فرقہ واریت اور ہم

ڈاکٹر عابد الرحمن

گڑگاؤں میں مسلمانوں کو کھلے میدان میں نما جمعہ کی ادائیگی سے روکا گیا، پولس میں شکایت کی گئی جس کے بعدچھ افراد گرفتار کئے گئے لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا کئی ہندو تنظیموں نے ایک متحد تنظیم بناکر مورچا نکالا اور ان چھ افراد کی رہائی اور ان کے مقدمات واپس لینے کی مانگ کی اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو کھلے میدان میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ جائے، دو ہفتے بعد اس تنظیم نے دس مقامات پر نماز میں رخنہ اندازی کی اور نمازیوں کو نکل جانے پر مجبور کیا اور انتظامیہ کو دھمکی دی کہ اگر کھلے میں نماز نہیں روکی گئی تو وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں وہ شہر میں قانون کا برابر نفاذ چاہتے ہیں اور مسلمان میدانوں میں نماز پڑھنے کی اجات نہیں رکھتے جو قانون کے خلاف ہے۔

واہ !کیا بات ہے ملک میں قانون نافذ کر نے والے مستحکم ادارے موجود ہونے کے باوجود اسکے نفاذ کی ذمہ داری ان تنظیموں کے سپرد کر دی گئی ہے یعنی یہ تنظیمیں ان تمام اداروں سے زیادہ قوی اور ذی اختیار ہوگئی ہیں اور یہ بات وطن عزیز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس کے قانونی اداروں نظام عدل صوبائی اور مرکزی حکومت کی بے عزتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ان سب کا کچھ نہ کچھ یوگدان ضرور ہے، کیونکہ ابھی تک ان میں سے کسی بھی ادارے نے ان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی وہ کس قانون کے تحت ایسا کر نے کے مجاز ہیں ۔

 یہ لوگ دراصل جھوٹے ہیں ان کا مقصد قانون کا نفاذ نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور بڑھانے کے مواقع تلاش کر ناہے تاکہ ان کے ذریعہ سماج میں موجودمسلم مخالف فرقہ واریت کو بڑھا وا دے کر زندہ رکھا جاسکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کھلے میدانوں میں نماز پڑھنے والے مسلمان دراصل وہاں غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتے ہیں ان جھوٹوں نے تو یہ انتہائی لغو الزام بھی لگایا کہ وہاں ’ پاکستان زندہ باد ‘ اور’ ہندوستان مردہ باد ‘کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں جس سے وہاں کا ماحول خراب ہورہا ہے۔ انہوں ان نمازوں میں رخنہ اندازی کر نے والوں کو دیش بھکت بھی قرار دیا۔ اور ویسے بھی اب ملک میں دیش بھکتی کے معنی و مفہوم مسلم مخالفت ہو گئے ہیں ، اب ملک میں ہر وہ شخص دیش دروہی ہو گیا ہے جو مسلمانوں کی بات کرے اور ان پر ہورہے مظالم کی مخالفت کرے۔ فرقہ واریت کا دوسرا واقعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں پہلے مقامی بی جے پی ایم ایل اے نے وائس چانسلر کو خط لکھ کر یونیورسٹی طلباء یونین کے دفتر میں محمد علی جناح کی تصویر کا جواز پوچھا اور اس کے بعد ہندو تنظیموں کے لوگ اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے یونیورسٹی میں گھس گئے اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے وہاں موجود سیکیورٹی اہلکاروں اور طلباء سے مار پیٹ شروع کردی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم کے بعد اب جناح کا ہندوستان میں کوئی مطلب نہیں رہالیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان کے قائد اعظم بننے کے بعد متحدہ ہندوستان کی تاریخ سے ان کا کردارمٹ گیا۔ اور یونیورسٹی میں بھی ان کی جو تصویر لگی ہے وہ آج کل کی یا آزادی کے بعد کی نہیں بلکہ آزادی سے پہلے کی ہے اور ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بی جے پی اور اس کے مذکورہ سانسد اس بات سے نابلد ہوں یعنی اس سارے کھڑاگ کا مقصد وہ نہیں ہے جو بتایا جا رہا ہے۔ یہاں بھی مقصد وہی ہے جو گڑگاؤں میں ہے کہ مسلم مخالف فرقہ وارانہ ماحول گرم کر اسے لمبے عرصہ تک بنے رہنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔

یہ سب دراصل الیکشن کی تیاریاں ہیں، کرناٹک اسمبلی انتخابات جاری ہیں لوک سبھا انتخابات قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ بی جے پی جن بڑے بڑے وعدوں اور جھوٹے سچے دعووں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچی ہے ان میں کا کچھ بھی مکمل نہیں ہوا۔ حالانکہ کامیابیوں کا، بے مثال کارکردگی کا، ترقی اورگڈگورننس کا،صنعت معیشت اور زراعت میں بہتری کا اوربدعنوانی کو لگام لگانے کا شور تو بہت ہو رہا ہے لیکن حقیقتاً زمین پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا بلکہ ہر ہر شعبہ کی حالت پہلے کے مقابلے مزید خراب ہو گئی ہے، نئے روزگار پیدا کر نے کا جو وعدہ انہوں نے کیا تھا وہ کیا سچ ہوتا جب کہ نوٹ بندی اور کیش کرنچ کی وجہ سے خودپہلے سے موجود روزگار ہی کم ہوئے جس سے بے روزگاری مزید عروج پر پہنچ گئی اور اب تو یہ اتنے بے بس نظر آرہے ہیں کہ ان کے پاس روزگار کے متعلق بولنے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا سوائے پکوڑوں کی دکان اور پان کے خنچے کے۔سو عوام کا ذہن بھٹکانے کے لئے ان کے پاس کانگریس کی کارکردگی پر سوال اٹھانے، ہندو تاریخ کے متعلق جھوٹے دعوے کر نے، مسلم تاریخ کو مسخ کر نے، مسلم تاریخی نشانیوں کو ظلم و استدداد کی علامت بتاکر ان پر دعویداری ٹھونکنے، ملک کی آزادی اور تعمیرمیں مسلمانوں کی قربانیوں کا انکار کر نے، مسلمانوں کے رہن سہن کھان پان اورپرسنل لاء کو ہندوتہذیب بنام ہندوستانی تہذیب سے متصادم بتاکر مسلمانوں کو  ملک کے لئے اجنبی بنا کر پیش کر نے ان پر طعن و تشنیع کرنے اور اپنی اتحادی تنظیموں کے ذریعہ مسلمانوں پر حملے کر وانے اورنفرت پھیلانے کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں بچا۔

 حالانکہ پچھلے انتخابات میں بھی ان کی یہی اسٹریٹیجی غالب تھی لیکن اس وقت انہوں نے فرقہ واریت کی اس کالی دال کو ترقی کا تڑکا لگا کر کام نکال لیا تھا لیکن اب ترقی کا تڑکا پھیکا پڑگیا سو ان کا سارا زور اسی کالی دال کو بگھارنے پر ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا کام باقاعدہ حکومت کی سر پرستی میں کیا جارہا ہے۔ ہریانہ میں ہوئے واقعات پر وزیر اعلیٰ منوہر کھٹر نے حالانکہ قانون کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کی لیکن تھوڑے نرم انداز میں وہی کہا جو ہندو تنظیمیں کہہ رہی ہیں ، اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تنازع میں یوگی جی کی پولس نے توجو بھی کیا باقاعدہ یونیورسٹی طلباء کے خلاف ہی کیا اور وزیر اعلیٰ بھی بولے تو تقریباًوہی کہا جو ہندو تنظیمیں کہہ رہی ہیں ۔مرکزی سرکار نے تو ابھی تک کچھ کہا ہی نہیں نہ وزیر اعظم کچھ بولے اور نہ ہی لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کے مدنظر وزیر داخلہ نے کچھ کہا۔

دراصل ایک معمولی استثنیٰ کے علاوہ ملک کی اکثریت کو مسلم مخالفت کی عادت ہو گئی ہے، یہ لوگ مسلمانوں کے تئیں دشمنی کی حد تک متعصب ہوگئے ہیں اور افسوس کہ اس میں ان کا ہر طبقہ ایک ساتھ کھڑا ہے چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، روزگار والا ہو یا بے روزگار اونچی ذات کا ہو یا نچلی ذات کا۔ سماجی طورپر یہ سب مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور سیاسی ٹھیکیداروں نے یہ دشمنی ان کے دل و دماغ پر اس قدر غالب کر رکھی ہے کہ وہ اس کے پس پردہ عزائم کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں جہاں اس کی بات آجاتی ہے وہ اپنے لیڈروں سے روزگار اور اپنے معیار زندگی کی ترقی کے کاموں کا استفسار بھی نہیں کرتے اور جو کچھ بھی بی جے پی کی سرکاریں کر رہی ہیں وہ دراصل اسی کو سیاسی طور پر کیش کر نے کی کوششیں ہیں ۔ ان کوششوں کو روکنے کی ذمہ داری ہم پر بھی ہے کہ یہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک ہم ان کا جواب نہ دیں یا وہی نہ کر نے بیٹھ جائیں جو انہیں اپنے مقصد میں کامیاب کر نے کے ضروری ہے۔

اس ساری جوتم پیزار سے ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہندو مشتعل ہوں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہوں کہ ہندو ووٹ بنک کو کیش کر نے کے لئے یہی کافی ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک مخمصہ میں مبتلاء کر دیا ہے کہ کچھ بھی کریں فائدہ انہی کا۔ جناح کے معاملہ میں دیکھئے اس تنازع سے ان کا مقصد یہی تھا کہ یونیورسٹی طلباء یونین اور انتظامیہ ان کے جناح کی تصویر کی حمایت میں ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں تا کہ ان کا کام آسان ہو،اور ہوا بھی یہی۔ لیکن اس کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا تھا، اگر ان کے کہنے سے جناح کی تصویر اتارلی جاتی تو اس میں بھی یہی فتح مناتے اور اس کے بعد آگے بڑھ کر کچھ اور کہتے۔ ہمیں انتہائی متحد اور منظم ہو کر یہ سوچنا اور طئے کرنا چاہئے کہ اس طرح کے معاملات میں ہماراطرز عمل کیا ہو۔

یہ ہمارے لئے انتہائی بیچارگی بھراوقت ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہم مشتعل نہ ہوں، جارحانہ بیان بازی نہ کریں، جو بولنے کے مجاز ہیں وہی بولیں، بہت اصرار کے بعد بھی ہر کوئی نہ بولے اور بولے بھی تو اس طرح نہ بولے کہ اس سے ہمارا اختلاف اجاگر ہو، ہر کوئی لیڈر بننے کی کوشش نہ کرے، منافقین کو الگ کر کے ’اولی الامر منکم‘ کی صفات کے حامل مخلصین کو قیادت سونپیں ان پر اعتماد بھی کریں اور ان کے ہر ہر قول و فعل پر نظر بھی رکھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔