مدرسوں اورآر ایس ایس میں کوئی فرق نہیں ۔ انہیں کون سمجھائے کہ ہندوستان کے گائوں گائوں میں پاٹھ شالائیں ابھی بھی موجود ہیں ۔ جیسے پاٹھ شالا، ویسے مدرسہ۔ پاٹھ شالائوں میں سنسکرت کی تعلیم دیے جانے کا مطلب ہر گز نہیں کہ یہاں سے نکلنے والے بچے آر ایس ایس کی ذہنیت کا شکار ہیں ۔ کانگریس ایسے بیانات پہلے بھی دیتی رہی ہے۔ بی جے پی کے ’گرم ہندو تو‘ سے کانگریس کا ’نرم ہندوتو‘ کسی صورت کم نہیں ، مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے۔ جو سیاستداں زبان پر قابو رکھنا نہیں جانتے ہوں ، وہ ملک کے فروغ اور ترقی میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرسکتے۔ بہر صورت اتر پردیش کا الیکشن ہم سب کے لیے ایک چیلنج ہے۔ سیاست کے گرتے معیار کو روکنا ضروری ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب فرقہ واریت کی آندھی پورے ہندوستان میں چھا جائے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔