رجب طیب اردوغان

مبصر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

مصنف:  ڈاکٹر راغب السرجانی

مترجم: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

صفحات: 328،  قیمت: 250؍ روپے

ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، F-155، فلیٹ نمبر 204، ہدایت اپارٹمنٹ، شاہین باغ، جامعہ نگر نئی دہلی۔ 110025

کسی خطۂ زمین میں اسلام کے عروج،  زوال اور پھر عروج کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو تو اس کی بہترین مثال ترکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا پر اس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے سلاطین بڑے کرّو فر کے مالک تھے۔ ایک بڑے خطۂ زمین پر اس کی حکم رانی قائم تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں اس کے سامنے لرزاں و ترساں رہتی تھیں۔  پھر ایک زمانہ آیا کہ اس کی حدودِ مملکت سکڑتی اور سمٹتی چلی گئیں،  دیگر ممالک اس پر شیر ہو گئے، یہاں تک کہ انھوں نے عسکری طاقت کے بل پر اس کے حصے بخرے کر دیے۔ اس عرصے میں اس کے ایک فوجی جرنل نے کچھ دم خم دکھایا۔ اس نے ترکی کے دشمنوں سے لوہا لیا اور مملکت کو بچاکر جدید ترکی کی تعمیر کی، لیکن اس نے غضب یہ کیا کہ اپنی حدودِ مملکت سے اسلام کو دیس نکالا دے دیا۔ اس نے خلافت کی قبا چاک کردی، اسلام کا نام لینے کو جرم قرار دیا، اتنا سنگین جرم کہ اس کی سزا موت قرار پائی، اذان پر پابندی عائد کردی، مساجد کو میو زیم اور گوداموں میں تبدیل کر دیا، دینی مدارس و مکاتب پر تالے ڈال دیے، شرعی عدالتوں کو بند کر دیا اور اوقاف کو ختم کر دیا، اسلامی کلینڈر کی جگہ مغربی کلینڈر جاری کیا، ترکی زبان کے رسم الخط کو عربی سے بدل کر لاتینی کر دیا، خواتین کے لیے حجاب پر پابندی عائد کر دی۔ الغرض اس نے سیکولر ازم یعنی لادینیت کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا لیا اور اسلام کو کھرچ کھرچ کر مٹا دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن یہ تمام کوششیں ترک عوام کے دلوں سے اسلام کو محو کر دینے میں کام یاب نہ ہو سکیں۔  اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ بندوں کو توفیق دی کہ وہ اسلام کی شمع جلاتے رہیں اور شدید طوفانوں کے باوجود اس کی لَو کو بجھنے نہ دیں۔  انھوں نے اس راہ میں    بے مثال قربانیاں پیش کیں،  قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں،  جلا وطنی کی زندگی گزاری، دار و رسن کو چوما، حکومت و اقتدار سے بے دخل کیے گئے، پابندیوں پر پابندیاں قبول کیں،  لیکن نہ بکے، نہ تھکے،  نہ اپنی راہ کھوٹی کی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ترکی میں اسلام کا کلمہ بلند ہونے لگا، مساجد کے میناروں سے اذانیں سنائی دینے لگیں،  مدارس و مکاتب پھر آباد ہونے لگے، خواتین اپنی مرضی سے حجاب اختیار کرنے لگیں اور اس پر روک ٹوک باقی نہ رہی، غرض ترکی میں اسلام کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

ترکی میں اسلام کے احیاء کے میدان میں اللہ کے جن بندوں نے غیر معمولی خدمات انجام دیں ان کی طویل فہرست ہے۔ اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ اس سلسلۃ الذہب میں ایک نمایاں نام ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کا ہے۔ [صدرِ ترکی کے نام کے تلفّظ میں اختلافات ہیں :اردوغان، اردوگان، اردوجان، اردوان وغیرہ۔ میں نے ’اردوان‘ کو ترجیح دی ہے۔ ] اردوان نے سیاسی سطح پر کام یاب حکمت عملی اختیار کی۔ انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی چھپانے کی کوشش نہیں کی، لیکن اسلام کے غلبے کے لیے اقدامات بہت ہوشیاری اور دانش مندی کے ساتھ کیے۔ انھوں نے سیکولر ازم کے محافظوں اور علم برداروں سے معرکہ آرائی انہی کے اسلحے سے کی اور دھیرے دھیرے ان کے پَر کتر نے میں کام یابی حاصل کر لی۔ انھوں نے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے ذریعہ ترک عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انھوں نے ترکی معیشت کو استحکام بخشا، اسے نہ صرف قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی، بلکہ اس کا شمار قرض دہندہ ممالک میں ہونے لگا۔ اردوان ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے جس کی آواز بین الاقوامی پلیٹ فارم پر سنی جاتی ہے اور اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ انھوں نے متعدد مواقع پر اسلام کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو للکارا اور ان کی اوقات بتا دی۔ ان کا تعارف ایک ایسے مسلم حکم راں کے طور پر ہوا جو دیگر ممالک میں ظلم و ستم کا شکار بنائے جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر کُڑھتا ہے، ان پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور مظلوم اور بے یار مددگار مسلمانوں کی داد رسی اور گلو خاصی کے لیے اپنا دستِ تعاون دراز کرتا ہے۔ ان کی شخصیت اس شعر کی مصداق بن گئی؎

خنجر  چلے  کسی  پہ  تڑپتے  ہیں  ہم  امیر

سارے جہاں  کا  در د  ہمارے  جگر میں ہے

ان خصوصیات کی حامل شخصیت متنازعہ بن جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔  اردوان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مغربی ممالک کے نظریہ سازوں کو تو ان کے بارے میں منفی تبصرے ہی کرنے تھے کہ وہ ان کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔  ان ممالک میں بھی کیوں کر ان کو تحسین کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے جن کی اسلام دشمنی معروف ہے۔ لیکن افسو س کہ مسلم ممالک میں بھی ان کی شخصیت متنازعہ بنی ہوئی ہے اور خود ہمارے ملک میں اسلام پسند طبقہ  یک رائے نہیں ہے۔ بعض لوگ انھیں کٹر اسلام پسند کہتے ہیں تو کچھ لوگ سیکولر ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔  بعض حضرات ان کی مومنانہ فراست کی داد دیتے ہیں تو کچھ بد عقیدہ اور شیعیت کا حامی قرار دیتے ہیں۔  کچھ لوگ انھیں ترکی میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا امین سمجھتے ہیں تو کچھ ان کی مصلحت آمیز سست روی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔  بعض حضرات انھیں عالم اسلام کے نجات دہندہ اور ہیرو کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو کچھ بر ملا ان سے بغض و نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔  اس صورت حال میں ضرورت تھی کہ اردوان کی شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں،  ان کی زندگی کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی جائے، ان کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے، ان کے افکار و نظریات کا تنقیدی مطالعہ کیا جائے، ترکی کے بارے میں ان کے مستقبل کے منصوبوں کو طشت از بام کیا جائے اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے۔ زیر نظر کتاب کے ذریعہ یہ ضرورت بڑی حد تک پوری ہو جاتی ہے۔

رجب طیب اردوان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے، لیکن یہ سب اخبارات و رسائل کی حد تک ہے۔ ان کی شخصیت کو بنیاد بنا کر کتابیں کم لکھی گئیں ہیں۔  اس صوت حال میں زیر نظر کتاب کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی یہ کہ یہ اردوان کی شخصیت اور ان کی کارکردگی کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔

اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر راغب السِر جانی (ولادت ۱۹۶۴ء) کا تعلق مصر سے ہے۔ انھوں نے قاہرہ یونی ورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا اختصاص گردہ و مجریٔ بول کی سرجری ہے۔ اس میدان میں انھوں نے مصر اور امریکہ کی یونی ورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔  وہ قاہرہ یونی ورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  اپنے پروفیشن سے ہٹ کر وہ اسلامی تاریخ کے ممتاز اسکالر ہیں۔  انھوں نے ۵۶؍ کتابیں تالیف کی ہیں،  جن میں اسلامی تاریخ میں قصۃ الأندلس،  قصۃ تونس، قصۃ التتار، قصۃ الحروب الصلیبیۃ اور فلسطین و واجبات الأمۃ اہمیت رکھتی ہیں۔  شخصیات پر لکھی جانے والی ان کی کتابوں میں  قصۃ الامام محمد بن عبد الوہاب کے علاوہ قصۃ أردوجان قابل ِذکر ہے، جس کا ترجمہ ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے کیا ہے۔ ڈاکٹر سرجانی کو اپنے پروفیشن اور اسلامیات دونوں میدانوں میں اعتبار و استناد حاصل ہے۔ انھیں کئی بین الاقوامی ایوارڈس سے نوازا گیا ہے۔ وہ الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے ممبر ہیں۔

زیر نظر کتاب صدر ترکی رجب طیب اردوان کے بارے میں صرف سوانحی معلومات ہی فراہم نہیں کرتی، بلکہ اس سے ترکی کی تاریخ پر بھی بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ وہ ترکی کے درخشاں ماضی کو بھی بیان کرتی ہے،  بیسویں صدی کے ربع اول میں اس کے خلاف مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو واشگاف کرتی ہے، خلافت ِاسلامیہ کے سقوط اور قومی حکومت کے قیام کی تفصیل پیش کرتی ہے، جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی خلافِ اسلام سرگرمیوں پر روشنی ڈالتی ہے، سیکولر حکومت اور فوج کے درمیان اسلامی تحریک کی پیش رفت بیان کرتی ہے،  جن حضرات نے اسلام کے تحفظ اور احیا کے لیے کوششیں کیں ان کی خدمات کا تعارف کراتی ہے۔ اردوان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، سیاسی میدان میں پروفیسر نجم الدین اربکانؒ کے تجربات اور ان کے ساتھ سیاسی جدو جہد میں اردوان کی شمولیت سے بحث کرتی ہے، اردوان کے علیٰحدہ سیاسی پارٹی بنا کر انتخابات میں شرکت اور ان میں کام یابی حاصل کر کے حکومت کی تشکیل پر روشنی ڈالتی ہے۔ اردوان کے حکومت میں آنے سے قبل ترکی کے کیا احوال تھے؟ اردوان کے بعد ان میں کیا تبدیلی آئی؟ اردوان کی پارٹی حزب العدالۃ والتمنیۃ کے مختلف ادوار ِحکومت میں ترکی کی داخلی اور خارجی سیاست میں کیا ارتقا ہوا؟ اردوان کی سربراہی میں مستقبل میں ترکی سے کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ؟ کتاب میں ان تمام سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔  یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ’’یہ کتاب دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف کا اسلوب خالص تجزیاتی ہے۔ انھوں نے بے شمار تحریروں اور خبروں کا تتبع کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے کے بعد حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے تو لگتا ہے کہ مصنف نے قبل از وقت جن امور پر رائے دی تھی، ترکی ان ہی کی طرف بڑھ رہا ہے، وہ امور اسی طرح انجام پا رہے ہیں‘‘۔ (ص ۲۴، مقدمۂ مترجم)

مدرسۃ العلوم الاسلامیۃ علی گڑھ کے مہتمم اور ماہ نامہ ’ندائے اعتدال‘ کے مدیر ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے عربی زبان کی اس قیمتی اور اہم کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ترجمے میں بہت روانی اور سلاست ہے۔ اگر ترجمہ کی صراحت نہ ہو تو اس پر طبع زاد تحریر کا گمان ہوتا ہے اور یہی ایک کام یاب مترجم کی پہچان ہے۔

فاضل مترجم کی محنت اس کتاب میں ترجمے سے بڑھ کر ہے۔ انھوں نے مقدمۂ مترجم میں،  جو سولہ (16) صفحات پر مشتمل ہے، ترکی کے موجودہ حالات پر تفصیل سے اظہار ِخیال کیا ہے۔ ترکی کے خلاف عالمی طاقتوں کی جانب سے کس طرح سازشوں کا جال بُناجا رہا ہے؟ اردوان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے وہ کیا تدابیر اختیار کر ہے ہیں ؟ ان سے مستقبل میں کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ؟ ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔

عربی کتاب پہلی مرتبہ 2011ء میں شائع ہوئی تھی۔ مترجم کے پیش نظر کتاب کا چوتھا ایڈیشن رہا ہے، جو 2012ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ پانچ برس کے عرصے میں عالمی حالات تیزی سے بدلے ہیں اورترکی میں بھی بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔  اس لیے فاضل مترجم نے بہ طور ضمیمہ اپنی ایک تحریر [46 صفحات] بھی شامل کر دی ہے، تاکہ 2012ء کے بعد سے اب تک ترکی کی صورت حال، اردوان کی کارکردگی اور مختلف ایشوز پر ان کا نقطۂ نظر واضح ہو جائے۔ یہ دراصل مترجم کی وہ تحریریں ہیں جو وہ اپنے مجلہ ـ’ندائے اعتدال‘ میں وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔

اس کتاب کی ایک اور خوبی ہے، جس کا تذکرہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کوئی شخص کسی کتاب کا ترجمہ کرے، لیکن اسے کتاب کے موضوع سے جذباتی وابستگی نہ ہو تو اس کا ترجمہ فنی اعتبار سے تو درست ہو سکتا ہے، لیکن اس میں حسن ِادا کی کمی پائی جائے گی۔ اس کے بر خلاف اگر موضوع مترجم کا پسندیدہ ہو اور اس سے وہ جذباتی وابستگی رکھتا ہو تو اس کے ترجمے میں جوش، روانی اور جذبات کی فراوانی بہ خوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی حال اس کتاب کا بھی ہے۔  ڈاکٹر طارق ایوبی کی عالم اسلام کے حالات پر گہری نظر ہے۔ وہ اسلام کے نقیب اور ترجمان ہیں۔  کسی ملک میں اسلام پسندوں کو کام یابی حاصل ہوتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہیں ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔  ترکی کا قضیہ بھی ان کا اپنا قضیہ ہے۔ اس لیے اس کتاب کے ترجمے میں ان کے جذبات کی شمولیت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں عالم اسلام میں دو طرح کے ٹرینڈ چل رہے ہیں : ایک کے ترجمان ترکی کے صدر رجب طیب اردوان ہیں اور دوسرے کی ترجمانی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔  اردوان اپنے ملک کی  آزاد اور خود مختار پالیسی تشکیل دے رہے ہیں۔  وہ ترک عوام کو ملک کی تعمیر و ترقی میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتے ہیں۔  وہ ترکی کے تاریخی کردار کی بازیافت چاہتے ہیں۔  وہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے داعی اور اسلام کے علم بردار ہیں۔  اس لیے بڑی حکمت اور بصیرت کے ساتھ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے ملک میں اسلام کا بول بالا ہو۔ دوسری طرف محمد بن سلمان مغربی طاقتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں جو ان کے مغربی آقا ان سے کرانا چاہتے ہیں۔  ان کے ذریعہ اسلام پسندوں کے لیے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور اسلام دشمنوں سے محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔  فلمی تھیٹر قائم کیے جا رہے ہیں اور رقص و سرور کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں۔  بہ الفاظ دیگر اردوان اپنے ملک کو اسلام سے قریب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،  جب کہ محمد بن سلمان کی حرکتیں اپنے ملک کو اسلام سے دور لے جا رہی ہیں۔

سعودی عرب کی یہ صورت حال اسلام پسندوں کے لیے تشویش کا باعث ہے، لیکن ہمارے ملک کا ایک طبقہ سعودی عرب کی ’اندھ بھکتی‘ میں مبتلا ہے۔ ان حضرات کے دلوں میں سعودی عرب کے غیر اسلامی اقدامات پر کوئی اضطراب پیدا نہیں ہوتا، لیکن ترکی کی ترقی، خود اعتمادی، اسلام پسندی، دینی غیرت و حمیت، مغربی ممالک سے پنجہ آزمائی اور دیگر ممالک کے مسلمان مظلوموں کی حمایت انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ اردوان کو ’امیر المومنین‘ کا طعنہ دیتے ہیں،  ان کے اسلامی اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں خامیاں تلاش کرکے انھیں نمایاں کرنے میں لگے رہتے ہیں۔  ان بیچاروں کو نہیں معلوم کہ سعودی عرب مدت سے اسلام کا گہوارہ رہا ہے۔ وہاں بے دینی اور فحاشی عام کرنے کا چھوٹے سے چھوٹا اقدام لائق مذمت ہے، جب کہ ترکی میں گزشتہ سو سال سے اسلام پر سخت ترین پابندیاں عائد رہی ہیں اور عریانی،  فحاشی، بدکاری، شراب نوشی اور دیگر برائیوں کی کھلی چھوٹ رہی ہے، اس لیے اگر وہاں اب بھی بہت سی برائیوں پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے تو وہاں کے حکم راں اس پر سرزنش کے نہیں،  بلکہ ہم دردی کے مستحق ہیں اور ان کی کم زوریوں کو سعودی عرب میں برائیوں کو فروغ دینے کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کتاب میں مترجم نے اپنی تحریروں میں جا بجا اس پہلو پر بھی اظہار خیال کیا ہے اور دینی غیرت و حمیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔

اردو زبان میں یہ کتاب اپنے موضوع پر بروقت رہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب محض ایک شخص کی سوانح حیات نہیں ہے، بلکہ ایک ملک کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس میں ماضی کا تذکرہ ہے، حال کے اقدامات کا بیان ہے اور مستقبل کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ترکی کا تجربہ دیگر ممالک میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام پسندوں کے لیے رہ نمائی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ امید ہے،  اس کتاب کو علمی و دینی حلقوں میں قبول عام حاصل ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔