فسادات کا سبق – بڑے لوگ بچ جاتے ہیں یا بچا لیے جاتے ہیں

رویش کمار

یہ بھیڑ کا اسکیچ ہے. یہ بھیڑ کہیں بھی اور کبھی بھی بن سکتی ہے. کل بھی بنتی تھی اور آج بھی بن رہی ہے. میں اس بھیڑ کی بات کر رہا ہوں جو جمع ہوتے ہوتے پانچ ہزار  تک پہنچ جاتی ہے اور احمد آباد کے گلبرگ سوسائٹی پر دھاوا بول دیتی ہے. احسان جعفری کو ان کے ہی گھر میں جلا کر مار دیا جاتا ہے. بھیڑ 69 لوگوں کو مار کر چلی جاتی ہے. 14-15 سال پہلے کی بات ہے. آج سے 32 سال پہلے اسی طرح کی بھیڑ دہلی کی سڑکوں، محلوں میں بن جاتی تھی اور سکھوں کا قتل عام کرکے چلی جاتی تھی. کئی بار یہ خیال آتا ہے کہ کسی کو مار دینے والی بھیڑ کیسے بن جاتی ہوگی، جو لوگ ایسی بھیڑ میں شامل ہوتے ہیں، وہ اچانک کسی کو مارنے کی مہم میں کس طرح شامل ہو جاتے ہیں. کیا سبھی کسی پارٹی کے ہوتے ہوں گے، کوئی ہانک کر لے جاتا ہوگا یا خود ہی شامل ہو جاتے ہوں گے. کسی کو مار کر آنے کے بعد اپنے کپڑے کہاں چھپاتے ہوں گے، گھر میں کس کس کو بتاتے ہوں گے کہ آج ہم فلانی بھیڑ میں کسی کو مارنے گئے تھے. ظاہر ہے سب کے نام تو مقدمے میں نہیں آتے مگر بھیڑ میں جانے والوں کو تو پتہ ہوتا ہوگا. کیا انہیں کبھی ڈر نہیں لگتا ہوگا، کبھی افسوس نہیں ہوتا ہوگا کہ کسی کے بھڑکانے پر قتل کر بیٹھے اور بھڑکانے والا سیاسی ہوا گرماتے گرماتے اقتدار کی چوٹی پر پہنچ گیا. سینکڑوں فسادات میں بھیڑ بن کر کسی کو مار آنے والے لوگ اکیلے میں کیا سوچتے ہوں گے.

کانگریس حکومت کے وقت ہوئے ممبئی اور بھاگل پور فسادات، ایس پی حکومت کے وقت ہوئے مظفرنگر، اعظم گڑھ کے فسادات … سینکڑوں فسادات ہوئے اور آج بھی ہوتے جا رہے ہیں. جب بھی ہم ٹی وی پر فسادات کی بحث کرتے ہوں گے تو کیا بھیڑ میں شامل ہوئے لوگ بھی دیکھتے ہوں گے، معلوم نہیں. اگر آپ ایسی بھیڑ کا حصہ رہے ہیں یا ایسے کسی کو جانتے ہیں تو مجھے اکیلے میں بتا سکتے ہیں. میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا. کچھ سوال پوچھوں گا، کچھ بات کروں گا.

ایمان کی بات پہلے کر لی کیونکہ انصاف کی باتوں میں ایسی باتیں اور ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جنہیں میں نے خاکے کے ذریعہ آپ کو دکھایا. 28 فروری 2002 کے دن احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی پر بھیڑ نے حملہ کر دیا تھا جس 69 افراد ہلاک ہو گئے. فسادیوں نے کئی لوگوں کو زندہ جلا کر مار دیا. 39 کی لاشیں ملیں مگر باقی کی ملی بھی نہیں. 14 سال سے چل رہے اس مقدمے میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ ایس آئی ٹی نے 66 لوگوں کو ملزم بنایا تھا جن میں سے وہ 36 کے خلاف کافی ثبوت پیش نہیں کر پائی. اس کیس میں ایک پولیس افسر بھی ملزم تھا جو بری ہو گیا ہے. سزا کا اعلان 6 جون کو ہوگا.

اس فیصلے میں اہم بات یہ رہی کہ کورٹ نے اسے کسی سازش کے تحت ہوئی ہلاکتیں نہیں تسلیم کیا ہے. کل قصورواروں میں سے 13 کو کم سنگین جرم میں مجرم مانا  یعنی ایس آئی ٹی نے جن 66 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کیا تھا، اس میں سے آدھے لوگوں کو سزا دلانے میں ناکام رہی.

تو کیا بغیر کسی سازش یا منصوبہ بند طریقے سے اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ہوگا. بی جے پی کے موجودہ کونسلر وپن پٹیل اور کانگریس رہنما میگھ سنگھ چودھری بری ہو گئے ہیں، وشو ہندو پریشد سے منسلک رہے اتل وید مجرم پائے گئے. کیلاش دھوبی بھی مجرم پایا گیا ہے لیکن وہ ضمانت پر چھوٹنے کے بعد فرار ہے. مانگيلال جین کو بھی سزا ملی ہے جس کے بارے میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر آشیش کھیتان نے ٹویٹ کیا ہے کہ مانگيلال جین کا انہوں نے اسٹنگ کیا تھا. آشیش کھیتان نے اپنے اسٹنگ کی باتیں فیس بک پر ڈالی ہیں جو اس وقت کافی شائع ہوئی تھیں اور مشہور ہوئی تھیں. اس کے ایک حصے میں مانگيلال جین، آشیش کھیتان سے کہہ رہا ہے کہ:

آشیش كھیتان- تو اس دن آپ  پورے دن بس بھیڑ میں تھے

مانگيلال جین- بھیڑ میں تھے.

آشیش كھیتان- اور جے شری رام کا نعرہ لگا

مانگيلال جین- بھیڑ میں ہم، ہمارے دوست بہت سے لوگ تھے. جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، اس میں سر دیکھو کتنے تو چہرے ایسے تھے جنہیں ہم پہچانتے نہیں ہیں لیکن بھرت تیلی، اتل بیدھ بہت سارے لوگ آئے تھے. دور دور سے. باپو نگر سے، میگھني نگر سے.

آشیش كھیتان- لیکن بھرت تیلی اور اتل بیدھ اپنی مضبوطی سے لڑے

مانگيلال جین- یہ لوگ تھے سر، ٹولی میں تھے اور ان لوگوں کے ساتھ میں بہت سارے لڑکے تھے اس دن. پچاس ہزار میں کسے پہچانے کون تھے.

آشیش كھیتان- یہ اپنے وشو ہندو پریشد والے آئے تھے

مانگيلال- ہاں، گاڑی بھر بھر کر آئے سب

مانگيلال جین کو سزا ہوئی ہے. مانگيلال جین وشو ہندو پریشد کے جس اتل بیدھ کا نام لے رہا تھا اسے بھی کم سنگین جرم میں سزا ہوئی ہے. اسٹنگ آپریشن میں مانگيلال جین نے ٹھیک ہی کہا کہ اس دن کی بھیڑ میں اتنے چہرے تھے کہ پہچانے نہیں تھے. لوگ کئی محلوں سے گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے اور آئے بھی. گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایس 6 کوچ میں آگ لگانے سے 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے اس کے بعد گجرات کے بڑے حصے میں فسادات بھڑک اٹھے تھے. یہ آپ طے کریں کہ مانگيلال جین اور اتل بیدھ کو کیا ملا اور ان کے اس تشدد کا فائدہ اٹھا کر کسے کیا ملا؟ انصاف ہوا یا نہیں یہ سوال کس کے لئے اہم ہے؟ جو بچ گیا اس کے لئے یا جو مار دئے گئے لوگوں کی خاطر لڑنے کے لئے بچا رہا.

گلبرگ سوسائٹی کی رہنے والی پارسی خاتون روپا مودی کا گھر بھی جلا دیا گیا تھا. روپا مودی کا بیٹا اس دن سے غائب ہے. کئی سال وہ انتظار کرتی رہیں مگر سات سال بعد سرکاری کاغذوں میں اسے مردہ قرار دے دیا گیا. روپا مودی کی کہانی پر ہی فلم ‘پرجانيا’ بنی تھی. روپا کو بھی اس فیصلے کا انتظار تھا. گلبرگ سوسائٹی کے 29 بنگلوں اور چھ سات فلیٹ میں ایک گھر ان کا بھی تھا.

یہ معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جائے گا. 2002 سے آٹھ افراد حراست میں تھے جن میں سے زیادہ تر مجرم پائے گئے ہیں. فیصلے کی کاپی پڑھنے کے بعد ہی باقی باتیں تفصیل سے معلوم ہوں گی. سابرمتی ایکسپریس سے لے کر گجرات میں ہوئے کئی فسادات میں سزا تو ہوئی ہے. یہ بھی صحیح ہے کہ بہت سے لوگ چھوٹ گئے مگر سزا پانے والوں اور اس وقت کی میڈیا میں آئے نام میں کافی یکسانیت بھی بھی پائی جاتی ہے. اگست 2012 میں نرودا پاٹیا معاملے میں بھی فیصلہ آیا تھا. اس میں 31 لوگوں کو مجرم پایا گیا تھا جس میں 30 لوگوں کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی. ان میں مایا کوڈنانی بھی تھیں جو اس وقت گجرات میں مودی کابینہ میں وزیر تھیں. مایا کو استعفی دینا پڑا تھا. مایا کوڈنانی اس وقت ضمانت پر ہیں. بابو بجرنگی جیل میں ہے. جولائی 2015 میں اس معاملے کی گجرات ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے.

گجرات فسادات سے متعلق کئی معاملات میں فیصلے آئے ہیں اور آتے جا رہے ہیں. سپریم کورٹ کی نگرانی میں بھی کئی معاملے چلے تو کچھ فاسٹ ٹریک کورٹ اور اسپیشل ٹرائل کورٹ میں. کئی معاملات میں بری ہونے کی تعداد بہت ہے مگر اطمینان کیا جا سکتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں کمیونٹی سے لوگ سزا پانے والوں کی فہرست میں ہیں. پتہ نہیں جس بھیڑ کا حصہ بن کر وہ گئے تھے، اب جیل جانے کے بعد وہ بھیڑ ان کے خاندان کا حال دریافت کرنے جاتی بھی ہوگی یا نہیں. اس لئے ایسی بھیڑ کا حصہ بننے سے پہلے سوچ لیجیے گا. کچھ بچ جائیں گے مگر کچھ نہیں بھی بچ پائیں گے.

سپریم کورٹ کی ایس آئی ٹی نے سابرمتی ایکسپریس قتل میں 94 لوگوں کو ملزم بنایا تھا. 2011 میں 31 لوگوں کو سزا دی گئی اور باقی بری کر دیے گئے. سزا یافتہ لوگوں میں 11 کو عمر قید اور باقی کو پھانسی کی سزا ملی ہے.

اس کا اہم ملزم فاروق محمد گزشتہ ماہ پکڑا گیا ہے. 2011 میں مہساڑا کے سردار پورہ فسادات معاملے میں فاسٹ ٹریک کورٹ نے 31 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی، 42 کو بری کر دیا. 2012 میں مہساڑا کے ديپڑا دروازہ معاملے میں 21 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی. سزا پانے والے سبھی پٹیل کمیونٹی کے تھے. 2012 میں اوڈ قصبے میں بوہرہ خاندان کے ایک گھر پر ہوئے حملے کے معاملے میں 23 لوگوں کو سزا ہوئی، 23 بری ہو گئے. 2016 میں کھیڑا ضلع میں 118 لوگوں کو بری کر دیا. بری ہونے والوں میں ہندو مسلمان دونوں تھے.

کسی کیس میں کوئی بڑا نیتا نہیں پھنسا ہے. مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کو چھوڑ کر. ہر کیس میں سیاسی جماعت کے لوگ چھوٹتے چلے گئے ہیں. ڈیڑھ سو کے قریب لوگوں کو سزا ہوئی ہے. دسمبر 2015 میں اسٹیٹ ہوم منسٹر ہری بھائی چودھری نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ دہلی کی مختلف عدالتوں میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں 442 لوگوں کو سزا ہو چکی ہے. یہ موجودہ مرکزی حکومت کا راجیہ سبھا میں دیا بیان ہے. ہماری ساتھی نیتا شرما نے پتہ لگا کر بتایا ہے کہ دہلی میں سکھ مخالف فسادات میں 650 کیس درج ہیں. اس وقت بھی الگ الگ جیلوں میں 70 سے 80 افراد الگ الگ قسم کی سزا کاٹ رہے ہیں. ان معاملات میں بھی ہزاروں لوگ بری ہوئے ہیں. مگر کسی بڑے رہنما کو سزا نہیں ہوئی. تو کیا ان فسادات کا سبق یہی ہے کہ بڑے لوگ بچ جاتے ہیں یا بچا لیے جاتے ہیں؟ جو کارکن ٹائپ کے پارٹی بھکت ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگوں کو عمر قید کی سزا سے لے کر پھانسی کے پھندے تک گزرنا پڑتا ہے. 24 لوگ مل کر کیا 69 لوگوں کو مار سکتے ہیں ….! کچھ تو ہوں گے جو بچے ہوں گے، آج کی رات ٹی وی دیکھ رہے ہوں گے…. ان کو بھی خوش آمدید پرائم ٹائم میں …!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔