کیا ’زعفرانی فتح‘ کے فتنوں کا جواب گردن زدنی ہے؟

  طارق فتح کو کئی مہینوں سے کبھی کبھار نیوز چینلوں پر خاص طور سے ’’زی نیوز کے چینل‘‘ پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ طارق فتح اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی میں بدنام زمانہ ہیں ۔ پاکستان کی سر زمین پر اپنی ناپاک اور بے اصل پیدائش کا ذکر خیر مزے لے لے کر کرتے ہیں ۔ اپنی روشن خیالی کا تذکرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی ہر چیز سے نہ صرف الرجی ہے بلکہ عداوت اور دشمنی ہے۔ یہی چیز زی نیوز چینل کے مالک کو سب سے زیادہ پسند آئی، جس کی وجہ سے ہندستان کی برہمن لابی جس کی قیادت آر ایس ایس کرتا ہے طارق فتح سے یارانہ کا سبب بنی۔

 زی نیوز اپنے چینل پر ’’طارق فتح کا فتویٰ‘‘ کے نام سے ہر ہفتہ ایک شو دکھاتا ہے۔ اس شو کے اینکر کا مقصد ہوتا ہے کہ طارق فتح کی بیہودگیوں ، بدگوئیوں ، بدتمیزیوں اور دروغ گوئیوں کی خوب خوب تشہیر کی جائے۔ اس شو میں جان ڈالنے کیلئے چند نادان قسم کے مسلمانوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ جو طارق فتح کی بکواس کا جواب غصے اور اشتعال انگیزیوں سے دیتے ہیں ۔ جن سے ان کی ملائیت کی بھی تشہیر ہوتی ہے اور فتنہ پرور فتح کی فتحیابی ہوجاتی ہے۔ زی نیوز چینل جان بوجھ کر مسلمانوں میں کسی پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اور قابل شخص کو نہیں بلاتا جو طارق فتح کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر لاجواب کرسکے اور شیطان کی اپنی اوقات بتاسکے۔ مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو فتح کو فکری شکست نہ دے سکیں مگر جس دن طارق فتح کی شکست ہوجائے گی چینل مذکور کی بڑی بدنامی ہوگی اور پھر وہ شو اس قابل نہیں ہوگا کہ اسے دوبارہ دکھایا جاسکے۔

 طارق فتح کو کئی قابل اور عالم مسلمانوں نے ڈیبیٹ کیلئے چیلنج کیا مگر وہ اپنی اوقات جانتا ہے جس کی وجہ سے مکر گیا۔ کبھی ایسے لوگوں کے ساتھ ڈیبیٹ یا مناظرہ کیلئے تیار نہ ہوا۔ مفتی یاسر ندیم الواجدی نے اسے کئی بار للکارا اور چیلنج کیا کہ اسے اپنی فکر پر اگر ناز ہے اور غرور اور گھمنڈ ہے تو آئے جہاں چاہے وہ مقابلہ کیلئے تیار ہیں ۔

 ’’مفتی واجدی نے اسٹوڈیو میں ڈیبیٹ نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ، ’’یہ جو اسٹوڈیو میں بیٹھ کر تم بندروں کی پنچایت لگاتے ہو اس سے تمہارے مینٹل اسٹیٹس کا تو پتہ چل سکتاہے لیکن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کبھی نہیں ہو سکتا۔ ڈیبیٹ کے جو اسٹینڈرڈ رولز ہیں اگر ان کو فالو کرنے کیلئے  تیار ہو تو پھر آؤ اور بتاؤ جگہ کہ کہاں آنا ہے۔ میں اور تم ، ہم ڈبیٹ کرتے ہیں ۔۔۔اور دیکھتے ہیں کہ تمہارے جھوٹ میں کتنا دم ہے۔‘‘

 33 سالہ مفتی واجدی شکاگو (امریکہ) میں ایک اسلامی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ ان کا آبائی وطن دیوبند ہے ۔ وہ دارالعلوم دیوبند سے باقاعدہ سند یافتہ مفتی ہیں جبکہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے انھوں نے پی ایچ ڈی اور امریکن یونیورسٹی ورجینیا سے عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ وہ معروف عالم دین اور کالم نگار مولانا ندیم الواجدی کے فرزند ہیں ۔

ابھی تک مفتی واجدی یو ٹیوب پرتارک الدین کی دروغ گوئی اور گمراہ کن پروپیگنڈے پر Fatah ka Fatwa, A Surgical Strike کے عنوان سے آٹھ سے زیادہ کلپس اپ لوڈ کر چکے ہیں جس میں تارک الدین کے پروگرام سے لئے گئے فلموں کے حصے دکھا کر ہر اعتراض کا مدلل جواب دیا ہے۔

 اپنے چیلنج کا جواب نہ ملنے پر مفتی واجدی نے تارک الدین کو اپنے پروگرام کی آٹھویں قسط میں پھر للکارا اور کہا ، ’’زی نیوز پر طارق فتح کا جو شو چل رہا ہے وہ ایک خاص ذہنیت اور خاص agenda کو لے کر چلا یا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کو ہندستان میں بدنام کرنا ہے۔ میں نے طارق فتح کو ایک ہفتہ پہلے ٹیوٹر پر چیلنج کیا تھا؛ لیکن طارق نے میرے ساتھ ڈیبیٹ کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر اسٹینڈرڈ رولز کی روشنی میں اس کے ساتھ ڈبیٹ ہو گئی تو اس کا ایجنڈا اور اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ اور دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے شو میں کتنا جھوٹ پھیلاتا ہے‘‘۔ نیز انھوں نے تارک الدین کو ٹیوٹر پر پیغام بھی بھیجا اور کہا ، ’’میں اب بھی تمہارے جواب کا منتظر ہوں ۔ آؤ ہم ایک علمی مباحثہ کرلیں ۔ تمہاری خاموشی تمہاری شکست نہیں سمجھی جانی چاہئے‘‘۔

 مگر پہلے تو اس نے ٹوئیٹ کا جواب نہ دیا پھر اپنی اہلیہ سے اس کا جواب دلوایا اپنے بدنام زمانہ شوہر کی ناشائستگی پر قائم رہتے ہوئے موصوفہ نے ان الفاظ میں جواب دیا، ’’#FatahKaFatwa کوئی ڈبیٹنگ کلب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ طارق فتح بکروں کے ساتھ ڈبیٹ نہیں کرتا جو اپنی بیویوں کو کالے تھیلے پہناتے ہیں ‘‘۔

  فتنہ گر طارق فتح نے واجدی صاحب کے ٹوئیٹ تک کا جواب دینا گوار ا نہیں کیا۔ اپنی بیوی سے جواب دلایا تاکہ اس کی کم علمی ظاہر نہ ہو۔ بیوی نے بھی جواب دیا وہ جواب تو نہ تھا بلکہ بے حیائی کا پرچار تھا۔ طارق جیسا بے حیا کی بیوی بے حیا نہیں ہوگی تو کیا ہوگی۔ بے حیا انسانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے ’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘ (جب تجھ میں حیا نہیں تو تیرا جی جو چاہے کر)۔

  طارق فتح اور مسز طارق جیسے لڑکے اور لڑکیاں بے حیا گودوں میں پلتے بڑھتے ہیں ۔ جب پل بڑھ کر جوان ہوجاتے ہیں تو ان میں سے جو ٹپکتا ہے سب کو معلوم ہے۔ پیالے سے وہی ٹپکتا ہے جو پیالے میں رہتا ہے۔ اسلام دشمن ایسے ہی لوگوں کے خریدار ہوتے ہیں ۔

  اسلام کے دشمنوں کو شاید معلوم نہیں ہے کہ مستشرقین (Orientalists) جو اسلام، پیغمبر اسلامؐ کو اپنی گالیوں دروغ گوئیوں اور بدزبانیوں کا نشانہ بناتے نہ تھکتے تھے۔ ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ جن لوگوں نے ان کی نامکمل فہرست مکمل کی ہے ان میں فہرست اول 171 لوگوں کے نام ہیں اور فہرست دوم میں  445 افراد کے نام ہیں ۔ ان میں ایسے ایسے دانشور اور ماہرین ہیں کہ تسلیمہ نسرین، سلمان رشدی اور طارق فتح جیسے لوگ ان کے پاؤں کی دھول کے برابر نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے بعض حلقہ بگوش اسلام بھی ہوگئے۔ زندوں میاں مارٹن لنگر (Martin Lings) کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اس نے سیرت رسولؐ پر ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اسلامی ابتدائی ماخذ کی روشنی میں لکھی ہے۔ شن (sheun)، حامد الگر (Hamid Algar) مستشرقین میں شامل تھے۔ انھیں بھی کلمۂ حق قبول کرنے کی توفیق ملی ہے۔

  اسلام کو تقویت اور شہرت نہ صرف اسلام کے ماننے والوں سے ملی ہے بلکہ اسلام کے دشمنوں سے بھی اسلام کو تقویت اور شہرت حاصل ہوئی ہے جہاں اسلام کی پہنچ نہیں ہوسکتی تھی وہاں بھی اسلام کے کٹر دشمنوں اور مخالفوں نے اسلام کو پہنچایا اور وہاں بھی اسلام کا چراغ روشن ہوا۔اسلام کے ماضی اور حال کے دشمنوں سے حق کا چراغ نہ کبھی بجھا ہے اور نہ بجھے گا۔ حق اور باطل کی جنگ پرانی ہے: ’’ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز-چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی‘‘…  شاید اسی لئے ہے کہ حق اس سے مزید اجاگر اور روشن ہوتا رہے اور حق کی شمع اسی طرح اندھیروں میں روشنی پھیلاتی رہے۔

اسلام پر دنیا کے کونے کونے سے یلغار ہورہی ہے پھر بھی اسلام کا سیلاب دنیا کے کونے کونے میں بڑھتا اور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اسلام کے دشمنوں کو یہی چیز سب سے زیادہ پریشانی کا سبب ہے۔وہ جب خود کچھ کارگر نہ ہوسکے تو سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور طارق فتح جیسے بدنام زمانہ اسلام دشمنوں کو اپنی کوکھ سے پیدا کئے اور دودھ پلا پلا کر پرورش و پرداخت کرکے میدان میں بھیجنے پر مجبور ہوئے مگر یہ نقلی اور جعلی دشمن کب تک میدان میں رہیں گے، جب اصلی دشمن بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ پھر یہ چہ پدی چہ پدی کے شوربے آخر کب تک اپنے آقاؤں کے بل بوتے پر ٹکے رہیں گے۔ ان ٹٹ پوجیوں کو معلوم ہونا چاہئے  ؎

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن … پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 مسلمانوں کو ایسے بیہودہ لوگوں کی بیہودہ باتوں سے مشتعل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کو کرارا جواب دینا چاہئے ۔ جب ان کی فکری شکست ہوجائے گی تو پھر انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ جب تک مسلمان مشتعل ہوتا ہے ان کی Market value ہوتی ہے ۔ جب مسلمان کو فکری میدان میں چت کر دیتا ہے تو پھر ایسے لوگ یوسف بے کارواں ہوجاتے ہیں ۔ مسلمانوں میں جو لوگ ایسے لوگوں کی گردن زدنی کا فتویٰ دیتے ہیں ان کی قیمت مارکیٹ میں بڑھا دیتے ہیں ۔ ان کے آقاؤں کو یہی چیز مطلوب ہے۔ بلا وجہ کے فتوؤں سے ان شیطان صفت انسانوں کی قیمت بڑھتی ہے اور ان کے خریداروں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ایسے لوگوں کا جواب جمہوری طریقہ سے اور نرم لب و لہجہ میں دینے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو یہی تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کا جواب بھلے طریقہ سے دو ایک نہ ایک دن تمہارا دشمن پسپا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔