پانچ ریاستوں میں اعلی قسم کا بھرشٹاچار

حفیظ نعمانی
کل دن بھر یہ خبر گونجتی رہی کہ تمل ناڈو کے دو اسمبلی کے الیکشن دوبارہ کر دئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے انہیں ناجائز قرار دیدیا ہے۔ اور سبب اسکا یہ ہے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ منصوبہ بند طریقہ سے پیسے دیکر ووٹ خرید لے گئے تھے۔
اس خبر کے بعد رات کو ایک مذاکرہ میں بحث کا موضوع یہ تھا کہ راجیہ سبھا کے الیکشن میں بی جے پی کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ 17سیٹیں جیت لے۔ اس کے بعد کترن کے طور پر اسکے جو ووٹ بچ رہے ہیں وہ خیرات کردے یا فروخت کر دے یاصوبائی کونسل کے لئے اس ریز گاری کو کام میں لے آئے ۔یہ بی جے پی کی بد نصیبی ہیکہ اسے امت شاہ جیسے صدر ملے ہیں ۔جنکی صلاحیتوں کی کوئی تعریف کرے یا نہ کرے وزیر اعظم انکے مرید ہیں ۔انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ چونی اٹھنی اور ایک روپے کے سکوں سے ہاتھی خریدیں گے۔ یعنی وہ جو کترن بچی ہے اس سے بھی جیتے جاگتے راجیہ سبھاکے ممبربنا کر دکھائیں گے۔
اتر پردیش میں ان کی صلاحیت اتنی ہے کہ آرام سے ایک امیدوار وکوکامیاب کرالیں ۔اسکے بعد صرف سات ووٹ انکے پاس بچتے ہیں جو اس لئے کترن کاایک ٹکڑا ہیں کہ ایک ممبر کو جیتنے کے لئے 34ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ امت شاہ نے گجرات کے ایک ارب پتی کو آمادہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کی عزت داؤ پر لگا دے اور اپنے روپے کے بل پر سات ووٹوں کو 34بنا دے ۔یہ بالکل ایسی ہی بات ہوئی کہ ایک گھوڑا اور اسکی رسی 34روپے میں آتے ہیں سات روپے کی رسی اور 27روپے کا گھوڑا ۔امت شاہ کی کوشش ہے کہ گھوڑے پر بیٹھ کر رسی ہاتھ میں لئے شریمتی پرینتی راجیہ سبھا آجائیں ۔امت شاہ نے انہیں رسی دیدی ہے اب گھوڑے کا انتظام ارب پتی کو کرنا ہے ۔اور ان کو اس لئے لایا گیا ہے کہ گھوڑا اگر ایک ارب میں ملے تو وہ خرید کر اپنی بیگم کو دیدیں ۔یہ ان دنوں میں ہو رہا ہے جب وزیر اعظٖم اور امت شاہ دونوں کا یہ کہتے کہتے حلق سوکھا جارہا ہے کہ ہماری دو برسوں کی حکو مت میں کوئی بھرشٹا چار نہیں ہوا۔ شاید اس لئے وہ راجیہ سبھا کی پانچ سیٹیں بھرشٹا چار کے بل پرقبضہ میں لینا چاہتے ہیں تاکہ۔ع دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا۔
یادہوگا کہ ہم نے بار بار لکھا ہے کہ صوبوں کے الیکشن میں جو وزیراعظم مودی اپنی جا ن نکال کر رکھ دیتے ہیں اور بھو ل جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہیں وہ اس لئیے نہیں ہوتا ہے کہ انہیں صوبوں میں اپنی حکومت چاہئے ۔بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہاں سے راجیہ سبھا کے ممبر مل جائیں گے ۔جنکی طاقت کے بل پر وہ جیسی حکومت چاہیں گے ایسی کریں گے ۔اس لئے وہ پانچ سیٹیں لینے کے لئے ہزار دو ہزار کروڑ بھی خرچ کر سکتے ہیں ۔اور کسی بھی پارٹی کے ووٹ خرید سکتے ہیں چاہے ایک ایک ووٹ دس دس کروڑ روپے میں ملے۔
مدھیہ پردیش میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ایک سیٹ پر بی جے پی کو 9ووٹوں کی ضرورت ہے اور اسکے مقابلہ پر کانگریس امیدوار کوصرف ایک ووٹ کی ضرورت ہے ۔جو صورت اتر پردیش اور مدھیہ پر دیش میں ہے وہی یا اس سے ملتی جلتی ہر یانہ اتر اکھنڈ اور جھارکھنڈ میں ہے ۔ان پانچوں ریاستوں میں ایک ایک سیٹ بھرشٹا چار کے ذریعہ جیتی جائے گی ۔لیکن امت شاہ کچھ بھی کریں وہ اس لئے بھرشٹا چار نہیں کہا جائے گا کیونکہ یہ وزیر اعظم کی حکومت اور امت شاہ کی حکمراں پارٹی کر رہی ہے اور شہنشاہ کبھی بھر شٹا چار نہیں کرتے ۔یہ ہم نے اس لئے لکھدیا کہ رائے بریلی میں سونیا گاندھی نے یہ کہہ دیا تھا کہ مودی اس ملک کے شہنشاہ نہیں ہیں پردھان منتری ہیں ۔یہ بات بی جے پی کے ہر لیڈر اور ہر ورکر کو بری لگی کہ یہ کیسے کہدیا کہ وہ شہنشاہ نہیں ہیں ۔انکا مطلب یہ ہے کہ وہ شہنشاہ ہیں ۔
شاید 1970کی بات ہے کہ اتر پر دیش میں چودھری چرن سنگھ کی حکومت تھی ۔سو شلسٹ پارٹی کے نیتا راج نرائن جی انکے ساتھ تھے۔ چودھری صاحب انہیں راجیہ سبھا بھیجنا چاہتے تھے جسکے 34ووٹوں کی ضرورت تھی ۔چودھری صاحب نے 36ووٹ انہیں دئے اور نیتا جی کو یقین دلایا کہ میر ے جتنے ایم ایل اے ہیں وہ فولاد کے بنے ہوئے ہیں انہیں کوئی کسی بھی قیمت پر توڑ نہیں سکتا ۔اسکے باوجود میں نے دو ممبر جو زیادہ تھے وہ بھی آپ کے کوٹہ میں کردئے ۔اس گفتگو کے دوسرے دن ہی خبر اڑی کہ ایک بہت بڑے صنعت کار آزاد امیدوار کی حیثیت سے راجیہ سبھا کا الیکشن لڑنے آئے ہیں ۔نیتا جی نے سمجھ لیا کہ یہ اندرا جی کا کھیل ہے ۔
یہ حقیقت تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو جس سے ناراض ہوتے تھے اسے پارلیمنٹ میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔جیسے جے پر کاش نارائن ،ڈاکٹر رام منوہر لوہیا ،آچاریہ کرپلانی ۔جو اسوقت پارلیمنٹ میں جاسکے جب پنڈت جی صاحب فراش ہو چکے تھے ۔یہی ادا اندرا جی کی تھی ۔وہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں ہر بار راج نرائن سے مقابلہ کرتی تھیں ۔اور جب نیتا جی لوک سبھا کا الیکشن نہیں جیت سکے تو راجیہ سبھا میں انھوں نے جانا چاہا ۔انہیں ہرانے اور انکے جو ووٹ تھے انہیں خریدنے کے لئے اندراجی نے ایک ارب پتی کو بھیج دیا ۔راج نرائن جی ہی نہیں چودھری صاحب کو بھی محسوس ہوگیا کہ اندراجی آر پار کی لڑائی کے موڈ میں ہیں ۔اسوقت وزیراعلا بہو گنا جی تھے۔چودھری صاحب نے بہو گنا جی سے کہا کہ راج نرائن جی کے الیکشن میں کبھی ووٹنگ کی اجازت دیدی جائے ۔بہوگنا جی نے لاکھ کہا کہ کوئی بے ایمانی نہیں ہونے دوں گا ۔لیکن چودھری صاحب نہیں مانے ۔اور چودھری صاحب کی شخصیت اتنی بھاری بھر کم تھی کہ بہو گنا جی کو انکی بات ماننا پڑی ۔اور انکا الیکشن کھلا،الیکشن ہوا جس میں ناکام ہونے کا سوال ہی نہیں تھا ۔
اب باری اندرا جی کی تھی جو اس خیال سے کہ انکا سب سے بڑا سیاسی دشمن راج نرائن راجیہ سبھا میں آگیا ۔انگاروں پر لوٹ رہی تھیں ۔اور یہ انکی خاص ادا تھی کہ وہ اپنی عظمت پرآنچ نہیں آنے دیتی تھیں ۔انھوں نے بہو گنا جی سے ایک لفظ نہیں کہا ۔بس موقع کے انتظار میں رہیں ۔دو چار مہینہ کے بعد بہوگنا جی ایسے ہی دہلی گئے جیسے صوبوں کے وزیراعلی صوبہ کے کسی مسئلہ پر بات کرنے جایا کرتے ہیں ۔اس سفر میں وہ اپنی لیڈر اندرا جی سے بھی ملنے گئے ۔اور اپنے کہنے کے مطابق میڈم نے صوبہ کے حالات پر اس انداز میں باتیں کیں جیسے وہ ہر بار کیا کرتی تھیں ۔اور تواضع میں بھی وہ سب چیزیں آئیں جو آیا کرتی تھیں ۔پھر جب ہر بات ہوگئی تو اجازت لیکر بہو گنا جی رخصت ہونے لگے تو میڈم نے کہا کہ ذرا دھون سے ملتے جائیگا ۔
بہو گنا جی مسکراتے ہوئے دھون صاحب کے پاس گئے اور کہا کہئے کیا حکم ہے ؟میڈم نے حکم دیا ہے کہ آپ سے ملتاجاؤں انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میڈم نے کہا ہے کہ بہو گنا جی سے کہنا کہ استعفا دیتے جائیں ۔یہ جملہ کیا تھا بم تھا بہو گنا جی نے واپس جاکر بات کرنا چاہی تو دھون نے کہا کہ اب انکے پاس وقت نہیں ہے ۔بہو گنا جی کہتے ہی رہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟اتر پر دیش کے مسائل پر ایک گھنٹہ تک وہ بات کرتی رہیں ۔بالکل اس اندازسے جیسے ہمیشہ کرتی تھیں ۔لیکن دھون یہی کہتے رہے کہ اب انکے پاس آپ کے لئے وقت نہیں ہے ۔
بہو گنا جی دہلی میں رک گئے اور تین دن پڑے رہے ۔لکھنو سے بابو تر لوکی سنگھ اور اپنے حامیوں کو دہلی بلایا کہ وہ اندرا جی سے بات کریں ۔سب نے بات بھی کی لیکن میڈم نے یہی کہا کہ وہ اسے معاف نہیں کرسکتیں کہ بہو گنا جی نے راج نرائن کے لئے کھلی ووٹنگ کی اجازت ان سے پوچھے بغیر کیسے دیدی؟ اس واقعہ کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ جب صاف ستھرے الیکشن کوخطرہ ہو تو کھلی ووٹنگ بھی ہو سکتی ہے ۔اتر پردیش میں نشانہ پر کپل سبل ہیں جو بہت بڑے وکیل ہیں ۔اور صوبہ میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے ۔پھر کیوں اتر پردیش اور اتر ا کھنڈ کے ایک ایک الیکشن کی کھلی ووٹنگ نہیں کرائی جاتی ؟اور الیکشن کمیشن کو درمیان میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟ کہ اتر پر دیش میں رسی کے لئے دولت کے بل پر گھوڑا خریدا جارہا ہے ۔اور اتر ا کھنڈ میں 28کو دولت کے بل پر31بنا یا جارہا ہے ۔کم از کم ان پانچوں سیٹوں کاتو کھلا الیکشن ہو ۔ ورنہ الیکشن کمیشن پر بھی الزام آئے گا کہ وہ حکومت کے دباؤ میں رہا اور گھوڑوں بکروں کی طرح ایم ایل اے خریدے جاتے رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔